صدام حسین کا اصل قصور جس کا تذکرہ کہیں نہیں

   
۱۸ دسمبر ۲۰۰۳ء

امریکی ذرائع کے مطابق عراق کے معزول صدر صدام حسین کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور وہ اس وقت اتحادی فوجوں کی تحویل میں ہیں۔ خبروں میں بتایا گیا ہے کہ انہیں تکریت کے علاقہ میں زیر زمین پناہ گاہ سے اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ سوئے ہوئے تھے، ان کے پاس دو رائفلیں اور متعدد دستی بم تھے اور لاکھوں ڈالر بھی ان کے پاس تھے، جبکہ ان کی ڈاڑھی بڑھی ہوئی تھی اور چہرے پر تھکن اور مشقت کے آثار تھے۔ ان کی ڈاڑھی سمیت تصویر اخبارات میں آئی ہے جس سے تاثر ملتا ہے کہ وہ حالت جنگ میں تھے اور آخر وقت تک ہتھیار بکف تھے مگر مخبروں کی مساعی کامیاب ہوئیں اور وہ انہیں اتحادی فوجوں کے شکنجے میں لانے کی کوشش میں بالآخر کامیاب ہوگئے۔ صدام حسین کا ڈی این اے ٹیسٹ لے کر تصدیق کر دی گئی ہے کہ وہ فی الواقع وہی صدام حسین ہیں جو عراق کے حکمران رہے ہیں اور امریکہ کو مطلوبہ ہیں۔ ان کی ڈاڑھی صاف کر دی گئی ہے اور ڈاڑھی کے بغیر بھی ان کی تازہ تصویر مغربی ذرائع کے حوالے سے اخبارات کی زینت بنی ہے۔

صدر بش اور برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے فوری طور پر پریس کانفرنس کر کے اس پر خوشی کا اظہار کیا ہے اور اسے اتحادی فوجوں کی فتح قرار دیا ہے جبکہ اس بات پر ملے جلے تاثر کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ صدام حسین کی گرفتاری کے بعد عراق میں اتحادی فوجوں کے خلاف مزاحمت اور گوریلا کارروائیوں میں کمی آئے گی یا وہ پہلے سے زیادہ بڑھ جائیں گی۔

تقریباً ربع صدی تک عراق کے حکمران رہنے والے صدام حسین بعث پارٹی کے اہم لیڈروں میں سے تھے جس نے عرب دنیا میں عرب نیشنلزم کو فروغ دینے اور عراقی نیشنلزم کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ عرب نیشنلزم یا علاقائی قومیتوں کا نسخہ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے لیے مغربی دانشوروں اور حکمرانوں نے بڑی چابکدستی اور ہوشیاری کے ساتھ استعمال کیا تھا۔ اور عالم اسلام کے سیاسی مرکز خلافت عثمانیہ کو سبوتاژ کرنے میں وہ اس طرح کامیاب ہوئے تھے کہ عربوں کو عجمی ترکوں کی حکمرانی سے آزادی حاصل کرنے کی ترغیب دی اور جب وہ خلافت عثمانیہ کو بکھیر کر یہ آزادی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو انہیں مصری، شامی، اردنی، عراقی، فلسطینی اور دیگر علاقائی قومیتوں کے دام ہمرنگ زمین میں الجھا دیا۔ اس کے رد عمل میں عرب دانشوروں کے ایک طبقہ نے ’’علاج بالمثل‘‘ کا طریقہ اختیار کیا کہ جس عرب قومیت یا علاقائی قومیتوں نے خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کر کے اس خطہ میں مغربی ممالک کی دخل اندازی اور بالادستی کی راہ ہموار کی تھی اسی عرب قومیت اور علاقائی قومیتوں کو مغرب کی بالادستی کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہا۔ جمال عبد الناصر، احمد بن بیلا، ابراہیم عبود، عبد الکریم قاسم، معمر القذافی، نور الدین عطاشی اور دیگر متعدد عرب لیڈروں کی حکمت عملی یہی تھی اور انہوں نے مغرب کی بالادستی اور مداخلت کا ذریعہ بننے والی عرب قومیت کو ہی مغرب سے نجات کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔

سوویت یونین چونکہ ایک حریف کے طور پر امریکہ کے سامنے آچکا تھا اس لیے اس نے عرب قومیت کے اس نعرہ کی حمایت کی اور اسے سپورٹ کر کے اپنے حلقۂ اثر میں اضافہ کیا۔ لیکن ۱۹۶۷ء میں اسرائیل کے ہاتھوں عربوں کی خوفناک شکست نے پورا منظر تبدیل کر دیا اور قوم پرست عرب لیڈروں کو بھی اپنی سیاست اور اقتدار بچانے کے لیے امریکہ کی دہلیز پر سجدہ ریز ہونا پڑا۔ صدام حسین بنیادی طور پر اسی کیمپ سے تعلق رکھتے تھے، وہ عرب قومیت اور پھر عراقی قومیت کے علمبردار تھے۔ انہوں نے اسی نظریہ پر قائم بعث پارٹی کے لیے شب و روز محنت کی اور اقتدار تک جا پہنچے۔ بعث پارٹی کو ایک دور میں سوویت یونین کی سیاسی اور اخلاقی حمایت حاصل تھی لیکن مسابقت کی دوڑ میں اس کے پیچھے رہ جانے پر دیگر عرب قوم پرست لیڈروں کی طرح صدام حسین کو بھی امریکہ کی دوستی کے دائرہ میں آنا پڑا اور پھر وہ وقت بھی دنیا نے دیکھا کہ صدام حسین اس خطہ میں امریکہ کے دوستوں میں شمار ہونے لگے۔ انہیں ایران کے خلاف جنگ میں امریکہ کی بھرپور پشت پناہی حاصل تھی اور وہ اس وقت امریکہ کے بہترین دوستوں میں گنے جاتے تھے۔

مگر جب صدام حسین کی ضرورت نہ رہی یا دوسرے لفظوں میں امریکہ کو اسرائیل اور عراق میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو خلیج عرب کا منظر ایک بار پھر تبدیل ہوگیا۔ اب صدام حسین دوست نہیں بلکہ دشمن تھے، انہیں فراہم کی جانے والی قوت اور وسائل کی واپسی یا تباہی ضروری قرار پا گئی تھی۔ اس لیے انہیں ایک ایسے جال میں الجھا دیا گیا کہ اس کے نتیجے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے قدم خلیج عرب میں جمتے چلے گئے اور آج خلیج عرب بلکہ پورے مشرق وسطیٰ کی صورتحال یہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی فوجیں ہیں، اسرائیل اور اس کی دہشت گردی ہے، اور ان دونوں کی طرف رحم طلب نگاہوں سے مسلسل دیکھنے والی سہمی سہمی سی عرب حکومتیں ہیں۔ اس کے علاوہ اس منظر نامہ میں اور کسی بات کی گنجائش سردست نظر نہیں آرہی۔

صدام حسین کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا، ان کے جرائم کے ثبوت فراہم کیے جائیں گے اور انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔ یہ کوئی غیر متوقع بات نہیں ہے، فاتحین نے اپنے قبضے میں آنے والے مفتوحین کے ساتھ ہمیشہ یہی سلوک کیا ہے۔ یہ صرف جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی تھی یا ان کی تعلیمات و ہدایات پر یقین رکھنے والے بعض خدا ترس جرنیل تھے جنہوں نے دشمنوں پر مکمل قبضہ اور دسترس رکھنے کے باوجود مختلف مواقع پر عفو و درگزر سے کام لیا۔ ورنہ فاتحین کی عدالتوں نے مفتوحین کے ساتھ دنیا میں کیا کچھ نہیں کیا؟ بلکہ یہ عدالتیں تو وہ ہیں جو انصاف کا معیار خود قائم کرتی ہیں، اس کا طریقہ کار خود وضع کرتی ہیں، فیصلوں کی کسوٹی بھی خود ہوتی ہیں اور ان کے فیصلوں کے صحیح ہونے کے لیے صرف اتنی دلیل کافی ہوتی ہے کہ وہ فاتحین کی عدالتیں ہیں اور مفتوحین ان کے قبضہ و اختیار میں ہیں۔

صدام حسین کے جرائم میں بہت سی باتیں شمار کی جاتی ہیں اور بہت سی ابھی شامل کی جائیں گی۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ

  1. انہوں نے عراقی عوام کو جمہوری حقوق اور شہری آزادیوں سے محروم رکھا اور ان پر ایک صدی تک جبر کے ذریعہ حکومت کرتے رہے،
  2. انہوں نے بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے فیصلوں کی پاسداری نہیں کی اور من مانی سے کام لیتے رہے،
  3. انہوں نے عراق کے اہل تشیع اور کردوں کو وحشیانہ جبر و تشدد اور مظالم کا نشانہ بنایا،
  4. وہ اپنے اردگرد کی چھوٹی ریاستوں کے لیے خوف اور دہشت کی علامت بنے رہے،
  5. اور انہوں نے اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کی بجائے اسے ختم کرنے کی پالیسی اختیار کیے رکھی۔

اس نوعیت کی اور بھی بہت سی باتیں ان کے خلاف فرد جرم کا حصہ بنیں گی لیکن ہمارے نزدیک صدام حسین کا اصل قصور کچھ اور ہے جس کا دور دور تک کہیں تذکرہ نہیں ہوگا۔ وہ قصور ہے مغرب کی دوستی اور اس دوستی کا غلط مفہوم جس نے انہیں اس مقام تک پہنچا دیا ہے۔ صدام حسین نے ایک دور میں مغرب کو اپنا دوست سمجھا اور اس کے بہت سے تقاضے پورے کیے لیکن وہ غلط طور پر یہ سمجھ بیٹھے کہ یہ دوستی دو طرفہ ہے اور وقت آنے پر دوسری طرف سے بھی دوستی کے تقاضوں کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ جبکہ مغرب اس معاملہ میں ’’ون وے ٹریفک‘‘ کا عادی ہے۔ اس کے نزدیک دوستی کا مفہوم صرف یہ ہے کہ وہ جس کو اپنا دوست کہے وہ ضرورت کے مطابق اس کے کام آتا رہے اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لے کہ جونہی اس کی ضرورت ختم ہوگئی یا اس نے جوابی دوستی کا تقاضا کر دیا تو اس کا نام دوستوں کی فہرست سے کٹ جائے گا۔ صدام حسین کے پاس شاید وقت نہیں تھا ورنہ وہ فلپائن کے مارکوس اور ایران کے رضا شاہ پہلوی کا حشر ایک نظر دیکھ لیتے کہ مغرب اپنے دوستوں سے بالآخر کیا سلوک کیا کرتا ہے۔

بہرحال صدام حسین اپنے سابقہ دوستوں کی تحویل میں ہیں اور ان کے ساتھ وہ جو سلوک روا رکھیں گے وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ منظر عام پر آتا رہے گا۔ مگر ہمیں ان بہت سے دیگر ’’صدام حسینوں‘‘ پر ترس آرہا ہے جو مغرب کی دوستی کے سنہری جال میں مسلسل پھنسے ہوئے ہیں اور ابھی تک جال کی سنہری تاروں سے ان کی نظریں نہیں ہٹ رہیں۔ انہیں کون بتائے گا کہ وہ رضا شاہ پہلوی، مارکوس اور صدام حسین سے مختلف نہیں ہیں اور نہ ہی انہیں ڈیل کرنے والے مغربی دوست رضا شاہ پہلوی، مارکوس اور صدام حسین کو ڈیل کرنے والوں سے کوئی الگ مخلوق ہیں۔ خدا ہی ان بے چاروں کے حال پر رحم فرمائے، آمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter