مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ

   
۲۲ فروری ۲۰۱۳ء

حضرت مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ طویل علالت کے بعد گزشتہ دنوں انتقال کر گئے ہیں اور اپنے ہزاروں سامعین، دوستوں اور عقیدت مندوں کو سوگوار چھوڑ گئے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ قاری صاحب محترمؒ اپنے وقت کے ایک بڑے خطیب حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کے چھوٹے بھائی تھے اور خود بھی ایک بڑے خطیب تھے۔ ان دونوں بھائیوں نے کم و بیش نصف صدی تک پاکستان میں اپنی خطابت کا سکہ جمایا ہے اور صرف سامعین میں اپنا وسیع حلقہ قائم نہیں کیا بلکہ خطیب گر کے طور پر بیسیوں خطباء کو بھی اپنی لائن پر چلایا ہے۔

دونوں بھائیوں کا خطابت و وعظ کا اپنا منفرد انداز تھا اور ان کے دورِ عروج میں ہزاروں سامعین ان کے خطابات سننے کے لیے دور دراز سے جمع ہوا کرتے تھے، اکابر علماء دیوبند کا والہانہ انداز میں تذکرہ، توحید و سنت کا پرچار، عظمت صحابہ کرامؓ کا تذکرہ اور شرعت و بدعات کی مخصوص لہجے میں تردید و ابطال ان کی خطابت و وعظ کے سب سے نمایاں پہلو تھے۔

حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ وعظ و خطابت کے ساتھ ساتھ تحریکی ذوق بھی رکھتے تھے اور بہت سی دینی تحریکات میں انہوں نے سرگرم اور بھرپور کردار ادا کیا ہے جبکہ مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ خطابت و وعظ کے ساتھ اصلاح و سلوک کے ذوق سے بہرہ ور تھے، ان کا روحانی تعلق شیرانوالہ لاہور سے تھا، ہمارے شیخ حضرت مولانا عبید اللہ انور قدس اللہ سرہ العزیز کے مجازین میں شامل تھے، اپنے عوامی خطابات میں ذکر خداوندی کی تلقین اور اس کا ورد عام طور پر کیا کرتے تھے اور اپنے سلسلہ کے سالانہ روحانی اجتماع کا بھی اہتمام کرتے تھے، دینی اور مسلکی حمیت میں اپنے بہت سے معاصرین میں ممتاز تھے اور دین و مسلک کے لیے ایثار و قربانی کا ہر موقع پر عملاً اظہار کرتے تھے۔

مجھے یاد نہیں کہ دونوں بھائیوں میں سے پہلے کس کی تقریر میں نے سنی ہے لیکن اتنا یاد ہے کہ طالب علمی کے دور میں ان کی بیسیوں تقریریں سن چکا تھا۔ پھر عملی زندگی میں ان کے ساتھ چار عشروں سے زیادہ عرصے تک رفاقت رہی ہے۔ مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کا دو حوالوں سے میری جماعتی و تحریکی زندگی میں گہرا دخل ہے، جمعیۃ علماء اسلام میں ضلعی سطح پر میں طالب علمی کے دور میں ہی متحرک تھا اور ضلعی سیکرٹری اطلاعات کے طور پر کام کرتا تھا، مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ جب جمعیۃ علماء اسلام پنجاب کے سیکرٹری جنرل چنے گئے تو انہوں نے مجھے صوبائی سیکرٹری اطلاعات کے طور پر اپنی ٹیم میں شامل کیا اور میری جماعتی سرگرمیوں کا دائرہ پورے صوبے تک وسیع ہوگیا۔ جبکہ ۱۹۸۵ء کے دوران لندن میں منعقد ہونے والی پہلی سالانہ بین الاقوامی ختم نبوت کانفرنس میں میری شرکت کے پہلے محرک وہ تھے اور انہی کی ترغیب اور تحریک پر میں نے اس کانفرنس کے لیے لندن کا پہلا سفر کیا تھا۔ مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ کے ساتھ میرا رابطہ شیرانوالہ لاہور کے حوالہ سے زیادہ تھا کہ میں بھی اسی روحانی مرکز سے وابستہ تھا اور حضرت الشیخ مولانا محمد عبید اللہ انور قدس اللہ سرہ العزیز کی محافل میں ہماری شرکت و رفاقت رہتی تھی۔

مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ کچھ عرصہ مجلس احرار اسلام میں شامل رہے ہیں اور احرار راہ نماؤں کے ساتھ دینی تحریکات میں شریک کار رہے ہیں۔ حضرت والد مکرم مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کے ساتھ دونوں بھائیوں کا گہرا تعلق تھا اور حضرت والد مکرمؒ بھی ان کی دینی سرگرمیوں اور خدمات کو سراہتے تھے۔ گکھڑ میں حضرت والد محترمؒ کی مسجد میں متعدد بار حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ اور حضرت مولانا قاری عبد الحئی عابدؒ نے دینی اجتماعات سے خطاب کیا ہے اور جس دور میں مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ جامعہ قاسمیہ فیصل آباد میں شعبان المعظم اور رمضان المبارک کے دوران علماء کرام کے لیے تربیتی کورس کا اہتمام کرتے تھے کئی سال تک حضرت والد محترمؒ علماء کرام کو مختلف مسائل کی تحقیق پڑھانے کے لیے فیصل آباد تشریف لے جاتے رہے ہیں۔ دونوں بھائی وقتاً فوقتاً گکھڑ آتے اور ملاقات کے ساتھ ساتھ مختلف مسائل میں حضرت والد محترمؒ سے مشورہ اور راہ نمائی حاصل کرتے تھے۔

دونوں بھائیوں کی خطابت کا انداز کم و بیش یکساں تھا البتہ مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ کی خطابت میں تحریکی گھن گرج کا پہلو نمایاں ہوتا تھا جبکہ قاری صاحبؒ حضرت سلطان باہوؒ اور حضرت بابا فریدؒ کا کلام مخصوص لہجے اور ترنم کے ساتھ پڑھنے کا ذوق زیادہ رکھتے تھے اور سامعین ان کی خطابت کے ساتھ ساتھ نعت و شعر کے ذوق اور ترنم سے محظوظ ہوا کرتے تھے۔ برطانیہ کے مختلف اسفار میں حضرت قاری صاحبؒ کے ساتھ میری رفاقت رہی ہے، وہاں بھی ان کے سامعین اور عقیدت مندوں کا بڑا حلقہ ہے جو بطور خاص انہیں سننے کے لیے جلسوں میں آیا کرتا تھا۔ دوست بنانے اور دوستی نبھانے کا ذوق دونوں بھائیوں میں بھرپور تھا جبکہ قاسمی صاحبؒ دوست نوازی اور دوستوں کو آگے بڑھانے میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔

مجھے قاسمی صاحب محترمؒ کا وہ جملہ اکثر یاد آتا ہے جو میری تمام دینی حلقوں اور جماعتوں کے ساتھ یکساں رابطہ رکھنے کی کوشش کو دیکھ کر ’’رانجھا سب دا سانجھا‘‘ کہہ کر داد دیا کرتے تھے اور قاری صاحبؒ کا یہ دعائیہ جملہ مجھے نہیں بھولتا جو وہ کم و بیش ہر دوست کے لیے کہا کرتے تھے ’’جتھے پیر اوتھے خیر‘‘ (یعنی جہاں بھی قدم پڑے وہاں خیر ہو)۔ اللہ تعالیٰ دونوں بھائیوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور ان کے پسماندگان کو ان کی روایات کا تسلسل جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter