ایک صاحب کسی تہہ خانے میں بیٹھے تھے، دوپہر کا وقت تھا اور پوچھ رہے تھے کہ کیا سورج نکل آیا ہے؟ ساتھیوں نے عرض کیا کہ حضرت! سورج نصف آسمان پر جگمگا رہا ہے۔ کہنے لگے کہ مجھے تو نظر نہیں آ رہا۔ دوستوں نے کہا کہ حضرت! یہ روشنی جو تہہ خانے کے کونوں کھدروں تک میں نظر آ رہی ہے اسی سورج کی روشنی ہے۔ فرمایا کہ میں آنکھوں سے دیکھوں گا تو پھر مانوں گا۔ ایک دوست نے ہاتھ پکڑ کر کہا کہ آئیے تہہ خانے سے باہر چلتے ہیں تاکہ آپ سورج کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں۔ کہنے لگے کہ مجھے باہر جانے کی کیا ضرورت ہے؟ میں یہیں تہہ خانے میں رہوں گا، آپ کو اگر اپنا سورج ثابت کرنا ہے تو مجھے یہاں لا کر دکھائیے، ورنہ آپ کی بات ماننے کا پابند نہیں ہوں۔
کچھ اسی قسم کی صورتحال ہمارے عزیز محترم محمد مسکین عباسی صاحب کے ساتھ پیش آ رہی ہے جنہیں اس بات پر اصرار ہے کہ میں انہیں امت کا وہ اجماع دکھاؤں جو خلیفۃ المسلمین کے لیے قریشی ہونے کی شرط کے ضروری نہ ہونے پر کب کا منعقد ہو چکا ہے۔ میں نے عباسی صاحب موصوف کے استفسار پر عرض کیا تھا کہ
- ترکی کے عثمانی خلیفہ قریشی نہیں تھے۔ کم و بیش پانچ سو برس تک انہوں نے خلافت کے نام سے دنیائے اسلام کے ایک بڑے حصے پر حکومت کی ہے۔ مسجد حرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ سمیت دنیائے اسلام کی لاکھوں مساجد میں صدیوں تک ان کے نام کا خطبہ پڑھا جاتا رہا۔
- یورپی ممالک نے ترکی سلطنت کو ختم کرنے کی مہم چلائی اور بالآخر اس میں کامیاب ہوئے، اس کا مقصد خلافت کو ختم کرنا تھا۔ برصغیر میں مولانا محمد علی جوہرؒ کی قیادت میں ترکوں کی حمایت میں جو عظیم الشان ’’تحریکِ خلافت‘‘ چلائی گئی وہ بھی خلافت کے تحفظ کے لیے تھی۔ اور ان کی قلمرو میں شامل عالمِ اسلام کے کم و بیش دو تہائی حصے کے تمام مکاتبِ فکر کے علماء کرام اور فقہاء انہیں خلفاء اسلام تسلیم کرتے رہے اور اسی حیثیت سے ان کے احکام کی پیروی کی گئی۔
اس لیے اگر امتِ مسلمہ کی غالب اکثریت کے کم و بیش پانچ سو سالہ اجماعی تعامل کو قبول کر کے عثمانی خلفاء کو شرعی خلفاء تسلیم کیا جائے تو خلیفہ کے لیے قریشی ہونے کی شرط ضروری نہیں رہتی۔ اور اگر قریشیت کی شرط کو خلافت کے لیے ناگزیر تصور کیا جائے تو امت کے صدیوں کے اجماعی تعامل کی نفی ہوتی ہے۔ اب محمد مسکین صاحب کی مرضی ہے کہ وہ ان میں سے جو صورت چاہیں اختیار کر لیں۔
اس کے ساتھ ہی عرض ہے کہ اس بحث کا آغاز میں نے نہیں کیا تھا اور نہ ہی اب اسے مزید آگے بڑھانا چاہتا ہوں، بلکہ میں نے صرف ایک تاریخی تسلسل کا ذکر کرتے ہوئے لکھا تھا کہ مولانا احمد رضا خان بریلویؒ ترکوں کی خلافت کو نہیں مانتے تھے۔ اور چوہدری خلیق الزمان خان مرحوم کے بقول خلافتِ عثمانیہ کے خلاف شریفِ مکہ حسین بن علی کی حمایت میں جاری ہونے والے فتویٰ کی مولانا احمد رضا خانؒ نے تائید کی تھی۔ یہ ایک تاریخی بات تھی جس پر محمد مسکین عباسی صاحب نے حوالہ مانگا تو میں نے چوہدری خلیق الزمان مرحوم کی ’’شاہراہِ پاکستان‘‘ کا حوالہ دے دیا، جس کے بعد بات کو آگے بڑھانے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ مگر محترم محمد مسکین عباسی صاحب بلاوجہ اس بحث کو طول دے رہے ہیں اور نہ صرف روایتی مناظرانہ انداز میں غیر متعلقہ امور کو بحث کے دائرہ میں دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں، بلکہ قریشیت کی شرط کے ساتھ تحریکِ آزادی میں مختلف علماء کرام کے کردار کو بھی بحث کے دائرے میں شامل کرنے کے درپے ہیں۔
لطف کی بات یہ ہے کہ عباسی صاحب موصوف مولانا احمد رضا خان صاحبؒ کو تو اس الزام سے بری قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ ترکوں کی خلافت کو تسلیم نہیں کرتے تھے، مگر خود خلافت کے لیے قریشیت کی شرط کو ہر حالت میں ناگزیر قرار دے کر ترکی کے عثمانی خلفاء کی پانچ سو سالہ خلافت کی نفی کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس بارے میں خود ان کا اپنا موقف مولانا احمد رضا خان مرحوم سے مختلف ہے، یا وہ بھولپن کے ساتھ دونوں پہلوؤں کو ہاتھ میں رکھنا چاہتے ہیں کہ خلافتِ عثمانیہ کی مخالفت کا الزام بھی نہ آئے اور قریشیت کی شرط ناگزیر ہونے کا موقف بھی چھوٹنے نہ پائے۔ لیکن ایسا ہونا مشکل ہے اور میں سابقہ مضمون میں بھی ان سے یہ درخواست کر چکا ہوں کہ وہ ایک طرف واضح موقف اختیار فرمائیں، کیونکہ
- اگر خلیفہ کے لیے قریشی ہونا ضروری ہے تو صاف بات ہے کہ ترکی کے عثمانی خلفاء کو شرعی خلفاء کہلانے کا کوئی حق حاصل نہیں تھا۔ اور اس صورت میں یہ صفائی دینے کی بھی ضرورت نہیں ہے کہ مولانا احمد رضا خان مرحوم نے ترک خلفاء کی مخالفت نہیں کی تھی۔ بلکہ اس پس منظر میں خلافتِ عثمانیہ کے خلاف فتویٰ دینا شرعی طور پر مولانا احمد رضا خان مرحوم کے حق میں جاتا ہے اور ایک اصولی موقف قرار پاتا ہے۔
- البتہ قریشیت کی شرط کو ناگزیر تصور نہ کرتے ہوئے ترکی خلفاء کو شرعی خلیفہ کے طور پر قبول کر لیا جائے، جیسا کہ امت نے پانچ سو برس تک قبول کیے رکھا ہے، تو اس صورت میں ترکی خلافت کے خلاف مولانا احمد رضا مرحوم کے مبینہ اور مذکورہ فتویٰ کو زیر بحث لانے کی ضرورت پیش آتی ہے کہ انہوں نے یہ فتویٰ کیوں صادر کیا اور اس کے محرکات و عوامل اور اسباب کیا تھے؟
جہاں تک شاہ اسماعیل شہیدؒ، سید احمد شہیدؒ، مفتی عنایت احمد کاکورویؒ، علامہ فضل حق خیر آبادیؒ، حاجی امداد اللہ مہاجر مکیؒ، مولانا محمد قاسم نانوتویؒ، مولانا رشید احمد گنگوہیؒ، شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندیؒ، علماء صادق پور، اور دیگر اکابر علماء ہند کے تحریکِ آزادی میں شریک ہونے اور قربانیاں دینے کا تعلق ہے، ان سب کا کردار ماضی کے وسیع افق پر روزِ روشن کی طرح واضح ہے۔ جس نے بھی آزادی کی جنگ میں خود کو پیش کیا ہے اس کی عظمت کو ہم سلام پیش کرتے ہیں اور کسی کے جائز کردار کی نفی ہمارے نزدیک تاریخ کے ساتھ صریح ناانصافی ہے۔
البتہ اس قدر اہتمام ضروری ہے کہ تاریخ کے حقیقی تناظر کو ملحوظ رکھا جائے، اور گروہی عصبیتوں سے بالاتر ہو کر معروضی اور زمینی حقائق کی بنیاد پر بات کی جائے۔ ورنہ ہم خود کوئی موقف پہلے سے طے کر کے اسے تاریخ کی زبان سے کہلوانے کی کوشش کریں گے، اور ذاتی عقیدتوں اور تاریخی واقعات کو ایک دوسرے کا پابند بنانا چاہیں گے، تو اس قسم کی الجھن کا سامنا کرنا پڑے گا جس سے ہمارے عزیز دوست محترم مسکین عباسی صاحب کو سابقہ درپیش ہے۔ مجھے ان سے ہمدردی ہے اور چاہتا ہوں کہ وہ ’’تہہ خانے‘‘ کے ماحول سے باہر نکل کر کھلی فضا میں حقائق کی عملی دنیا کا نظارہ کریں، لیکن خود ہی سورج کے وجود کو تسلیم کرنے کے لیے اسے تہہ خانے میں لا کر دکھانے کی ضد پر اڑے رہیں تو ان کی معصومانہ خواہش کو کون پورا کر سکتا ہے؟