قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے سلسلہ میں تحفظات

   
مارچ ۲۰۱۵ء

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ’’قومی ایکشن پلان‘‘ پر عملدرآمد جاری ہے، فوجی عدالتیں تشکیل پا گئی ہیں اور ملک بھر میں گرفتاریوں، سزاؤں اور پابندیوں کا دائرہ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے پوری قوم متحد ہے اور تمام دینی و سیاسی جماعتوں نے نہ صرف اس قومی عزم کی حمایت کی ہے بلکہ وہ اس میں بھرپور تعاون بھی کر رہی ہیں مگر اس سلسلہ میں بعض حلقوں کی طرف سے تحفظات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے جن پر توجہ دینا ضروری ہے۔

  • پاکستان بار کونسل نے جو وکلاء کا سب سے بڑا فورم ہے، فوجی عدالتوں کے قیام کو دستوری تقاضوں کے خلاف قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف سپریم کورٹ میں رٹ دائر کر دی ہے اور لاہور ہائیکورٹ بار نے اس سلسلہ میں عدالت عظمیٰ اور عدالت ہائے عالیہ کے ریٹائرڈ ججوں کا کنونشن بلانے کا فیصلہ کیا ہے جو ان سطور کی اشاعت تک انعقاد پذیر ہو چکا ہو گا۔ وکلاء برادری کا کہنا ہے کہ دستوری عدالتوں کی موجودگی میں فوجی عدالتوں کا قیام ملک کے بنیادی دستوری ڈھانچے سے متصادم ہے اور پارلیمنٹ نے ان کی منظوری دے کر دستوری حدود سے تجاوز کیا ہے۔
  • جبکہ سپریم کورٹ کی طرف سے بھی یہ کہا گیا ہے کہ اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہو گیا ہے کہ کیا پارلیمنٹ کو دستور کے بنیادی ڈھانچے کے منافی قانون سازی کا اختیار حاصل ہے؟
  • جمعیۃ علماء اسلام پاکستان، جماعت اسلامی اور دیگر دینی جماعتوں نے فوجی عدالتوں میں صرف مذہبی حوالہ سے دہشت گردی کے خلاف مقدمات پیش کیے جانے کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس کے ذریعے دہشت گردی کو مذہب کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے اور مذہب کا بطور خاص ذکر کر کے مذہبی حلقوں اور بالخصوص دینی مدارس کو نشانہ بنایا گیا ہے، حالانکہ خود حکومت پاکستان کی طرف سے دہشت گرد قرار دی جانے والی جماعتوں کی فہرست میں ایک بڑی تعداد ان مسلح گروپوں کی ہے جن کا مذہب کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ زبان، قومیت اور نسلی حوالوں سے مسلح کاروائیوں میں ملوث ہیں اور امن عامہ کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں مگر انہیں فوجی عدالتوں سے مستثنیٰ قرار دے کر ایک گونہ سہولت فراہم کی گئی ہے۔
  • دینی مدارس کے وفاقوں کو اعتراض ہے کہ دینی مدارس کے بارے میں نصاب تعلیم، فنڈنگ، رجسٹریشن اور دہشت گردی کی مانیٹرنگ کے حوالہ سے جو سوالات ازسرنو اٹھائے جا رہے ہیں وہ متعدد بار حکومتی سطح پر طے پا چکے ہیں، مگر بار بار کے باقاعدہ معاہدوں پر عملدرآمد کی بجائے وقفہ وقفہ سے یہ پنڈوراباکس پھر سے کھول کر دینی مدارس کے خلاف کردارکشی کی منفی مہم کا دائرہ بڑھایا جا رہا ہے۔
  • مساجد میں لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کے حوالہ سے ہم خود اس بات کے حق میں چلے آرہے ہیں کہ اذان کے علاوہ لاؤڈ اسپیکر کی آواز مسجد کی چار دیواریوں میں محدود رہنی چاہیے اور ہمارے ہاں مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں گزشتہ چالیس برس سے اس کی اپنے طور پر پوری پابندی کی جا رہی ہے۔ لیکن گورنر پنجاب نے اس سلسلہ میں جو آرڈیننس جاری کیا ہے اور اس پر جس طرح عمل کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس نے سرے سے اس کی افادیت کو مشکوک بنا کر رکھ دیا ہے اور اس کی حمایت کرنے والے حلقے بھی تحفظات کا شکار ہو گئے ہیں۔ مثلاً یہ کہا گیا ہے کہ اذان اور فوتگی وغیرہ کے ضروری اعلان کے لیے مسجد کے اوپر صرف ایک ہارن کی اجازت ہے اس سے زیادہ تمام ہارن اتار لیے جائیں۔ صرف ایک ہارن کی یہ پابندی بجائے خود مضحکہ خیز ہے کہ اس کا رُخ کس طرف ہو گا؟ جبکہ نمازی مسجد کے چاروں طرف رہتے ہیں اور سب کا حق ہے کہ ان تک اذان کی آواز پہنچے۔ گوجرانوالہ کے ایک مولانا صاحب نے اس کا ظریفانہ جواب یہ دیا ہے کہ جب انہیں پولیس تھانے کی جانب سے ایک سے زائد ہارن اتار دینے کا پیغام ملا تو انہوں نے سب ہارن مسجد سے اتروا کر صرف ایک ہارن باقی رہنے دیا مگر اس کا رُخ آسمان کی طرف کر دیا کہ مجھے تو اس کے علاوہ کوئی اور رُخ سمجھ میں نہیں آرہا کہ ہارن کا رخ ادھر کو موڑ دوں۔ انتظامیہ کے سنجیدہ حکام بھی اس اشکال کو درست تسلیم کرتے ہیں مگر وہ کہتے ہیں کہ ہم آرڈیننس کی وجہ سے مجبور ہیں۔ اس طرح مساجد سے لاؤڈ سپیکر اتروانے اور لاؤڈ سپیکر کے قانون کی خلاف ورزی پر ائمہ مساجد کے خلاف کاروائیوں کے حوالہ سے بہت سے مقامات پر پولیس نے جو رویہ اختیار کیا ہے وہ انتہائی قابل اعتراض بلکہ قابل مذمت ہے۔ بعض پولیس افسران ائمہ مساجد اور علماء کرام کی تذلیل کرتے ہیں، مذاق اڑاتے ہیں اور توہین آمیز طرز عمل کا اظہار کرتے ہیں جو انتہائی افسوسناک ہے۔
  • اس کے ساتھ ہی فورتھ شیڈول کا ایک نیا نیٹ ورک قائم ہو گیا ہے، پرانی فہرستیں نکال کر ان پر ازسرنو کاروائیوں کا سلسلہ شروع کر دیا گیا ہے بلکہ فرقہ وارانہ تناظر میں ایک دوسرے کے خلاف شکایتوں کو کسی منصفانہ انکوائری کے بغیر بنیاد بنا کر گرفتاریوں اور پابندیوں کا دائرہ وسیع کیا جا رہا ہے، حتیٰ کہ بعض مقامات سے یہ اطلاعات بھی ملی ہیں کہ بعض حضرات جو فوت ہو چکے ہیں وہ بھی اس کی زد میں آرہے ہیں اور پنجاب پولیس کے روایتی کردار کو پھر سے تازہ کیا جا رہا ہے۔
  • اسی قسم کی صورتحال کتابوں پر پابندی، کتب خانوں پر چھاپوں اور ناشرین کے خلاف مقدمات کے حوالہ سے بھی ہے۔ فرقہ وارانہ کشیدگی اور اشتعال انگیزی پر مبنی لٹریچر کی اشاعت پر قانوناً پابندی ہے، قانون پر عملدرآمد کا ایک باقاعدہ نظام موجود ہے، فرقہ وارانہ کتابوں کی نشاندہی اور پابندی کی سفارش کے لیے پنجاب میں تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ علماء کرام پر مشتمل ’’متحدہ علماء بورڈ‘‘ حکومت پنجاب کی طرف قائم ہے جس کے سربراہ اس وقت جامعہ اشرفیہ لاہور کے مولانا حافظ فضل الرحیم ہیں۔ لیکن اس سب کچھ کے ہوتے ہوئے قومی ایکشن پلان کے اعلان کے ساتھ ہی پنجاب پولیس جس طرح مکتبوں پر چڑھ دوڑی ہے اور کسی بھی قسم کی تحقیق اور انکوائری کے بغیر کتابیں اٹھائی جا رہی ہیں، مقدمات درج کیے جا رہے ہیں اور خوف و ہراس کی کیفیت پیدا کر دی گئی ہے وہ ’’بادشاہ سے زیادہ بادشاہ کا وفادار‘‘ کے محاورہ کا مصداق ہے اور قانون پر عملدرآمد سے کہیں زیادہ معاندانہ نفسیات کی عکاسی کرتی ہے۔ جبکہ دینی مدارس کے وفاقوں کے ساتھ حکومت کے باقاعدہ معاہدہ میں یہ بات طے پا چکی ہے کہ مسلکی اختلافات کو علم و تحقیق کے حوالہ سے مثبت انداز میں دلیل کے ساتھ بیان کرنے پر فرقہ وارانہ کشیدگی اور اشتعال کا اطلاق نہیں ہوتا، لیکن پنجاب کے جس تھانے کے جس پولیس افسر کو جس کتاب میں اپنے طور پر کوئی بات قابل اعتراض نظر آتی ہے وہ اس کے مصنف اور ناشر کے خلاف دہشت گردی سے کم مقدمہ پر مطمئن نہیں ہو رہا۔ یہ صورتحال انتہائی افسوسناک ہونے کے ساتھ ساتھ آزادئ رائے اور آزادئ مذہب کے معروف اور مروجہ تصور و فلسفہ کے بھی سراسر منافی ہے۔

اس پس منظر میں ہم یہ گزارش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قوم کا اتحاد خوش آئند ہے اور اس میں تمام طبقوں کا بھرپور تعاون ناگزیر ہے، لیکن ’’قومی ایکشن پلان‘‘ پر عملدرآمد کے سلسلہ میں مختلف طبقات کی جانب سے جن تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیونکہ جائز شکایات کو بلاوجہ نظر انداز کرنے سے قومی وحدت میں دراڑیں پڑ سکتی ہیں جس کا فائدہ آخر کار دہشت گردوں کو ہی ہو گا۔ اس لیے ملک کی سیاسی و عسکری قیادت، حکومت پاکستان اور بالخصوص حکومت پنجاب سے ہماری استدعا ہے کہ اس صورتحال کا ازسرِنو جائزہ لیا جائے اور ان تحفظات کو دور کیا جائے جو قومی ایکشن پلان پر عملدرآمد کے حوالہ سے اب تک سامنے آئے ہیں کیونکہ یہ قومی وحدت اور امن عامہ کا لازمی تقاضہ ہے اور حکمران طبقات کی ذمہ داری ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter