چینی زبان کا فروغ اور پاکستانی زبان و ثقافت کا تحفظ

   
مارچ ۲۰۱۸ء

روزنامہ انصاف لاہور ۲۰ فروری ۲۰۱۸ء کی رپورٹ کے مطابق:

’’چیئرمین سینٹ جناب رضا ربانی نے کہا ہے کہ چینی زبان پاکستان اور چین کے کاروباری شعبہ کے مابین سہولت پیدا کر رہی ہے، پاکستانی زبان اور ثقافت کو مدنظر رکھتے ہوئے چینی زبان کو فروغ ملنا چاہیے۔ جبکہ چینی سفیر پاؤچنگ کا کہنا ہے کہ چینی زبان دونوں ممالک کے درمیان گہرے رابطے کا ذریعہ بن رہی ہے۔ چین خلوص اور وفاداری کے ساتھ معاشی اور دفاعی لحاظ سے مضبوط پاکستان دیکھ رہا ہے، چینی زبان کے فروغ سے ثقافتی روابط بھی مضبوط ہو رہے ہیں، ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کو پاک چائنہ انسٹیٹیوٹ اور جے ایس گلوبل کے اشتراک سے پیشہ ورانہ افراد کے لیے چینی زبان کی کلاسز کے اجرا کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔‘‘

چین ہمارا عظیم پڑوسی اور قابل اعتماد دوست ہے جس نے قیام پاکستان کے بعد سے اب تک ہر آڑے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور علاقائی و بین الاقوامی فورموں پر پاکستان کے استحکام و مفادات کو سپورٹ کیا ہے۔ اور صحیح بات یہ ہے کہ پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے مغربی دعویداروں کے طرزعمل کو دیکھتے ہوئے عوامی جمہوریہ چین کی یہ پاکستان دوستی ہمارے لیے بہت بڑی نعمت کی حیثیت رکھتی ہے۔ جس پر ہم چینی حکومت اور عوام کے ہمیشہ شکر گزار رہیں گے بالخصوص ’’سی پیک‘‘ کے منصوبے میں پیشرفت نے پاک چین دوستی کو نئے رُخ سے روشناس کرایا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان نہ صرف بین الاقوامی تجارت کے فروغ بلکہ باہمی تجارت میں اضافہ کے روشن امکانات ہمارے سامنے رکھ دیے ہیں، جن سے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے اعلانیہ اور خفیہ مخالفین کی پریشانیاں بڑھتی جا رہی ہیں اور اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے مختلف النوع سازشوں کے جال بنے جا رہے ہیں، جن سے نمٹنے کے لیے پاکستان کی حکومت، ادارے اور عوام بحمد اللہ تعالیٰ یکسو دکھائی دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ملک میں چینی زبان کی تعلیم کے بہت سے ادارے سرکاری اور غیر سرکاری دونوں دائروں میں مصروف عمل ہیں اور پاکستانی عوام کی چینی زبان میں دلچسپی بڑھ رہی ہے، البتہ اس کے ساتھ ساتھ بعض حلقوں کی طرف سے کچھ تحفظات سامنے آرہے ہیں اور ان کا دبے لفظوں میں اظہار ہونے لگا ہے جن کا اشارہ چیئرمین سینٹ کے مذکورہ ارشاد میں بھی ملتا ہے۔

  • گزشتہ دنوں لاہور کے سرکردہ تاجر حضرات کی ایک نجی محفل میں ان سے اس مسئلہ پر گفتگو کا موقع ملا تو یہ خدشہ سامنے آیا کہ اندرون ملک چین کے ساتھ تجارت کے فروغ سے پاکستانی تجارت کو جو مسائل درپیش ہوں گے اس سلسلہ میں جن خدشات کا احساس سامنے آرہا ہے ان پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ اور بحث و مباحثہ کا اہتمام نہ کیا گیا تو پاکستانی تجارت کے موجودہ ماحول بالخصوص متوسطہ تجارتی دائرے کو موجودہ شکل میں قائم رکھنا مشکل ہو جائے گا۔

    ان تاجر حضرات کی یہ بات سن کر مجھے وہ مباحثہ یاد آگیا جو بھارت کے ساتھ کھلی تجارت کی تجویز کے موقع پر ہمارے قومی پریس اور مجالس میں کافی عرصہ تک جاری رہا اور کہا گیا کہ بھارت کے ساتھ تجارت کے کھلے ماحول میں شاید ہم بھارتی تجارت کا پوری طرح مقابلہ نہ کر پائیں اور ہمارے متوسط درجہ کے تاجر طبقہ کو بہت نچلی سطح پر اپنی سرگرمیوں کو لے جانا پڑے گا۔ اس دور میں ایک تاجر دوست سے میں نے سوال کیا تھا کہ تجارت کی جو اقدار و رجحانات ہمارے معاشرتی مزاج کا حصہ بن چکی ہیں ان کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارے درمیانے طبقے کا تاجر کیا بھارتی تاجروں کا سامنا کر پائے گا اور کیا اسے نئے سسٹم اور ماحول میں ’’سیلزمین‘‘ کا مقام و کردار بھی حاصل رہے گا؟ اس موقع پر اس طرز کے بہت سے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا اور پاکستان کی تاجر برادری نے مجموعی طور پر بھارت کے ساتھ کھلی تجارت کو قبول نہیں کیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ تجارت کے آزادانہ ماحول سے جو خطرات و خدشات محسوس کیے جا رہے تھے، کیا اسی طرز کے خدشات اب دامن گیر نہیں ہوں گے؟

    چین اور بھارت میں یہ واضح فرق موجود ہے کہ چین ہمیشہ سے ہمارا مخلص اور معتمد دوست جبکہ پاکستان کے ساتھ بھارت کے تعلقات و معاملات بہرحال دوستانہ اور مخلصانہ نہیں ہے۔ لیکن تجارت کا مزاج تو کم و بیش ہر جگہ یکساں ہوتا ہے اس لیے ان خدشات کی یکسر نفی نہیں کی جا سکتی۔ البتہ یہ سہولت ہمیں حاصل ہے کہ ان خدشات و خطرات پر ہم چین کے ساتھ دوستی اور اعتماد کے ماحول میں گفتگو کر سکتے ہیں اور باہمی تبادلہ خیالات کے ذریعے ذہنوں میں ابھرنے والے یا ابھارے جانے والے خدشات کا سدّباب کر سکتے ہیں۔ جس کے لیے سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ تاجر برادری کو ان مسائل کا جائزہ لینے اور باہمی بحث و مباحثہ کے ذریعے مستقبل کے امکانات و توقعات کو سامنے لانے کی نہ صرف دعوت دی جائے بلکہ اس کا وسیع پیمانے پر اہتمام بھی کیا جائے۔

  • اسی قسم کی صورتحال پاکستان کی قومی زبان اور ثقافت کے حوالہ سے بھی درپیش ہے۔ ہماری قومی زبان اردو ہے جو قیام پاکستان سے پہلے بھی انگلش زبان کے دباؤ کا شکار رہی ہے، جبکہ پاکستان کے قیام کے بعد اردو کو قومی اور سرکاری زبان کا درجہ ملنے کے باوجود انگریزی زبان کے اس دباؤ میں کمی کی بجائے اضافہ ہو رہا ہے، اور دستور پاکستان کی ضمانت اور عدالت عظمیٰ کے واضح فیصلوں کے ہوتے ہوئے بھی اردو زبان ہمارے ریاستی اداروں اور تعلیمی ماحول میں مناسب مقام حاصل نہیں کر پا رہی۔ اس فضا میں اسے اسی قسم کے مسائل کا اگر چینی زبان کے حوالہ سے بھی سابقہ پڑ گیا تو اس غریب کا کون پرسان حال ہو گا؟ بے چاری اردو عالمی سطح پر دنیا کی دوسری بڑی زبان شمار کیے جانے کے باوجود اس وقت جس صورتحال سے دوچار ہے اس میں سرسید احمد خان مرحوم، الطاف حسین حالی مرحوم، ڈپٹی نذیر احمد، مولوی عبد الحق اور ڈاکٹر سید عبد اللہ جیسے سہاروں کی اسے شدید ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
  • اس کے ساتھ ہی ثقافتی صورتحال پر بھی نظر ڈال لی جائے، ہم نے مسلمانوں کے جس ثقافتی امتیاز و تشخص کی بنیاد پر پاکستان کے نام سے ایک الگ ملک حاصل کیا تھا وہ ثقافتی تشخص و امتیاز پہلے ہی مغربی ثقافت اور ہندو کلچر کی مسلسل یلغار کی زد میں ہے۔ اور اب اگر اسے دو طرفہ یلغار کے ساتھ ساتھ ایک تیسری ثقافت کا بھی سامنا کرنا پڑ گیا تو اس کی مشکلات کا دائرہ کس قدر وسیع ہو جائے گا؟ ویسے تو یہ بات اطمینان کی ہے کہ پاکستانی ثقافت و تہذیب کی بنیاد دین اسلام پر ہے اور ہماری دینی اقدار و روایات میں بحمد اللہ تعالیٰ ہر ثقافتی یلغار کا سامنا کرنے کا حوصلہ موجود ہے جس کا صدیوں سے عملی اظہار بھی ہو رہا ہے لیکن صرف اطمینان کے اس پہلو کو دیکھتے ہوئے ہر ثقافتی یلغار کو ’’آ بیل مجھے مار‘‘ طرز پر دعوت دیتے چلے جانا بھی عقل و دانش کی بات نہیں ہے۔

سینٹ آف پاکستان کے چیئرمین محترم میاں رضا ربانی نے پاکستان میں چینی زبان کے فروغ کا خیر مقدم کرتے ہوئے اور اس کی ضرورت و اہمیت کا تذکرہ کرتے ہوئے پاکستان کی زبان اور ثقافت کو ملحوظ رکھنے کی جو بات کی ہے، اسے سامنے رکھتے ہوئے یہ چند گزارشات ہم نے پیش کر دی ہیں۔ جبکہ اصل ضرورت اس امر کی ہے کہ نہ صرف پاکستان کی زبان و ثقافت بلکہ ملکی تجارت کی صورتحال کو بھی سامنے رکھتے ہوئے ان مسائل پر کھلے دل و دماغ کے ساتھ گفتگو کا اہتمام کیا جائے اور اپنے مخلص اور دیرینہ دوست عوامی جمہوریہ چین کی حکومت و قیادت سے محبت و اعتماد کی فضا میں بات چیت کر کے ان خدشات کے ازالہ کا اہتمام کیا جائے، تاکہ پاکستان اور چین کی یہ لازوال دوستی اپنے نئے دور کا آغاز مکمل باہمی اعتماد کے ساتھ کر سکے اور اپنے منطقی اہداف کی منزل سے ہمکنار ہو۔

   
2016ء سے
Flag Counter