لاہور سے ہیتھرو کا سفر اور مغرب کے خاندانی نظام کی ایک جھلک

   
تاریخ : 
۱۵ جون ۱۹۹۹ء

اس دفعہ لندن آنے کے لیے قطر ایئرویز کا ذریعہ اختیار کیا، ٹریول ایجنٹ کا کہنا تھا کہ یکم جون سے پیک سیزن شروع ہو جاتا ہے اور کرائے خاصے بڑھ جاتے ہیں اس لیے مئی کے آخر تک سفر کر لیں۔ چنانچہ ٹریول ایجنٹ سے کہہ دیا کہ پیک سیزن شروع ہونے سے پہلے جو فلائٹ بھی مناسب ملتی ہو اس کی سیٹ بک کرا دیں۔ یوں ۳۱ مئی کو لاہور سے دوحہ اور اسی روز دو گھنٹے کے وقفہ سے دوحہ تا لندن فلائٹ مل گئی۔ ۳۰ مئی کو رات مسجد امن باغبانپورہ لاہور میں قیام کیا، صبح نماز فجر وہیں پڑھائی، مختصر درس دیا اور پھر مولانا قاری جمیل الرحمن اختر مجھے ایئرپورٹ چھوڑ آئے۔

یہ سورج کے رخ پر سفر کا کرشمہ تھا کہ پونے آٹھ بجے لاہور سے روانگی ہوئی اور سوا تین گھنٹے میں فلائٹ دوحہ پہنچی۔ وہاں کم و بیش اڑھائی گھنٹے وقفہ کے بعد دوحہ کے وقت کے مطابق بارہ بجے فلائٹ لندن کے لیے روانہ ہوئی۔ سوا سات گھنٹے کی پرواز کے بعد جب جہاز لندن کے وقت کے مطابق چھ بجے کے لگ بھگ ہیتھرو ایئرپورٹ پر اترا تو پاکستان میں رات کے دس بج چکے تھے۔ مگر حنفی فقہ کے مطابق ابھی لندن میں ظہر کا وقت باقی تھا۔

طویل سفر میں کوئی ہم ذوق ساتھی نہ ہو تو اخبار یا کتاب کے ساتھ وقت گزرتا ہے۔ پہلے جہاز یا بس میں نیند آجایا کرتی تھی اب کچھ عرصہ سے یہ سلسلہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ لاہور سے دوحہ کی فلائٹ میں کوئی اخبار ہاتھ نہیں آیا۔ اخبارات کی ٹرالی مجھ تک پہنچی تو اس میں صرف انگلش اخبار باقی رہ گئے تھے جو میرے کام کے نہیں تھے۔ میرا مبلغ علم زبانوں کے حوالہ سے اردو اور عربی یا کسی حد تک فارسی تک محدود ہے۔ اس لیے کوئی اخبار میسر نہ آنے پر افسوس ہوا کہ وقت گزاری کے علاوہ آج کے حالات اور خبروں سے محرومی کا معاملہ بھی اس کے ساتھ شامل ہوگیا تھا۔ مولانا قاری جمیل الرحمن اختر نے میرے دستی بیگ میں ’’خطبات دین پوری‘‘ کی ایک جلد رکھ دی تھی جو لندن کے علاقہ ہیز میں ہدایہ سنٹر کے امام حافظ حفظ الرحمن تارا پوری کے لیے تھی چنانچہ کچھ وقت اسی کی رفاقت میں گزر گیا۔

’’خطبات دین پوری‘‘ ہمارے دور کے معروف عوامی خطیب مولانا عبد الشکور دین پوریؒ کے خطبات کا مجموعہ ہے جنہیں مولانا قاری جمیل الرحمن اختر نے ٹیپ ریکارڈر کی مدد سے مرتب کر کے شائع کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے اور اب تک اس کی چار جلدیں طبع ہو چکی ہیں۔ مولانا عبد الشکور دین پوریؒ کا انتقال اگست ۱۹۸۷ء میں ہوا تھا اور وہ اپنے دور کے ممتاز دیوبندی خطباء میں شمار ہوتے تھے۔ مزاج میں سادگی تھی، مطالعہ کا ذوق رکھتے تھے، ان کی تقریر میں متعلقہ موضوع کے بارے میں معلومات کا اچھا ذخیرہ موجود ہوتا تھا، اور گفتگو میں ردیف اور قافیہ کا لحاظ رکھتے تھے جو ان کی امتیازی خصوصیت تھی۔ کتاب کے مقدمہ میں مرحوم کے حالات زندگی بیان کرتے ہوئے مولانا عبد الکریم ندیم نے ایک دلچسپ واقعہ لکھا ہے جس سے مولانا دین پوریؒ مرحوم کے ذوق کا اندازہ ہوتا ہے۔ مارشل لاء کے دور میں کسی تقریر پر ان کے خلاف مقدمہ درج ہوا جس کی فوجی عدالت میں سماعت ہوئی۔ فرد جرم عائد ہونے کے بعد فوجی عدالت کے افسر نے ان سے کہا:

’’آپ نے یہ بات کہی ہے یا نہیں؟ مجھے دلائل کی ضرورت نہیں جواب ہاں یا ناں میں دو۔‘‘

مولانا مرحوم نے برجستہ کہا:

’’جناب! نہ وکیل نہ دلیل۔ بس اللہ کفیل۔ اسی سے رحم کی اپیل۔‘‘

اس بے ساختہ جملہ پر عدالتی افسر کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور اس نے مرحوم کو باعزت بری کر دیا۔

کچھ لمحات اس کتاب کے ساتھ گزرے اور کچھ وقت قطر ایئرویز کی مہمان نوازی کی نذر ہوا۔ البتہ دوحہ پہنچے تو ایئرپورٹ کی انتظارگاہ میں ایک پاکستانی دوست کے ہاتھ میں لاہور کا ایک اخبار نظر آگیا۔ ہمارے ہاں پاکستان میں اخبار مانگ کر پڑھنا معمول کی بات ہے۔ اور اگر کوئی اخبار پڑھ رہا ہو تو اس کے پاس کھڑے ہو کر ترچھی نظروں سے یا الٹے سیدھے ہو کر ساتھ ساتھ پڑھتے جانا بھی کوئی عیب کی بات نہیں شمار ہوتا، مگر باہر کی دنیا میں یہ عجیب سی بات لگتی ہے اور ایسی حرکت کو محسوس کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں تو یوں ہوتا ہے کہ بس یا ویگن میں سفر کرتے ہوئے کوئی اخبار خریدیں تو چند لمحوں میں ورق ورق ہو کر مسافروں میں تقسیم ہو جاتا ہے اور منزل پر اترنے سے پہلے اسے دوبارہ جمع کرنا پڑتا ہے۔

اس سلسلہ میں بابائے صحافت مولانا ظفر علی خان مرحوم کا ایک واقعہ یاد آگیا ہے جو ان کے تذکرہ میں کہیں پڑھا تھا۔ مولانا ظفر علی خان مرحوم ایک دفعہ لاہور سے کسی شہر کے لیے ٹرین پر روانہ ہوئے تو روزنامہ زمیندار کا اس شہر کا بنڈل بھی ساتھ رکھ لیا کہ دستی دے دیں گے۔ راستہ میں وہ ٹرین کے ڈبے میں ضرورت کے لیے بیت الخلاء گئے تو پیچھے کسی صاحب نے اخبار دیکھنے کے شوق میں بنڈل کھول لیا۔ بنڈل کھلنے کی دیر تھی کہ چاروں طرف سے اخبار کی مانگ شروع ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اخبار ڈبوں میں تقسیم ہوگئے۔ مولانا مرحوم بیت الخلاء سے واپس آئے تو بہت سے لوگوں کے ہاتھوں میں اخبار دیکھ کر پریشان ہوگئے۔ تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ فلاں صاحب نے ہم سفری کا حق استعمال کرتے ہوئے بنڈل کھولا ہے۔ مولانا ظفر علی خان کا کہنا ہے کہ میں اندر ہی اندر سے پیچ و تاب کھا رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ آخر اس شخص کو اس حرکت کی سزا کیسے دی جائے؟ تھوڑی دیر میں نظروں ہی نظروں میں اس کے سامان کا جائزہ لیا تو اس میں مٹھائی کی ایک ٹوکری دکھائی دی جو وہ اپنے کسی رشتہ دار کے پاس لے جا رہا ہوگا۔ مولانا مرحوم نے مٹھائی کی ٹوکری نظر میں رکھ لی اور کسی مناسب موقع کا انتظار شروع کر دیا۔ کچھ وقت گزرا کہ اس شخص کو بھی بیت الخلاء جانے کی ضرورت محسوس ہوئی، بس اس کے جانے کی دیر تھی کہ مولانا ظفر علی خان نے مٹھائی کی ٹوکری اٹھائی، اسے کھولا اور مٹھائی سارے ڈبے میں بانٹ دی۔ اس شخص کے بیت الخلاء سے واپسی تک مولانا مرحوم اپنے کام سے فارغ ہو چکے تھے اور اطمینان سے اپنی سیٹ پر بیٹھے تھے۔ اس نے مٹھائی کا یہ حشر دیکھا تو بہت سٹپٹایا اور مولانا مرحوم سے الجھنے کی کوشش کی مگر چونکہ یہ خود اس کے اپنے عمل کا ردعمل تھا اس لیے اسے خاموشی اختیار کرنا پڑی۔

خیر ہمارے ہاں اس طرح کی باتیں چل جاتی ہیں۔ اس لیے دوحہ ایئرپورٹ پر پاکستانی مسافر کے ہاتھ میں لاہور کا اردو اخبار دیکھا تو تھوڑی جھجھک کے بعد اس سے مطالعہ کے لیے مانگ ہی لیا اور اس طرح اخبار بینی کے ذوق کو کچھ تسکین میسر آئی۔

دوحہ سے لندن کی فلائٹ میں قطر کا عربی روزنامہ ’’الشرق‘‘ مل گیا جس نے خاصی کمی پوری کر دی۔ یہ بین الاقوامی معیار کا روزنامہ ہے جس میں ہر ذوق کے قاری کو کچھ نہ کچھ مل جاتا ہے۔ میری عادت ہے کہ کوئی نیا اخبار سامنے آتا ہے تو اس پر مجموعی طور پر ایک نظر ڈالنے کے علاوہ مراسلات کا صفحہ توجہ سے دیکھتا ہوں۔ اس سے اس اخبار کے قارئین کی ذہنی سطح اور اس ملک کی رائے عامہ کے رجحانات کا کچھ اندازہ ہو جاتا ہے۔ اس خیال سے ’’الشرق‘‘ کے مراسلات کے صفحہ کی چھان بین کی تو اپنے ذوق کے دو مراسلے سامنے آگئے۔ دونوں کا تعلق خاندانی نظام کے حوالہ سے درپیش مشکلات سے ہے۔

ایک مراسلہ فاطمہ السلیعی نامی خاتون کا ہے جس میں انہوں نے بوسعید نامی کسی صاحب کے مراسلہ کا جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے مغرب کی تہذیبی برتری کا جو تصور دیا ہے وہ قطعی طور پر غلط ہے کیونکہ مغرب نے جس آزادی اور کلچر کو دنیا میں متعارف کرایا ہے اس کا نتیجہ خود مغرب کو بھی ذہنی انتشار اور اخلاقی انارکی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ فاطمہ السلیعی کا کہنا ہے کہ مغرب نے ٹی وی کی اسکرین پر جو کچھ دکھانا شروع کر رکھا ہے اس سے دیکھنے والے کے ذہن میں حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا کوئی تصور باقی نہیں رہتا اور روایات و اقدار کے سب دائرے ٹوٹ جاتے ہیں۔ اور مغرب ہماری نئی نسل کو اسی آزادی سے متعارف کرانا چاہتا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ٹی وی کی اسکرین کے سامنے بیٹھ کر بڑی عمر کا شخص اگر چاہے تو ایک چینل کو دیکھنے اور دوسرے کو نہ دیکھنے کا فیصلہ کر سکتا ہے اور اس طرح ٹی وی کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہنے کا اختیار اس کے ہاتھ میں رہتا ہے۔ مگر نوعمر لڑکا یا لڑکی تو ایسا نہیں کر سکتے، اس لیے وہ وہی کچھ دیکھتے ہیں جو ٹی وی دکھانا چاہتا ہے۔ اور اس طرح مغرب ان کے ذہنوں کو اپنے کلچر اور خاندان سے باغی بنانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔

دوسرا قابل توجہ مراسلہ بوسعید صاحب کا ہے، معلوم نہیں یہ بوسعید وہی ہیں جن کے کسی مراسلے کا جواب فاطمہ السلیعی نے دیا ہے یا کوئی اور ہیں۔ بہرحال انہوں نے مراسلے میں اپنا ایک مشاہدہ بیان کر کے قارئین کو اس پر غور کی دعوت دی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ امریکی ٹیلی ویژن کا چینل ۷۷ اکثر دیکھا کرتے ہیں۔ ایک دن انہوں نے اس چینل پر ایک منظر دیکھا جس نے انہیں سوچنے پر مجبور کر دیا۔ وہ منظر یہ تھا کہ ایک خاتون گاڑی چلا رہی ہے اور اس کے ساتھ اگلی سیٹ پر اس کا بیٹا بیٹھا ہے جس کی عمر تیرہ چودہ سال کے لگ بھگ ہے۔ دونوں نے سیٹ بیلٹ باندھ رکھے ہیں اور دونوں کے لبوں پر مہر سکوت ثبت ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد اسکرین پر ایک عبارت ابھری جس میں اس خاتون سے خطاب کر کے کہا گیا ہے کہ:

’’تم نے اپنے نوجوان بیٹے کے ساتھ گفتگو کا ایک اور موقع ضائع کر دیا۔‘‘

بوسعید صاحب کا کہنا ہے کہ یہ مغرب کے خاندانی نظام اور اس کے کلچر کی ایک جھلک ہے کہ ماں اور بیٹے کے درمیان گفتگو بھی کوئی اس طرح کا موقع ملنے پر ہی ہو سکتی ہے۔ اور اگر کوئی ماں ایسا موقع ضائع کر دے تو خود سوالیہ نشان بن کر رہ جاتی ہے۔

اور واقعی بات یہی ہے کہ جب ماں، باپ اور اولاد کی مصروفیات کے دائرے ایک دوسرے سے بالکل الگ اور مختلف ہوں اور شب و روز میں ایک بار بھی باہم مل بیٹھنے، ایک دوسرے کا حال معلوم کرنے اور گفت و شنید کے مواقع میسر نہ آتے ہوں تو محرومیوں اور حسرتوں کے ایسے مناظر کے سوا اور کیا دکھائی دے گا۔

بہرحال اسی سوچ بچار میں سفر اختتام کو پہنچا۔ ہیتھرو ایئرپورٹ پر ساؤتھ آل کے حاجی محمد اسلم صاحب انتظار میں تھے، وہ اپنے گھر لے گئے، غسل کر کے کپڑے تبدیل کیے، ظہر اور عصر کی نماز ادا کی، کھانا کھایا، گھر فون کر کے اطلاع دی اور پھر ساؤتھ آل براڈ وے پر واقع اپنی قیام گاہ ’’ابوبکرؓ اسلامک سنٹر‘‘ میں نماز مغرب کے وقت حاضری دے دی۔

   
2016ء سے
Flag Counter