امریکہ نے بالآخر عراق پر حملہ کر دیا اور امریکی افواج نے عراق کے مختلف مراکز کو نشانہ بناتے ہوئے جنگ کا آغاز کر دیا ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک نے امریکہ کے اس اقدام کی مخالفت کی، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اکثریت کی حمایت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے امریکی گروپ کو اپنی قرارداد واپس لینا پڑی ہے، اسلامی سربراہ کانفرنس اور عرب لیگ نے عراق پر حملہ کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اقدام قرار دیا ہے، یورپی یونین نے بھی سلامتی کونسل کی منظوری کے بغیر عراق کے حملہ کو بلاجواز قرار دیا ہے` اور دنیا بھر کے سینکڑوں شہروں میں مجموعی طور پر کروڑوں کی تعداد میں عوام نے سڑکوں پر مارچ کر کے اس حملہ کی مذمت کی، لیکن اس کے باوجود امریکہ اور برطانیہ نے یہ حملہ کر دیا ہے۔
امریکی اتحاد نے پہلے یہ الٹی میٹم دیا کہ عراق کے صدر صدام حسین اڑتالیس گھنٹے کے اندر ملک چھوڑ دیں، لیکن بعد میں وائٹ ہاؤس کے ترجمان نے اس تکلف سے بھی یہ کہہ کر پردہ اٹھا دیا کہ صدام حسین اور ان کے بیٹے عراق سے جلاوطن ہو گئے تو بھی یہ حملہ نہیں رکے گا۔
امریکی اتحاد نے اس دوران کئی پینترے بدلے ہیں۔ پہلے یہ کہا جاتا رہا کہ عراق کے پاس مہلک ہتھیار ہیں، جن پر اقوام متحدہ نے پابندی لگا رکھی ہے، اس کی وجہ سے خطہ کے دیگر ممالک کو خطرہ ہے۔ لیکن اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی ٹیم نے عراق کا دورہ کر کے اور مشکوک مراکز کا معائنہ کر کے رپورٹ دی کہ عراق کے پاس ممنوعہ ہتھیاروں کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ البتہ ممنوعہ رینج کے کچھ ہتھیار ملے ہیں جنہیں اقوام متحدہ کی ٹیم کی رپورٹ پر عراق نے تلف کرنا شروع کر دیا۔ جس پر سفارتی حلقوں نے یہ کہہ کر اطمینان کا اظہار کیا کہ عراق کے مسئلہ کا سفارتی سطح پر حل ممکن نظر آنے لگا ہے، اس لیے ابھی طاقت کے استعمال کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن امریکہ اور اس کے حواریوں کے نزدیک یہ صورتحال تسلی بخش نہیں تھی، اس لیے کہ اقوام متحدہ اور عالمی برادری کے نزدیک عراق کے مسئلہ کی نوعیت اور تھی اور امریکی اتحاد کے ایجنڈے میں شامل عراق کا مسئلہ اس سے قطعی مختلف ہے۔
عالمی برادری عراق کے مسئلہ کو علاقائی صورتحال کے تناظر میں دیکھ رہی تھی کہ اب سے دس سال قبل عراق نے پڑوسی ملک کویت پر قبضہ کر لیا تھا۔ دیگر پڑوسی ممالک کو اس کے توسیع پسندانہ عزائم سے خطرہ لاحق ہو گیا تھا، جس کے بہانے امریکی اتحاد نے وہاں فوجیں اتاری تھیں اور پڑوسی ممالک کو تحفظ فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس پس منظر میں اقوام متحدہ نے عراق پر پابندی لگا دی تھی کہ وہ زیادہ تباہی پھیلانے والے ہتھیار نہیں بنا سکتا ہے اور نہ ہی رکھ سکتا ہے۔ امریکہ اس کے بعد مسلسل شور مچاتا رہا کہ عراق اقوام متحدہ کے اس فیصلے کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور اس کے پاس ممنوعہ ہتھیار موجود ہیں۔ مگر اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی ٹیم نے عراق کے تفصیلی دورے کے بعد اس کی تردید کر دی اور اس کی روشنی میں سلامتی کونسل عراق کے مسئلہ کے پرامن حل کی طرف پیشرفت کر رہی تھی کہ امریکہ بہادر نے ایک اور بات کہہ دی کہ عراق کو صدر صدام حسین کی حکومت سے نجات دلانا ضروری ہو گیا ہے اور عراقی عوام کے جمہوری حق کو بحال کرنا امریکی پروگرام میں اہم ہدف کی حیثیت رکھتا ہے۔
صدام حسین کم و بیش ربع صدی سے عراق پر حکمران ہیں اور وہاں عوام کے جن جمہوری حقوق کا امریکہ کو اب احساس ہوا ہے وہ اس سے بھی بہت پہلے معطل ہو چکے تھے جو مسلسل تعطل کا شکار ہیں۔ اور یہ حقوق صرف عراق میں ہی معطل نہیں، بلکہ خلیج عرب اور اس خطہ کے دیگر درجنوں ممالک میں بھی ایک عرصہ سے معطل چلے آ رہے ہیں۔ لیکن امریکہ اور اس کے مٹھی بھر حواریوں کے دل میں عراقی عوام کے جمہوری حقوق کا درد جاگا ہے اور وہ انہیں ایک ظالم اور ڈکٹیٹر حکمران سے نجات دلانے کے لیے جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہو کر عراق پر چڑھ دوڑے ہیں۔ امریکہ بہادر کو یہ بھی یاد نہیں رہا کہ یہ ظالم اور ڈکٹیٹر حکمران اس دور میں بھی عراق کا صدر تھا جب ایران عراق جنگ میں امریکہ اس کی سپورٹ کر رہا تھا` اور جن کردوں کی مظلومیت کا پرچم امریکہ نے اب بلند کیا ہے انہی کردوں کو یہ ظالم اور جابر حکمران کیمیاوی ہتھیاروں کا نشانہ بنا رہا تھا۔
لیکن دنیا جانتی ہے کہ امریکی حکمرانوں کا یہ دوسرا موقف بھی اصلی نہیں ہے اور صرف دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ہے، ورنہ اس خطہ کے جن ممالک کو امریکہ کی سرپرستی حاصل ہے اور جن کے تحفظ کے نام پر امریکہ عراق کو تباہ کرنے پر تل گیا ہے، ان میں بھی عوام کو اپنے حکمران چننے کا اختیار حاصل نہیں ہے، وہاں بھی بادشاہتیں اور آمریتیں مسلط ہیں اور وہاں کے شہری بھی انسانی اور جمہوری حقوق سے کوسوں دور ہیں۔
امریکہ کا اصل ایجنڈا اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی کہ مشرق وسطیٰ کے وسائل و ذخائر پر قبضہ کرنے اور اس خطہ میں مسلمانوں کی دینی اور تہذیبی بالادستی ختم کرنے کے لیے اب سے ایک صدی قبل جس ایجنڈے کا آغاز برطانیہ نے کیا تھا` یہ اسی مہم کا تیسرا راؤنڈ ہے۔ اس مہم کا آغاز خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کی سازشوں سے ہوا تھا اور مسلمانوں کی سیاسی مرکزیت کو ختم کرنے کے لیے برطانیہ نے خود ترکی کو اس طرح خلافت کے خلاف تیار کیا کہ بقول اقبال
خلافت عثمانیہ کا خاتمہ اور مشرق وسطیٰ کے جغرافیہ کی تبدیلی اس پروگرام کا پہلا راؤنڈ تھی جس کے تحت پرانے نقشے کو یکسر تبدیل کر کے درجنوں نئی ریاستوں کو وجود میں لایا گیا۔ اس کے بعد فلسطین میں یہودیوں کو دنیا کے مختلف کونوں سے لا کر آباد کرنا اور اسرائیلی ریاست کے قیام کی راہ ہموار کرنا اس پروگرام کا دوسرا راؤنڈ تھا جس پر پون صدی صرف ہو گئی۔ اسرائیل کا قیام، اس کی سرحدوں میں مرحلہ وار توسیع اور اس کے استحکام کے لیے امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں کا کردار سب پر واضح ہے۔ اسے اس خطہ کی واحد اور بالاتر عسکری قوت بنانے کے لیے اس پون صدی کے دوران کیا کچھ نہیں کیا گیا اور اب کیا کچھ نہیں کیا جا رہا، یہ اس ایجنڈے کا دوسرا راؤنڈ تھا۔
اور اب تیسرے راؤنڈ کے طور پر عراق پر قبضے کے لیے یہ فوج کشی کی گئی ہے جسے اسرائیلی وزیر دفاع جنرل موفاذ نے حال ہی میں یہ کہہ کر واضح کر دیا ہے کہ بغداد پر امریکہ کا قبضہ دراصل ہمارا قبضہ ہو گا اور چند روز کی بات ہے پورا عراق ہمارے کنٹرول میں ہو گا۔ جنرل موفاذ نے یہ بات بھی صاف طور پر کہہ دی ہے کہ خطہ کا جو ملک بھی اسرائیل کے عزائم میں حائل ہو گا اس کا یہی حشر ہو گا۔ اور اسرائیلی وزیر دفاع نے ماضی کا یہ حوالہ دینے میں بھی کوئی حرج نہیں سمجھا کہ خلافت عثمانیہ نے فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری میں رکاوٹ ڈالی تھی تو اسے ختم کر دیا گیا تھا، اور عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید مرحوم نے یہودیوں کو فلسطین میں زمین خریدنے کی اجازت دینے سے انکار کیا تھا تو اسے اقتدار سے محروم ہو کر باقی زندگی نظربندی کی حالت میں بسر کرنا پڑی تھی۔
اسرائیل نے اپنی سرحدوں میں توسیع کے حوالے سے ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کا جو نقشہ شائع کر رکھا ہے اس میں عراق شامل ہے۔ اور صرف عراق نہیں بلکہ مصر، شام، سوڈان اور سعودی عرب کے بڑے حصے جن میں مدینہ منورہ بھی ہے ’’عظیم تر اسرائیل‘‘ کا حصہ دکھائے گئے ہیں۔ اس نقشہ کو سامنے رکھتے ہوئے عراق پر امریکی حملہ کے موقع پر اسرائیلی وزیر دفاع جنرل موفاذ کا مذکورہ بالا بیان پڑھا جائے تو عراق کے خلاف امریکی جارحیت کے اصل مقاصد و اہداف کو سمجھنے میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہ جاتی کہ امریکہ اور برطانیہ مشرق وسطیٰ کے وسائل و ذخائر پر قبضہ اور اس خطہ کا سیاسی کنٹرول حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں بالخصوص دینی قوتوں کو کسی بھی قسم کے اجتماعی کردار کی صلاحیت سے محروم کر دینا چاہتے ہیں، اور اسرائیل کو پورے علاقہ کا تھانیدار بنا کر اس کی اجارہ داری کو مستحکم کر دینے کے درپے ہیں۔ باقی سب بہانے اور عالمی رائے عامہ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش ہے۔ نہ ممنوعہ ہتھیاروں کی کوئی بات ہے، نہ عراقی عوام کے جمہوری حقوق کا کوئی مسئلہ ہے، اور نہ ہی جبر و آمریت سے لوگوں کو نجات دلانے کا کوئی سوال ہے۔
بعض دوستوں کو اس میں برطانیہ کا کردار سمجھ میں نہیں آ رہا، لیکن یہ اس مسئلہ کے پس منظر اور تاریخی تناظر سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے ہے، ورنہ اس منصوبہ کا اصل خالق ہی برطانیہ ہے۔ اور اگر دو عظیم جنگوں کے نتیجہ میں برطانیہ کے قویٰ مضمحل نہ ہو چکے ہوتے تو اس سارے پروگرام کی قیادت اب بھی اسی کے ہاتھ میں ہوتی۔ لیکن دو عظیم جنگوں میں کامیابی حاصل کرنے کے باوجود برطانیہ کے دست و بازو میں اتنی طاقت نہیں رہی تھی کہ وہ سارے معاملات پر اپنی گرفت قائم رکھ سکتا۔ اس لیے تازہ دم امریکہ آگے آ گیا اور بوڑھے باپ کی جگہ جنگ کی کمان جوان بیٹے نے سنبھال لی، ورنہ جنگ وہی ہے، اہداف وہی ہیں، ایجنڈا وہی ہے اور منصوبہ بندی بھی وہی ہے۔
اب سوال صرف یہ ہے کہ عالم اسلام جو مسلسل اس جنگ کا ہدف ہے اور امریکی جارحیت کا براہ راست نشانہ ہے، اسے ہوش کب آئے گا؟ وہ کب تک استعمار کی ان خرمستیوں کو برداشت کرتا رہے گا؟ اور اسے ایسی لیڈر شپ کب نصیب ہو گی جو دوست اور دشمن کی پہچان کرتے ہوئے اپنے گھر کو ڈاکوؤں اور لٹیروں سے محفوظ کرنے کے لیے تدبر، حوصلہ اور جرأت کے ساتھ کوئی مؤثر منصوبہ بندی کر سکے؟