جمعیۃ علماء اسلام میں اختلافات ۔ پس منظر و پیش منظر

   
تاریخ : 
۱۵ جنوری ۲۰۰۶ء

مولانا صاحبزادہ پیر عبد الرحیم نقشبندی گزشتہ دنوں اپنے بعض رفقاء سمیت گوجرانوالہ تشریف لائے اور جمعیۃ علماء اسلام (سمیع الحق گروپ) میں نئے خلفشار کے حوالے سے مجھے کہا کہ میں اس سلسلہ میں اب کوئی متحرک کردار ادا کروں۔ میں نے ان سے عرض کی کہ میں جمعیۃ علماء اسلام کا مسلسل رکن ہوں اور تاحیات اسی جماعت میں رہنا چاہتا ہوں لیکن اس میں کوئی عملی اور متحرک کردار ادا کرنا بوجوہ میرے بس میں نہیں ہے۔ مجھ سے دریافت کیا گیا کہ میں جمعیۃ کے مختلف دھڑوں میں سے کس میں ہوں؟ میں نے عرض کیا کہ حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کی وفات کے بعد جب جمعیۃ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی تو میں حضرت الامیر مولانا محمد عبد اللہ درخواستی کے ساتھ تھا اور اس کے بعد جتنے اتار چڑھاؤ ہوئے میں انہی کے ساتھ رہا، حتٰی کہ ان کی وفات کے وقت میں انہی کے ساتھ تھا اور اب بھی بحمد اللہ اسی کیفیت میں ہوں۔

جمعیۃ علماء اسلام کا قیام اختلاف کی بنیاد پر ہی عمل میں آیا تھا اور اس کے بعد سے اب تک علماء حق کی یہ جماعت اختلافات کے مختلف ادوار سے گزرتی ہوئی موجودہ مقام تک پہنچی ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے جب جمعیۃ علماء ہند نے متحدہ ہندوستان کی تقسیم کی مخالفت کرنے کا فیصلہ کیا اور قیام پاکستان کی تحریک کا ساتھ دینے کی بجائے کانگریس کی حمایت کا اعلان کر دیا تو جمعیۃ علماء ہند میں شامل ان بزرگوں نے جمعیۃ علماء اسلام کے نام سے الگ جماعت قائم کر لی جو پاکستان کے قیام کی تحریک کا ساتھ دینے کو ضروری سمجھتے تھے اور اس میں کردار ادا کرنا چاہتے تھے۔ اس جمعیۃ کے سربراہ علامہ شبیر احمد عثمانی چنے گئے جبکہ جمعیۃ علماء ہند کے سربراہ اس وقت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ تھے۔ دونوں بزرگ حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن رحمہ اللہ کے مایہ ناز شاگردوں میں سے تھے اور دارالعلوم دیوبند کے روشن ستارے تھے۔

حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے اپنے رفقاء سمیت تحریک پاکستان کی حمایت میں بھرپور کردار ادا کیا مگر قیام پاکستان کے بعد یہ جماعت سیاسی طور پر متحرک نہ رہ سکی۔ دستور ساز اسمبلی میں علامہ عثمانیؒ کے خطابات اور قرارداد مقاصد کے لیے ان کی جدوجہد نے قومی حلقوں میں جمعیۃ علماء اسلام کی آواز کو زندہ رکھا مگر عوامی حلقوں میں ایک منظم جماعت کا روپ نہ دھار سکی۔ اس وقت اس جماعت کے اکابر میں مولانا ظفر احمد عثمانی، مولانا مفتی محمد شفیع، مولانا اطہر علی، مولانا احتشام الحق، مولانا محمد حسن امرتسری اور مولانا محمد متین خطیب رحمہم اللہ جیسے بزرگ نمایاں تھے۔ جبکہ دوسری طرف اس میدان میں جمعیۃ علماء ہند سے وابستہ جو حضرات موجود تھے انہوں نے ’’جمعیۃ علماء پاکستان‘‘ کے نام سے منظم ہونے کا ارادہ کیا اور اس مقصد کے لیے کھڈہ (کراچی) کے مولانا محمد صادق، صوبہ سرحد کے حضرت مولانا سید گل بادشاہ، مولانا عبد الحنان ہزاروی، گوجرانوالہ کے مولانا مفتی عبد الواحد اور ساہیوال کے مولانا مفتی ضیاء الحسن نے جمعیۃ علماء پاکستان قائم کرنے کا باضابطہ فیصلہ بھی کر لیا مگر اس وقت کے سیاسی حالات میں یہ سلسلہ آگے نہ بڑھ سکا۔

مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی وفات کے بعد ایک مرحلہ ایسا آیا کہ دونوں جمعیتوں سے تعلق رکھنے والے بزرگوں نے جمعیۃ علماء اسلام کے پلیٹ فارم پر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس موقع پر شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوریؒ کو جمعیۃ کا امیر اور مولانا احتشام الحق تھانوی کو ناظم اعلیٰ منتخب کیا گیا مگر یہ بات عملی طور پر آگے نہ بڑھ سکی تا آنکہ ۱۹۵۷ء میں مولانا مفتی محمودؒ کی دعوت پر ملتان میں ہونے والے ایک علماء کنونشن میں ’’جمعیۃ علماء اسلام مغربی پاکستان‘‘ کو عوامی سطح پر منظم کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور ملکی سیاست میں بھرپور کردار ادا کرنے کا اعلان کیا گیا۔ مولانا احمد علی لاہوریؒ کو جمعیۃ کا امیر اور مولانا غلام غوث ہزارویؒ کو ناظم اعلیٰ منتخب کیا گیا جبکہ اس کے مرکزی رہنماؤں میں مولانا مفتی محمودؒ، مولانا عبد اللہ درخواستیؒ، مولانا محمد یوسف بنوریؒ اور مولانا شمس الحق افغانیؒ جیسے بزرگ شامل تھے۔ جبکہ مشرقی پاکستان کے جمعیۃ علماء اسلام سے تعلق رکھنے والے بہت سے بزرگ سابق وزیراعظم چودھری محمد علی مرحوم کی قائم کردہ ’’نظام اسلام پارٹی‘‘ میں شامل ہوگئے اور مغربی پاکستان میں اس حلقے کے بزرگوں نے خاموشی اختیار کرلی۔

۱۹۷۰ء کے انتخابات سے قبل جب ذوالفقار علی بھٹو نے ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا نعرہ لگایا تو ملک کی انتخابی سیاست دائیں بازو اور بائیں بازو کے دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ انتخابی مہم کا بازار گرم ہوا تو حضرت درخواستیؒ، مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا غلام غوث ہزارویؒ کی قیادت میں کام کرنے والی جمعیۃ علماء اسلام نے، جو کہ جمعیۃ علماء ہند کی فکری جانشین تھی اور جس کی گھٹی میں استعمار دشمنی اور سرمایہ دارانہ و جاگیردارانہ نظام کی مخالفت شامل ہے، دائیں بازو کی جماعت کے طور پر کام کرنے سے انکار کر دیا۔ اسلامی سوشلزم کے حامیوں پر لگائے جانے والے کفر کے فتویٰ کی مخالفت کی اس فضا میں مولانا ظفر احمد عثمانیؒ، مولانا مفتی محمد شفیعؒ اور مولانا احتشام الحق تھانویؒ کی سربراہی میں جمعیۃ علماء اسلام کے پرانے بزرگ ازسرنو منظم ہوئے اور ’’مرکزی جمعیۃ علماء اسلام‘‘ کے نام سے جماعت بنا کر دائیں بازو کی سیاست میں شریک ہوگئے جبکہ تقابل کی اس فضا میں پہلی جمعیۃ ’’ہزاروی گروپ‘‘ کے عنوان سے موسوم ہوگئی۔

۱۹۷۰ء کے انتخابات میں ہزاروی گروپ نے قومی اسمبلی، سرحد اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی میں نمائندگی حاصل کر لی اور ملک کی اہم سیاسی جماعتوں میں اس کا شمار ہونے لگا۔ اس دوران سقوط ڈھاکہ اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا عظیم سانحہ پیش آیا جس کے بعد مرکزی جمعیۃ علماء اسلام نے خاموشی اختیار کر لی اور میدان میں وہی جمعیۃ رہ گئی جس کی قیادت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ، مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا غلام غوث ہزارویؒ کر رہے تھے۔ لیکن مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد باقی ماندہ پاکستان میں مستقبل کے سیاسی نقشہ اور اس میں جمعیۃ کے کردار کے تعین کے مسئلے پر حضرت مولانا مفتی محمودؒ اور مولانا غلام غوث ہزارویؒ کے رجحانات الگ الگ ہوگئے جو جمعیۃ کی ایک نئی تقسیم کا عنوان بن گئے۔ مولانا غلام غوث ہزارویؒ مسٹر بھٹو کے ساتھ سیاسی رفاقت کے حق میں تھے جبکہ مولانا مفتی محمودؒ بھٹو کے خلاف اپوزیشن کو منظم کرنے میں بھرپور کردار ادا کرنے کو ضروری سمجھتے تھے۔ اس لیے دونوں کے راستے الگ ہوگئے اور حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ نے الگ جمعیۃ بنا لی جس میں حضرت مولانا عبد الحکیمؒ اور مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ ان کے ساتھ تھے، جبکہ حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ، حضرت مولانا عبید اللہ انورؒ، مولانا سید گل بادشاہؒ اور ملک بھر کے دیگر بزرگ علماء مولانا مفتی محمودؒ کے ساتھ رہے۔

اختلافات کا یہ سلسلہ مولانا ہزارویؒ کے دور سے اب تک چلا آرہا ہے لیکن اس دوران ۱۹۷۷ء کے انتخابات اور تحریک نظام مصطفٰیؐ کے دوران مولانا مفتی محمودؒ کی قیادت نے جمعیۃ علماء اسلام کو اور زیادہ سیاسی استحکام بخشا اور ملک بھر میں دیوبندی علماء کرام کی بھاری اکثریت اس کے ساتھ وابستہ ہوگئی البتہ حضرت مفتی صاحبؒ کی وفات کے بعد جمعیۃ علماء اسلام ایک اور تقسیم سے دوچار ہوگئی۔ اس بار وجۂ اختلاف یہ بنی کہ حضرت مولانا سید حامد میاںؒ، مولانا خان محمد مدظلہ، مولانا سید محمد شاہ امروٹیؒ اور ان کے ساتھ بہت سے دیگر بزرگ مولانا فضل الرحمان کو مولانا مفتی محمودؒ کی جگہ جمعیۃ کا سیکرٹری جنرل منتخب کر کے ایم آر ڈی کے عنوان سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ سیاسی اتحاد میں شامل ہونا چاہتے تھے، مگر حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ اور ان کے بہت سے رفقاء مولانا عبید اللہ انور کو جمعیۃ کا جنرل سیکرٹری بنا کر ایم آر ڈی سے الگ رہنا چاہتے تھے۔ اس مسئلہ پر جمعیۃ دو دھڑوں میں بٹ گئی، ایک درخواستی گروپ کہلایا اور دوسرا فضل الرحمان گروپ کے نام سے موسوم ہوا۔ میں اس تقسیم میں حضرت درخواستیؒ کے ساتھ تھا اور اس میں ایک متحرک کردار تھا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا حتیٰ کہ جب ایم آر ڈی تحلیل ہوگئی تو حضرت درخواستیؒ اور مولانا فضل الرحمان میں مصالحت ہوگئی اور متحدہ جمعیۃ کا حضرت درخواستیؒ کو امیر اور مولانا فضل الرحمان کو سیکرٹری جنرل چن لیا گیا۔ اس وقت درخواستی گروپ کے سیکرٹری جنرل مولانا سمیع الحق تھے جنہوں نے مصالحت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور ’’سمیع الحق گروپ‘‘ کے نام سے الگ جمعیۃ قائم کر لی اور یہ تقسیم آج تک چل رہی ہے۔ بلکہ مولانا اجمل قادری نے ’’قادری گروپ‘‘ کے نام سے الگ گروپ بنا رکھا ہے اور اب حضرت صاحبزادہ پیر عبد الرحیم نقشبندی جمعیۃ علماء اسلام ’’سینئر گروپ‘‘ کے نام سے ایک نئے گروپ کی تشکیل کے لیے متحرک ہیں۔

اس دوران ایک اور کوشش بھی ہوتی رہی جس کا مقصد درخواستی گروپ کی دوبارہ بحالی تھا۔ راقم الحروف نے جب مولانا فداء الرحمان درخواستی کے ساتھ مل کر ایک ایسے فورم کے قیام کے لیے کوشش شروع کی جو جمعیۃ علماء اسلام کے اندر رہتے ہوئے گروپ بندی کی سیاست سے بالاتر ہو کر نفاذ اسلام کے لیے صرف علمی و فکری کوششوں کو منظم کرے تو ہمارے بہت سے بزرگوں کا اصرار تھا کہ یہ فورم جمعیۃ علماء اسلام درخواستی گروپ کے نام سے کام کرے۔ اس پر لاہور، خانپور، کراچی اور راولپنڈی میں متعدد اجلاس ہوئے مگر ہم نے دوٹوک فیصلہ کیا کہ جمعیۃ علماء اسلام کے نام سے کسی نئے دھڑے کا اضافہ نہیں کریں گے بلکہ گروہ بندی اور انتخابات کی سیاست سے الگ تھلگ رہتے ہوئے اسلامائزیشن کے لیے جس حد تک ہوا جمعیۃ میں کام کریں گے۔ چنانچہ پاکستان شریعت کونسل کے فورم سے ہم اسی رخ پر چل رہے ہیں اور سست رفتاری کے باوجود اپنے کام سے مطمئن ہیں۔

یہ طویل داستان رقم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جمعیۃ علماء اسلام اپنے قیام سے لے کر اب تک اس قسم کے بحرانوں سے مسلسل گزرتی آئی ہے اور آئندہ بھی ایسا ہوتا رہے گا۔ اس لیے بات گروہ بندی کی نہیں بلکہ اہداف و مقاصد کی ہے۔ میں نے صاحبزادہ پیر عبد الرحیم نقشبندی سے عرض کیا کہ جہاں تک ان کے موقف کا تعلق ہے کہ موجودہ حالات میں متحدہ مجلس عمل کو باقی رہنا چاہیے اور اسے کسی طرح نقصان نہیں پہنچنا چاہیے، میں اس کی تائید کرتا ہوں اور خود میرا موقف بھی یہی ہے کہ اس وقت عالمی اور ملکی سطح پر اہل دین جس ہمہ گیر آزمائش کا شکار ہیں ایسے میں متحدہ مجلس عمل کا متحرک و فعال رہنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ قومی سیاست کے حوالے سے ملک کے اندر آخری امید ہے۔ اگر یہ بھی دم توڑ گئی تو قومی سیاست میں دین کے حوالے سے بات کرنا اور دین کی نمائندگی کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے گا، اس لیے میں ان کے ساتھ ہوں لیکن جمعیۃ علماء اسلام میں دھڑے بندی کے حوالے سے کسی سطح پر کوئی کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں بلکہ میری دلی خواہش ہے کہ مولانا سمیع الحق اور مولانا میاں محمد اجمل قادری بھی جمعیۃ کے الگ الگ دھڑوں پر اصرار کرنے کی بجائے ’’مین اسٹریم‘‘ کو مضبوط کرنے کا راستہ اختیار کریں کیونکہ قومی سیاست میں دینی رجحانات کی مؤثر نمائندگی کے لیے ایسا کرنا اب زیادہ ضروری ہوگیا ہے اور اس کو نظر انداز کرنا مستقبل کے بڑھتے ہوئے خطرات سے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لینے کے مترادف ہوگا۔

   
2016ء سے
Flag Counter