بعد الحمد والصلٰوۃ۔ معاشی حقوق کیا ہوتے ہیں اور معیشت کیا ہوتی ہے؟ انسان جب زندگی گزارتا ہے تو اسے اخراجات کے لیے اسباب کی ضرورت پڑتی ہے، پیسوں کی اور چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچہ پیدا ہوتے ہی اس کی ضروریات شروع ہو جاتی ہیں اور اس کو جتنی بھی زندگی ملے آخر وقت تک یہ ضروریات باقی رہتی ہیں۔ یہ ضروریات اسباب سے ہی پوری ہوتی ہیں، جیب میں پیسے ہوں گے، خرچہ ہو گا تو ضروریات پوری ہوں گی۔ اللہ تبارک و تعالٰی نے اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مختلف دائرے بتائے ہیں۔
- پہلا دائرہ گھر کا ہے۔ بچہ پیدا ہوا تو اس کی ضروریات پوری کرنا، کپڑے، دودھ، خوراک اور علاج وغیرہ اس کے والدین کے ذمہ ہے، ان کی حیثیت کے مطابق جب تک بچہ خود کمانے کے قبل نہ ہو جائے۔ قرآن کریم نے خرچے کا اصول بیان کیا ’’علی الموسع قدرہ وعلی المقتر قدرہ‘‘ (سورہ البقرہ ۲۳۶) مالدار آدمی پر اس کی حیثیت کے مطابق اور غریب آدمی پر اس کی حیثیت کے مطابق۔ والدین اپنی حیثیت کے مطابق خرچ نہیں کریں گے تو یہ زیادتی ہو گی، اور اگر اولاد ان کی حیثیت کو نہیں دیکھے گی اور زیادہ کا مطالبہ کرے گی تو یہ بھی زیادتی ہو گی۔ سمجھدار اولاد کو پتہ چل جاتا ہے کہ ہمارے والدین کیا چیز مہیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں کر سکتے۔ لیکن یہ کہ اولاد کے جوان ہونے تک اس کی تمام ضروریات کھانا پینا، لباس و رہائش اور تعلیم و تربیت وغیرہ والدین کے ذمے ہیں۔
پھر ایک وقت آتا ہے جب والدین بوڑھے ہو جاتے ہیں، کمانے کے قابل نہیں رہتے تو ان کا خرچہ اور ان کی خدمت اولاد کے ذمے ہو جاتی ہے، کیونکہ بچپن میں اولاد نے ان سے خدمت لی ہے اور خرچہ بھی ان کا اس پر ہوا ہے۔ بچہ خود دودھ پینے کے قابل نہیں ہوتا، فیڈر نہیں بھر سکتا، پیشاب کر دے تو کپڑے خود نہیں دھو سکتا، نہا نہیں سکتا۔ ایک وقت تک وہ اپنی ضروریات اور کام خود نہیں کر سکتا، سب کچھ والدین کرتے ہیں۔ اسی طرح ایسا ہی وقت ماں باپ پر آتا ہے جب وہ بوڑھے ہو جاتے ہیں تو کھانا کھانے، کپڑے دھونے اور قضائے حاجت وغیرہ میں اولاد کے محتاج ہوتے ہیں، کمائی بھی وہ نہیں کر سکتے، تو یہ اولاد ہی کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی ضروریات پوری کرے۔ اور جو قرآن مجید میں والدین کے لیے دعا سکھلائی گئی اس میں بھی یہی کہلوایا ’’رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا‘‘ (سورہ الاسراء ۲۴) کہ اے اللہ! جس طرح انہوں نے مجھے بچپن میں پالا ان پر اسی طرح رحم فرما۔ یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ مجھے کس نے پالا تھا اور والدین کی خدمت کرنی چاہیے، یہ اولاد کا والدین پر احسان نہیں بلکہ اولاد پر والدین کا حق ہے۔
اسی طرح میاں بیوی کے کاموں کی فطری طور پر تقسیم کر دی گئی ہے۔ گھر کے کام کاج کرنا، صفائی ستھرائی، کھانا بنانا، بچے پالنا وغیرہ بیوی کے کام ہیں، جبکہ خرچہ مہیا کرنا خاوند کی ذمہ داری ہے۔ یہ تقسیم ہے کہ یہ کام بیوی نے کرنے ہیں اور یہ خاوند نے۔ آج ایک نیا فلسفہ شروع ہو گیا ہے کہ عورت گھر کے کام کاج بھی کرے اور ملازمت کر کے پیسے بھی کمائے۔ یہ نئی تہذیب ہے کہ عورت بچے بھی پالے اور خرچہ بھی پورا کرے۔ یہ عورت پر احسان ہے یا اس کے ساتھ زیادتی ہے؟ یہ لطیفے کی بات ہے کہ کہا جاتا ہے عورتوں کو مردوں کے برابر حقوق دینے چاہئیں، مرد ملازمت کرتا ہے تو عورت کو بھی ملازمت کرنی چاہیے، مولویوں نے عورتوں کو گھروں میں پابند کیا ہوا ہے۔ حالانکہ مساوات تو تب ہو کہ عورتوں کو اپنے کاموں میں شریک کرتے ہو تو ان کے کاموں میں بھی شریک ہو۔ ایک بچہ وہ جنے تو ایک تم جنو، ایک کو وہ پالے تو ایک کو تم پالو۔ یہ اللہ تعالٰی کی طے کردہ فطری تقسیم ہے۔ کیا اللہ کی یہ تقسیم فطری نہیں ہے کہ بیوی کے سارے خرچے خاوند کے ذمے ہیں؟ مگر خاوند کی حیثیت کے مطابق۔
حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ ایک مثال سے سمجھایا کرتے تھے کہ نکاح ہوتے وقت خاوند سے پوچھا جاتا ہے ’’قبول ہے؟‘‘ وہ کہتا ہے قبول ہے۔ اس ’’قبول ہے‘‘ میں اس کے سارے معاملات شامل ہیں۔ بیوی کی ہر قسم کی ضروریات، کپڑا، کھانا، رہائش، علاج اور اس کی عزت و آبرو کی حفاظت سبھی چیزیں شامل ہیں۔ اگر کوئی کہے میں نے ’’قبول ہے‘‘ تو کہا تھا لیکن یہ چیزیں ذمہ نہیں لی تھیں، تو اسے بتایا جائے گا اس میں یہ سب کچھ شامل تھا اور تم نے یہ سب کچھ قبول کیا تھا۔ یہ مثال دے کر حضرت جالندھریؒ فرمایا کرتے تھے کہ اسی طرح جب ایک آدمی نے کلمہ طیبہ پڑھ لیا تو اس میں نماز، روزہ، زکوٰۃ، حج، معاملات، اخلاقیات سبھی چیزیں داخل ہیں۔ ہر ایک کا الگ الگ کہنا ضروری نہیں کہ میں یہ بھی کروں گا، یہ بھی کروں گا۔
بہرحال یہ گھر کا دائرہ ہے جس میں اللہ تعالٰی نے خرچے کی یہ تقسیم کی کہ بچپن میں اولاد کے خرچے ماں باپ کے ذمے، اور جب والدین بوڑھے ہو جائیں تو ان کے خرچے اولاد کے ذمے۔ بوڑھا ہو کر آدمی بچوں کی طرح ہی ضد کرنے لگتا ہے، اولاد کو حکم ہے جیسے انہوں نے تمہاری ضد پوری کی تھی تم بھی ان کی ضد پوری کرو۔ اور میاں بیوی میں کاموں کی بھی تقسیم کر دی کہ گھر کے کام عورت کے ذمے اور اخراجات مرد کے ذمے ہیں۔
- دوسرا دائرہ سوسائٹی اور معاشرے کا ہے، اس کے بھی اللہ تعالٰی نے حقوق بیان کیے ہیں کہ اپنے محلے میں، برادری میں نظر رکھو، کوئی غریب، مسکین، ضرورتمند ہے تو اس کی ضرورت پوری کرو۔ زکوٰۃ اور صدقات معاشرے کے ضرورتمندوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ہیں۔ سو میں سے اڑھائی تو دینے ہی دینے ہیں، اس کے علاوہ بھی دو۔ یہ صدقات کن کو دینے ہیں؟ فرمایا ’’اٰت ذا القربٰی حقہ والمسکین وابن السبیل‘‘ (سورہ الاسراء ۲۶) رشتہ داروں کا حق پہلے ہے، مسکین اور مسافر کو دینا بھی ان کا حق ہے۔ یہ تم ان پر احسان نہیں کر رہے، ان کا حق ان کو دے رہے ہو۔ یہ بات سمجھائی کہ تم محلے اور برادری میں کسی مستحق، معذور، غریب، بے سہارا پر خرچ کرتے ہو تو یہ تمہارا احسان نہیں ہے بلکہ یہ ان کا حق ہے جو تم ان کو دے رہے ہو۔ فرمایا ’’وفی اموالھم حق للسائل والمحروم‘‘ (سورہ الذاریات ۱۹) جو مال تمہیں دیے گئے ہیں وہ صرف تمہارے لیے نہیں بلکہ تمہارے مالوں میں سائل اور محروم کا بھی حق ہے۔ سائل سے مراد وہ ضرورتمند جو ضرورت کو ظاہر کرتا ہے، لیکن بعض ایسے ضرورت مند ہوتے ہیں جو غیرت کی وجہ سے اپنی ضرورت ظاہر نہیں کرتے، ہاتھ پھیلانا مناسب نہیں سمجھتے، ان کو قرآن کریم نے ’’المحروم‘‘ کہا ہے، ان کو سفید پوش کہا جاتا ہے۔
اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جو مانگتا ہے اور ضرورت ظاہر کرتا ہے اس کو تو دیا جائے، لیکن جو مانگتا ہی نہیں اور اپنی ضرورت کا اظہار ہی نہیں کرتا اس کو کیسے پہچانیں گے تاکہ اس کو اس کا حق دیا جا سکے۔ مفسرین فرماتے ہیں اس سے ایک اور فریضہ بھی عائد ہو جاتا ہے کہ اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر رکھنا کہ کون کس کیفیت میں ہے یہ بھی مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ پیچھا کرے اور مانگنے پر مجبور ہو تم خود ایسے آدمیوں کو تلاش کرو اور انہیں ان کا حق دو۔ یہ میں نے دوسرا دائرہ بیان کیا سوسائٹی کا کہ معاشرے میں جن کو اللہ تعالٰی نے پیسے دیے ہیں ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ ضرورتمندوں کا خیال رکھیں، ان کی ضروریات پوری کریں۔
- تیسرے درجے میں اگر کسی کا کوئی بھی سنبھالنے والا نہ ہو تو اس کی ذمہ داری ریاست اور حکومت پر ہے۔ اس پر میں ایک واقعہ بیان کروں گا۔ بخاری شریف کی روایت ہے، جناب نبی کریمؐ کی عادت مبارکہ یہ تھی کہ کوئی مسلمان فوت ہوتا تو آپؐ جنازہ پڑھانے کے لیے تشریف لے جاتے اور پوچھتے کہ میت پر کسی کا قرضہ تو نہیں ہے؟ اگر کہا جاتا کہ نہیں ہے تو آپؐ جنازہ پڑھا دیتے۔ اور اگر کہا جاتا مقروض مرا ہے، تو پوچھتے کیا اتنی رقم یا جائیداد چھوڑ گیا ہے کہ اس کا قرضہ ادا ہو جائے؟ اگر کہا جاتا کہ جی! اتنی رقم چھوڑ کر مرا ہے تب بھی آپؐ جنازہ پڑھا دیتے۔ لیکن اگر جواب یہ ملتا کہ میت کی میراث سے اس کا قرضہ ادا نہیں ہو سکتا تو فرماتے ’’صلوا علی صاحبکم‘‘ تم جنازہ پڑھ لو، خود حضورؐ جنازہ نہیں پڑھاتے تھے۔
ایک دفعہ ایسا ہی ہوا حضورؐ جنازہ کے لیے تشریف لائے، پوچھا اس پر قرضہ ہے؟ جواب ملا، جی ہے۔ پوچھا، کیا اتنی رقم چھوڑ گیا ہے کہ اس کا قرضہ ادا ہو جائے؟ جواب ملا، نہیں۔ آپؐ نے حسب معمول فرمایا ’’صلوا علٰی صاحبکم‘‘ تم جنازہ پڑھ لو میں جا رہا ہوں۔ ایک صحابی ابوقتادہؓ نے عرض کیا یارسول اللہ! آپ ہمارے اس بھائی کو جنازے سے محروم نہ کیجیے، اس کا جنازہ پڑھا دیں، اس کا قرضہ میرے ذمے رہا، میں ادا کر دوں گا۔ کیونکہ کسی مسلمان کے لیے اس سے زیادہ محرومی کیا ہو سکتی ہے کہ حضورؐ موجود ہوں اور اس کا جنازہ نہ پڑھائیں۔ اس سے زیادہ محرومی کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے؟ چنانچہ قرضہ کا انتظام ہونے کے بعد آپؐ نے وہ جنازہ پڑھا دیا۔ اس موقع پر حضورؐ نے ایک اعلان فرمایا، میں اس کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ حضورؐ نے فرمایا ’’من ترک مالًا فلورثتہٖ ومن ترک کلًا او ضیاعًا فالی وعلی‘‘۔ جو آدمی پیسے، جائیداد، مال چھوڑ کر مرے گا یہ مال اس کے وارثوں کو ملے گا ہم اسے ہاتھ نہیں لگائیں گے۔ اور جو کوئی بوجھ چھوڑ کر مرا ہے، قرضہ چھوڑ کر مرا ہے، یا ضیاعًا لاوارث بچے اور خاندان چھوڑ کر مرا ہے تو وہ میرے پاس آئیں گے اور میرے ذمے ہوں گے۔ یہاں سے فقہاء نے یہ اصول اخذ کیا کہ معاشرے کا ہر بے سہارا، ضرورتمند حکومت کے ذمے ہے۔ چنانچہ حضورؐ نے باقاعدہ اس کا نظام قائم کیا۔
میں کہا کرتا ہوں کہ تاریخ میں پہلی بار یہ اعلان آنحضرتؐ نے کیا کہ جو بوجھ اور قرضہ یا لاوارث اولاد چھوڑ مرے گا وہ میرے پاس آئیں گے اور میرے ذمے ہوں گے۔ رسول اللہؐ نے بیت المال اسی لیے قائم کیا تھا، لوگ آتے تھے اونٹ کی ضرورت ہوتی تو بیت المال سے دے دیتے، کسی کو کھجوریں ضرورت ہوتیں تو اسے بیت المال سے دے دیتے، مدینہ منورہ کا جو بھی ضرورتمند ہوتا حضورؐ کے پاس آتا، حضورؐ بیت المال سے کپڑے، خرچہ وغیرہ دے دیتے تھے۔
اسی پر ایک لطیفے کا قصہ بھی ہے کہ حضورؐ ہلکی پھلکی دل لگی بھی کیا کرتے تھے، خشک مزاج بزرگ نہیں تھے۔ ایک دفعہ ایک مسافر حاضر خدمت ہوا، عرض کیا یارسول اللہ! میں فلاں علاقے سے آیا ہوں، اب واپس جانا ہے لیکن میرا اونٹ مر گیا ہے، مجھے گھر پہنچنے کے لیے اونٹ چاہیے۔ اسے پتہ تھا کہ یہاں سے اونٹ مل جائے گا۔ آپؐ نے فرمایا، بیٹھو تمہیں اونٹنی کا بچہ دوں گا۔ وہ پریشان ہو گیا کہ میں اونٹنی کے بچے کو کیا کروں گا؟ میں اسے اٹھاؤں گا یا وہ مجھے اٹھائے گا۔ اس نے حضورؐ سے عرض کیا یارسول اللہ میں اونٹ کے بچے کو کیا کروں گا۔ تھوڑی دیر بعد حضورؐ نے بیت المال سے اونٹ منگوایا، اس کی مہار اس مسافر کو پکڑائی اور کہا، یہ بھی کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہے۔
جس طرح حضورؐ لوگوں سے دل لگی کرتے تھے اسی طرح بے تکلف ساتھی بھی آپؐ کے ساتھ دل لگی کیا کرتے تھے۔ ایک دلچسپ واقعہ عرض کرتا ہوں۔ حضرت نعیمانؓ بدری صحابی تھے، بڑے کھلی طبیعت کے آدمی تھے۔ وہ لطیفے کرتے رہتے تھے، ان کا ایک لطیفہ یہ ہے کہ ایک دن بازار سے گزر کر مسجد میں حضورؐ کے پاس جا رہے تھے کہ انگوروں کی ریڑھی دیکھی، کھانے کو دل چاہا تو مالک سے کہا، ایک صاع انگور دینا، میں حضورؐ کو چیک کراتا ہوں، اگر پسند آ گئے تو ہم کھالیں گے، اتنی دیر بعد مسجد میں آ کر پیسے لے جانا۔ انہوں نے انگور لیے اور مسجد پہنچے۔ وہاں حضورؐ اور صحابہؓ موجود تھے، ان سے جا کر کہا انگور کھائیں گے؟ انہوں نے کہا کھالیں گے۔ چنانچہ سب نے انگور کھائے، تھوڑی دیر کے بعد پیسے لینے والا آدمی آ گیا۔ حضرت نعیمان نے حضورؐ سے کہا یارسول اللہ! اس کو پیسے دیں۔ آپؐ نے فرمایا، کس چیز کے پیسے؟ حضرت نعیمانؓ نے کہا ابھی انگور نہیں کھائے؟ انگور کھائے ہیں تو اب پیسے دیں۔ چنانچہ حضورؐ نے پیسے دیے، پھر حضرت نعیمانؓ نے کہا میرا جی چاہ رہا تھا کہ آپ انگور کھائیں، میرے پاس پیسے نہیں تھے تو میں نے یہ طریقہ اختیار کیا تاکہ آپ انگور کھا لیں کہ ویسے تو آپ نے انگور کھانے نہیں تھے۔
میں نے یہ بات عرض کی ہے کہ حضورؐ کے زمانے میں یہ ماحول تھا کہ جس کو جو چیز ضرورت ہوتی تھی بیت المال سے اس کو مل جاتی تھی۔ معاشرے کے ضرورتمندوں کی ضرورتیں آپؐ بیت المال سے پوری کیا کرتے تھے۔
یہ میں نے تین دائرے بیان کیے۔ گھر کی ضروریات اور خرچہ کی تفصیل بھی حضورؐ نے بیان فرمائی۔ بچے ماں باپ کے ذمے اور والدین اولاد کے ذمے۔ بیوی شوہر کے ذمے اور گھر کے سارے کام بیوی کے ذمے۔ دوسرے دائرے میں معاشرے کے امیروں کے ذمے لگا دیا کہ غریبوں اور محتاجوں کی ضروریات پوری کرنا تمہاری ذمہ داری ہے۔ اور تیسرا دائرہ کہ جس کا کوئی خیال نہ رکھنے والا ہو وہ حکومت اور ریاست کے کھاتے میں ہیں۔ جیسا کہ حکومتیں خلافت راشدہ کے دور میں ذمہ دار ہوا کرتی تھیں اور اپنی یہ ذمہ داری پوری کیا کرتی تھیں، اس پر بہت سے واقعات ہیں لیکن اب اتنا وقت نہیں ہے کہ بیان کیے جائیں۔ اللہ تعالٰی ہمیں دوبارہ ایسا نظام نصیب فرما دے، آمین۔