خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ۔ عربوں کا برطانیہ کے ساتھ تعاون

   
تاریخ : 
۱۸ جنوری ۲۰۰۰ء

مری کے جناب محمد مسکین عباسی نے روزنامہ اوصاف میں ۸ جنوری کو شائع ہونے والے اپنے مضمون میں آل سعود اور برطانیہ کے درمیان ہونے والے معاہدہ کے بارے میں راقم الحروف کے ایک مضمون کا حوالہ دے کر ’’مولانا زاہد الراشدی روشنی ڈالیں‘‘ کے عنوان سے تقاضہ کیا ہے کہ اس بارے میں کچھ مزید معروضات پیش کروں۔ چنانچہ ان کی فرمائش کو سامنے رکھتے ہوئے اس دور کی خلیج عرب کی صورتحال کا ایک جائزہ قارئین کی نذر کر رہا ہوں۔

برطانوی استعمار نے خلافت عثمانیہ کے خاتمہ اور عربوں کو خلافت سے بے زار کرنے کے لیے مختلف عرب گروپوں سے سازباز کی تھی اور نہ صرف لارنس آف عریبیہ بلکہ اس قسم کے بہت سے دیگر افراد و اشخاص کے ذریعہ عرب قومیت اور خود عربوں کے داخلی دائرہ میں مختلف علاقائی و طبقاتی عصبیتوں کو ابھارنے کے لیے ایک وسیع نیٹ ورک قائم کر رکھا تھا۔ یہ اسی تگ و دو کا نتیجہ ہے کہ خلافت عثمانیہ کا صدیوں تک حصہ رہنے والی عرب دنیا آج چھوٹے چھوٹے بے حیثیت ممالک میں بٹ کر رہ گئی ہے۔ ان کی بے وقعتی کا عالم یہ ہے کہ تیل کی دولت سے مالا مال ہونے کے باوجود وہ ایک دوسرے سے اپنی حفاظت کے لیے مغربی ممالک کی فوجی قوت اور سیاسی سرپرستی کا سہارا لینے پر مجبور ہیں۔ اور مغربی استعمار ان کی اسی مجبوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خلیج عرب پر آہنی پنجے گاڑے بیٹھا ہے۔

آج کی صحبت میں برطانوی استعمار کے اس وسیع نیٹ ورک کے صرف ایک حصے کا مختصر خاکہ پیش کیا جا رہا ہے جو اس زمین سے متعلق ہے جسے سعودی عرب کہا جاتا ہے اور جسے خلافت عثمانیہ سے باغی کرنا اس وقت برطانوی ایجنڈے کی سب سے اہم شق کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس مقصد کے لیے دو گروپوں کو قابو کرنا ضروری سمجھا گیا۔ ایک آل سعود تھے جو صدیوں سے نجد کے علاقہ کے حکمران تھے اور انہوں نے کسی دور میں بھی خلافت عثمانیہ کا حصہ بننا قبول نہیں کیا تھا بلکہ وہ مسلسل خلافت کے خلاف میدان جنگ میں محاذ آراء رہے۔ جبکہ دوسرا مکہ مکرمہ کا حکمران خاندان تھا جس کے سربراہ حسین بن علی خلافت عثمانیہ کی طرف سے مکہ مکرمہ کے والی تھے اور شریف مکہ کہلاتے تھے۔ برطانوی حکمرانوں نے ان دونوں کو اپنے ہاتھ میں کیا اور دونوں کے ساتھ ۱۹۱۸ء میں برطانوی نمائندوں کے باقاعدہ معاہدے ہوئے جن کا تذکرہ اپنے بعض مضامین میں باحوالہ کر چکا ہوں۔

آل سعود سے یہ کہا گیا کہ برطانیہ ان کی حکومت و اقتدار کا تحفظ کرے گا اورا س بات کی ضمانت دے گا کہ اس علاقہ کی حکومت آل سعود کے خاندان میں ہی رہے گی۔ جبکہ شریف مکہ حسین بن علی کو یہ لالچ دیا گیا کہ اگر وہ ترکوں کی خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کر کے ترک افواج کو حجاز مقدس سے نکال دے تو اسے امیر المومنین کی حیثیت سے تسلیم کر لیا جائے گا اور پورے عرب کی بادشاہت اسے سونپ دی جائے گی۔ چنانچہ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ میں دونوں گروپوں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ جب عرب دنیا خلافت عثمانیہ کے دائرہ سے نکل گئی تو ان دونوں گروپوں میں آل سعود کو زیادہ بااعتماد سمجھتے ہوئے انہیں نجد اور دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ حجاز مقدس کا علاقہ بھی دے دیا گیا جس کے نتیجہ میں سعودی مملکت قائم ہوئی۔ جبکہ شریف مکہ حسین بن علی کے ایک بیٹے کو اردن کا علاقہ سپرد کر کے اس کو بادشاہ بنا دیا گیا اور خود شریف مکہ عرب دنیا کی بادشاہت کی حسرت دل میں لیے دنیا سے رخصت ہوگیا۔

اس سلسلہ میں ایک دلچسپ تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ ان تین فریقوں یعنی خلافت عثمانیہ، شریف مکہ حسین بن علی، اور آل سعود کو برصغیر پاک و ہند کے تین مذہبی مکاتب فکر دیوبندی، بریلوی، اور اہل حدیث کی الگ الگ حمایت حاصل تھی۔

خلافت عثمانیہ کے تحفظ کے لیے علمائے دیوبند میدان میں اترے اور برصغیر کی تحریک خلافت میں سب سے نمایاں کردار ان کا ہے، بلکہ جس وقت شریف مکہ حسین بن علی نے ترکوں کی خلافت کے خلاف بغاوت کو جائز قرار دلوانے کے لیے اپنے ہمنوا علماء سے فتویٰ لیا تو دیوبندی جماعت کے سربراہ شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ اس وقت حرمین شریفین میں تھے۔ ان سے بھی اس فتویٰ پر دستخط کا تقاضا کیا گیا مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ اسی کی پاداش میں شریف مکہ نے انہیں گرفتار کر کے انگریزوں کے حوالہ کر دیا اور وہ اپنے رفقاء مولانا سید حسین احمدؒ مدنی، مولانا عزیر گلؒ اور دیگر ساتھیوں کے ہمراہ مالٹا جزیرہ میں ساڑھے تین سال تک نظر بند رہے۔

دوسری طرف بریلوی مکتبہ فکر کے سربراہ مولانا احمد رضا خان بریلویؒ نے نہ صرف یہ کہ خلافت عثمانیہ کے خلاف شریف مکہ کے فتویٰ پر دستخط کیے بلکہ برصغیر میں بھی تحریک خلافت کی مخالفت کی۔ اس حوالہ سے ایک اور دلچسپ حقیقت یہ بھی ہے کہ ترکوں کی خلافت عثمانیہ کے خلاف بغاوت کے لیے بعض علماء کی طرف سے یہ دلیل پیش کی گئی کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ الائمۃ من قریش کہ خلفاء قریش میں سے ہوں گے۔ اور چونکہ ترکی خلفاء قریشی نہیں ہیں اس لیے ان کی خلافت شرعاً جائز نہیں ہے۔ جبکہ شریف مکہ حسین بن علی کا تعلق بنو ہاشم سے ہے اور وہ سید ہیں اس لیے انہیں خلیفہ منتخب کرنا ضروری ہے۔ اس کا جواب حضرت مولانا سید حسین احمدؒ مدنی نے دیا کہ جناب رسول اللہؐ کا یہ ارشاد گرامی بطور حکم نہیں ہے کہ خلیفہ لازماً قریشی ہی ہو بلکہ بطور خبردار پیش گوئی کے ہے کہ میرے بعد امت کے حکمران قریش میں سے ہوں گے اور خلافت راشدہ اور خلافت بنو عباس کی صورت میں یہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے۔ جبکہ خلافت عثمانیہ پر امت کے علماء کا پانچ سو برس سے اجماع چلا آرہا ہے اس لیے وہ شرعی خلافت ہے اور اس کے خلاف بغاوت جائز نہیں ہے۔

جبکہ اہل حدیث علماء نے آل سعود کی حمایت ضروری سمجھی کیونکہ آل سعود نے نجد کے مصلح عالم اور داعی الشیخ محمد بن عبد الوہابؒ کی حمایت حاصل کر لی تھی جنہوں نے شرکت و بدعت اور جاہلی رسوم کے خلاف جدوجہد اور توحید کے پرچار میں امتیاز حاصل کر لیا تھا اور اہل حدیث حضرات اس حوالہ سے خود کو ان کے بہت زیادہ قریب سمجھتے تھے۔ راقم الحروف نے اپنے ایک مضمون میں اس سے پہلے ذکر کیا ہے کہ خلافت عثمانیہ کے خلاف برطانوی حکومت کے ساتھ آل سعود کے مراسم پر الشیخ محمد بن عبد الوہابؒ خوش نہیں تھے اور ان کی زندگی کے آخری دور کے بارے میں جو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ عبادت کے لیے اجتماعی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہو کر خانہ نشین ہوگئے تھے، یہ بات درست نہیں ہے۔ بلکہ اصل قصہ یہ ہے کہ خلافت عثمانیہ کے خلاف اس وقت کے آل سعود کی برطانوی حکومت کے ساتھ ساز باز پر شیخ موصوف ناراض ہوگئے تھے اور اصلاح احوال کا کوئی چارہ نہ پا کر خانہ نشین ہوگئے تھے۔ مگر ان کی وفات کے بعد آل سعود کے لیے کوئی مؤثر رکاوٹ باقی نہ رہی اور ہمارے اہل حدیث حضرات توحید کے پرچار اور چند قبے گرانے کی خوشی میں آج تک آل سعود کے ساتھ وفادارانہ تعلق کے اظہار کو اپنے لیے باعث فخر سمجھ رہے ہیں۔

برصغیر کے ان تین مکاتب فکر کی طرف سے سعودی عرب کے تین الگ الگ گروپوں کے ساتھ وابستگی اور حمایت کا یہ اظہار آج بھی جاری ہے۔ اہل حدیث حضرات بدستور آل سعود اور ان کے ہمنوا سلفی علماء کا ساتھ دے رہے ہیں اور بریلوی حضرات کی طرف سے ان حجازی علماء کے ساتھ روابط کو مستحکم کرنے کے لیے کام جاری ہے جو نجدی علماء کے ساتھ بہت سے امور میں متفق نہیں ہیں۔ ان حجازی علماء کی قیادت الشیخ محمد بن علوی مالکی کر رہے ہیں جو مکہ مکرمہ کے بڑے علماء میں سے ہیں۔ وہ نجدی علماء کے تصورات کے برعکس تصوف و احسان کا علمی ذوق رکھتے ہیں اور نجدی علماء کے ساتھ جن مسائل پر ان کے مباحثے ہوتے رہتے ہیں ان میں مولود شریف کے علاوہ یہ مسئلہ بھی شامل ہے کہ لیلۃ القدر کو زیادہ فضیلت حاصل ہے یا آنحضرتؐ کی ولادت باسعادت والی رات زیادہ افضل ہے۔ اسی وجہ سے شیخ علوی مالکی کے ساتھ بریلوی اکابر کے روابط میں اضافہ ہو رہا ہے۔

جبکہ سعودی عرب کے وہ علماء اور دانشور جو ان مباحث سے صرف نظر کرتے ہوئے اجتماعی نظام کی اصلاح، خلیج عرب سے امریکی افواج کی واپسی، تیل کے چشموں پر عرب ممالک کے کنٹرول کی بحالی، اور خلیجی ممالک میں مکمل اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے سرگرم ہیں اور مسلسل صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں، مثلاً الشیخ اسامہ بن لادن، ڈاکٹر سفر الحوالی، الشیخ علی بن عبد الرحمان الحذیفی، ڈاکٹر سلمان عودہ، اور ڈاکٹر محمد المسعری جیسے مجاہدین تو ان کی حمایت میں بریلوی اور اہل حدیث دونوں مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام کو ابھی تک تامل ہے۔ ان کے حق میں اگر کسی حلقہ سے آواز اٹھتی ہے تو وہ دیوبندی علماء کرام کا حلقہ ہے جو ان علماء کرام کے سلفی اور نجدی ہونے کے باوجود سب اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے ان کی جدوجہد کی مسلسل حمایت کر رہا ہے۔ اور یہ ان علماء اور دانشوروں پر کوئی احسان نہیں ہے بلکہ یہ حق کی حمایت ہے جو ہر دور میں اکابر علماء دیوبند کا وطیرہ رہی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter