مسیحی ماہنامہ ’’شاداب‘‘ لاہور کے اکتوبر ۲۰۱۲ء کے شمارے میں شائع ہونے والی ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ:
’’عیسائیت کے پیروکاروں میں کمی اور سیکولرزم سے مقابلہ کے لیے دنیا بھر کے بشپس کا اجلاس ویٹی کن سٹی میں ہو گا، یہ اجلاس تاریخی مگر متنازعہ دوسری ویٹی کن سٹی کونسل کی ۵۰ ویں سالگرہ کے موقع پر کیا جا رہا ہے جس سے عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ بینڈکٹ خطاب کریں گے۔‘‘
دنیا میں مذاہب کے حوالہ سے مردم شماری اور آبادی کے لحاظ سے مسیحیت کو سب سے بڑا مذہب شمار کیا جاتا ہے اور مسیحیوں کا دعویٰ یہ ہے کہ ان کی آبادی دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ البتہ زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں اس لیے کہ گزشتہ دو صدیوں کے دوران مذہب سے انحراف کا سب سے زیادہ سامنا مسیحیت کو کرنا پڑا ہے اور نسلی طور پر مسیحی شمار کیے جانے والے مسیحیوں کی ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو خدا، مذہب، قیامت اور وحی پر یقین نہیں رکھتے اور آج کی اصطلاح میں ’’نان بلیورز‘‘ کہلاتے ہیں۔ یعنی وہ لوگ جو خدا اور قیامت کو نہیں مانتے اور ان کے نزدیک اس دنیا کی زندگی کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے اور نہ ہی مشاہدات و محسوسات کے دائرہ سے باہر وہ کسی غیبی جہان (عالم غیب) پر یقین رکھتے ہیں۔
مسیحی دنیا نے ’’انقلاب فرانس‘‘ کے موقع پر ’’سول سوسائٹی‘‘ کے نام پر مذہب سے انحراف اور معاشرتی زندگی سے مذہب کو بے دخل کرنے کا جو اجتماعی قدم اٹھایا تھا آج اسے خود اس کے تلخ نتائج کا سامنا ہے، کیونکہ لامذہبیت (سیکولرزم) نے مسیحی معاشرہ کی اخلاقی اور مذہبی قدروں کو سوالیہ نشان بنا کر رکھ دیا ہے اور مسیحی دانشوروں کے خیال میں مذہب کی طرف واپسی کے بغیر اب ان کے لیے اور کوئی راستہ باقی نہیں رہ گیا۔ برطانوی ولی عہد شہزادہ چارلس نے کچھ عرصہ قبل آکسفورڈ میں لیکچر دیتے ہوئے مسیحی دنیا کو یہ کہہ کر اس حقیقت کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی تھی کہ ہم نے وجدانیات (روحانیات) سے انحراف کر کے انسانی سوسائٹی کو نقصان پہنچایا ہے اور وجدانیات کی طرف واپسی اب نسل انسانی کی اہم ترین ضرورت بنتی جا رہی ہے۔
ہمارے خیال میں ویٹی کن سٹی کی یہ سوچ کہ مسیحیت کے پیروکاروں میں مسلسل کمی ہو رہی ہے اور سیکولرزم کا مقابلہ ضروری ہوتا جا رہا ہے، مذہب سے انحراف کی اس تحریک کا ردعمل ہے جس کا آغاز انقلاب فرانس سے ہوا تھا اور اب مغربی فکر و دانش اپنے اس منطقی ردعمل کو منظم کرنے کے راستے تلاش کرتی دکھائی دے رہی ہے۔
ہمیں یقین ہے کہ مغربی دنیا جب مذہب سے انحراف کے تلخ ثمرات و نتائج سے اکتا کر مذہب کی طرف واپسی کا فیصلہ کرے گی تو وہی مذہب (اسلام) اس کی پناہ گاہ ثابت ہو گا جس کے پاس اس کی اصل تعلیمات موجود ہیں اور جس نے وحی الٰہی اور نبوی تعلیمات کو نہ صرف بحفاظت سنبھال رکھا ہے بلکہ اپنی معاشرتی زندگی کو مغرب کی تمام تر کوششوں کے باوجود مذہب سے لاتعلق نہیں ہونے دیا۔ البتہ ہمیں ان مسلمان دانشوروں پر ترس آرہا ہے جو مغرب کی اس متوقع قلابازی کے امکانات کو کھلے بندوں دیکھتے ہوئے بھی مسلمانوں کو سیکولرزم کی طرف لے جانے کی سعی ناکام میں مصروف ہیں اور اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کا مسلسل ضیاع کیے جا رہے ہیں۔