(۱۵ و ۱۶ اکتوبر ۲۰۰۹ء کو چناب نگر میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام امیر مرکزیہ حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب دامت برکاتہم کی زیر صدارت منعقد ہونے والی دو روزہ سالانہ ختم نبوت کانفرنس سے خطاب۔ ادارہ نصرۃ العلوم)
بعد الحمد و الصلاۃ۔ میرے لیے یہ سعادت کی بات ہے کہ تحفظ عقیدۂ ختم نبوت کے مقدس مقصد کے لیے منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں شریک ہوں، اور اس سے زیادہ خوشی کی بات ہے کہ تحریک ختم نبوت کے قافلہ سالار حضرت مولانا خواجہ خان محمد دامت برکاتہم کو کئی برسوں کے بعد اس سٹیج پر دیکھ رہا ہوں اور ان کی زیارت کر رہا ہوں، وہ ہمارے بزرگ ہیں، مخدوم ہیں، اور اس محاذ پر ہمارے قائد ہیں، ایک عرصہ سے صاحب فراش ہیں، اللہ تعالٰی انہیں صحت کاملہ و عاجلہ سے نوازیں اور صحت و عافیت کے ساتھ ان کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر سلامت رکھیں، آمین یا رب العالمین۔
میں آج آپ حضرات کی وساطت سے جناب الطاف حسین (قائد ایم کیو ایم) اور جناب سلمان تاثیر (گورنر پنجاب) سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے گزشتہ دنوں (۱) تحفظ ناموس رسالتؐ کے قانون، (۲) قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے، (۳) اور اسلام کے نام پر انہیں اپنے مذہب کی تبلیغ سے روکنے کے قوانین پر اعتراض کیا ہے اور ان قوانین کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ میری معلومات کے مطابق تحفظ ناموس رسالتؐ اور امتناع قادیانیت کے قوانین کے بارے میں اس وقت عالمی سطح پر لابنگ ہو رہی ہے اور بین الاقوامی لابیاں حدود آرڈیننس کی طرح ان دو قوانین کو ختم کرانے کے لیے بھی پوری طرح متحرک ہیں۔ پارلیمنٹ کی قائم کردہ خصوصی کمیٹی اس وقت ملک کے دستور کا عمومی جائزہ لے رہی ہے، اس پر شق وار غور کیا جا رہا ہے، اور ترامیم تجویز کی جا رہی ہیں۔ گویا پورے دستور کی ’’اوورہالنگ‘‘ ہونے جا رہی ہے کیونکہ مختلف حلقوں کی طرف سے دستور میں متعدد ترامیم تجویز کی گئی ہیں، جن میں تحفظ ختم نبوت اور تحفظ ناموس رسالتؐ کے قوانین کے ساتھ ساتھ قراردادمقاصد کو دستور کا حصہ بنانے والی دفعہ اور دیگر اسلامی دفعات بھی شامل ہیں، جبکہ سیکولر حلقوں کی مسلسل کوشش ہے کہ اسلامی دفعات کو دستور سے نکال دیا جائے یا کم از کم غیر مؤثر بنا دیا جائے۔ میں ان میں سے دو مسئلوں یعنی تحفظ ناموس رسالتؐ اور تحفظ عقیدۂ ختم نبوت کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔ ان قوانین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ انسانی حقوق کے منافی ہیں، امتیازی قوانین ہیں، ان کا استعمال غلط ہو رہا ہے اور ان قوانین کو باہمی دشمنیوں اور انتقامی کاروائیوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، اس لیے ان قوانین کو ختم کیا جانا چاہیے۔ اور ہمارے دو اہم سیاسی، راہنماؤں جناب الطاف حسین اور جناب سلمان تاثیر نے بھی اسی قسم کی باتیں کہی ہیں۔
جہاں تک انسانی حقوق کا تعلق ہے میں آج تک نہیں سمجھ پایا کہ جناب نبی اکرمؐ یا دیگر انبیاء کرام علیہم السلام یا قرآن کریم یا مذہبی شعائر کی توہین کو جرم قرار دینے اور اس پر سزا مقرر کرنے کا انسانی حقوق کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ کے رسولؐ، قرآن کریم یا مذہب کی توہین اب حقوق میں شامل ہو گئی ہے؟ کل تک تو یہ جرائم میں شمار ہوتی تھی، اب بھی کسی عام شخص کی توہین کو جرم سمجھا جاتا ہے، ملک کے کسی بھی شہری کی توہین قانوناً جرم ہے، ہر شخص کو اپنی توہین پر عدالت سے رجوع کا حق حاصل ہے اور قانون اسے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ ایک عام شہری کی توہین تو قانوناً جرم ہے، کیا نعوذ باللہ جناب نبی اکرمؐ کی توہین جرم نہیں ہے؟ اور اگر ایک عام شہری کی بلاوجہ توہین پر سزا دی جا سکتی ہے تو جناب نبی اکرمؐ کی توہین پر سزا کیوں نہیں دی جا سکتی؟ دنیا کے ہر ملک کی طرح ہمارے ملک میں ایک قانون موجود ہے جسے ’’ازالۂ حیثیت عرفی‘‘ کا قانون کہتے ہیں۔ میں اس معاشرے میں رہتا ہوں میں ایک عرفی حیثیت اور اس سوسائٹی میں میرا ایک سٹیٹس ہے جس کے تحفظ کا مجھے قانوناً حق حاصل ہے۔ کوئی شخص اگر میری اس عرفی حیثیت اور اسٹیٹس کو مجروح کرتا ہے تو مجھے حق ہے کہ میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاؤں اور قانون اس بات کے لیے مجھے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ میں تحفظ ناموس رسالتؐ کے قانون کو انسانی حقوق کے منافی قرار دینے والوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ کی حیثیتِ عرفی تو ہے، میری بھی ایک حیثیتِ عرفی ہے جسے مجروح کرنے کا کسی کو کوئی حق حاصل نہیں ہے، تو کیا نعوذ باللہ جناب نبی اکرمؐ کی کوئی حیثیت عرفی نہیں ہے جسے مجروح کرنا جرم ہو اور اس پر سزا دی جا سکے؟
آج کوئی شخص کسی پولیس مین کی وردی کی توہین کرے یا اس کے کندھے پر لگے ہوئے سٹار کی توہین کرے تو یہ جرم ہے، کسی فوجی کی وردی کی توہین جرم ہے اور اس کے سٹار کی توہین جرم ہے، قومی پرچم کی توہین جرم ہے، قائد اعظمؒ کی توہین جرم ہے، قومی علامتوں کی توہین جرم ہے اور ان پر باقاعدہ سزائیں مقرر ہیں، تو کیا قرآن کریم، جناب نبی اکرمؐ کی ذات گرامی اور اسلام کے مذہبی شعائر کی توہین نعوذ باللہ جرم نہیں ہے؟ اور ان پر کسی کو سزا دینا امتیازی قانون اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کیسے قرار پا جاتا ہے؟ میں اہل دانش کو سنجیدگی کے ساتھ اس بات پر غور کی دعوت دیتا ہوں۔
ان قوانین کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ان کا عام طور پر غلط استعمال ہوتا ہے اور ان قوانین کو مختلف گروہ اور طبقات ایک دوسرے کو ذلیل کرنے اور انتقام لینے کے لیے استعمال کرتے ہیں، جبکہ توہین رسالتؐ کی سزا موت ہے اور یہ سخت ترین سزا ہے اس لیے اسے ختم ہونا چاہیے۔ میں ان دوستوں سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا کسی قانون کا غلط استعمال اس کو ختم کرنے کی دلیل بن جاتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو پاکستان میں کوئی قانون باقی نہیں رہنا چاہیے اس لیے کہ ہمارے ہاں کم و بیش ہر قانون کا غلط استعمال ہوتا ہے، یہ ہمارا غلط معاشرتی رویہ ہے جس کی اصلاح کے لیے معاشرتی اصلاح کی تحریک کی ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں قتل کے جرم کی سزا بھی موت ہے اور اس کے لیے دفعہ ۲۰۳ کا قانون نافذ ہے، میرا سوال یہ ہے کہ کیا ملک بھر میں موت کی سنگین سزا والے اس قانون کا غلط استعمال نہیں ہوتا؟ اس دفعہ کے تحت ملک بھر کے قانون میں درج مقدمات کا جائزہ لیا جائے تو اس کی صورتحال بھی یہ ہے کہ لوگ اسے انتقامی کاروائیوں کے لیے استعمال کرتے ہیں، اس میں غلط نام لکھوائے جاتے ہیں، مخالفین کو خواہ مخواہ اس میں پھنسا دیا جاتا ہے اور محتاط اندازے کے مطابق اس دفعہ کا پچاس فی صد بھی صحیح استعمال نہیں ہو رہا، تو موت کی سنگین سزا اور قانون کے غلط استعمال کا بہانہ بنا کر اس قانون کو ختم کر دیا جائے گا؟
میرا ان دوستوں سے سوال یہ ہے کہ پاکستان کے کون سے قانون کا غلط استعمال نہیں ہو رہا؟ اور قانون تو قانون ہے کیا دستور کا غلط استعمال نہیں ہو رہا؟ غریب دستور کا حال تو یہ ہے کہ جس طاقتور کا جی چاہتا ہے اس کی ناک اور کان مروڑ دیتا ہے تو کیا پاکستان سے دستور اور تمام قوانین کی چھٹی کرا دی جائے گی؟
قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے اور اسلام کے نام پر جھوٹے مذہب کی اشاعت سے روکنے کے قوانین کے بارے میں عام طور پر دو مغالطے پائے جاتے ہیں اور میرا خیال ہے کہ الطاف حسین صاحب بھی انہی دو مغالطوں کا شکار ہیں۔ (۱) ایک یہ کہ قادیانی مسئلہ بھی مسلمانوں کے باہمی اختلافات کی طرح کوئی فرقہ وارانہ مسئلہ ہے، (۲) اور دوسرا یہ کہ چلو وہ کافر ہی سہی مگر ان کے شہری حقوق تو ہیں اور مذہبی حقوق تو ہیں، انہیں ان حقوق سے کیوں محروم رکھا جا رہا ہے؟ میں ان دونوں مغالطوں کے بارے میں بات کرنا چاہتا ہوں۔
- پہلی بات یہ کہ قادیانیوں کا مسئلہ مسلمانوں کے باہمی فرقوں کے اختلافات کی طرح کا نہیں ہے، مسلمانوں کے باہمی اختلافات بہت ہیں، مگر ان میں سے کوئی فرقہ کسی نئی وحی کی بات نہیں کرتا، کسی نئے نبی کی بات نہیں کرتا، اور کسی بھی مسئلہ میں اپنی آخری دلیل قرآن کریم سے اور جناب نبی اکرمؐ کے ارشادات سے پیش کرتا ہے۔ جبکہ قادیانی گروہ نئی وحی کا قائل ہے اور نئے نبی کی بات کرتا ہے، ان کے نزدیک کسی بھی مسئلہ میں آخری دلیل اور اتھارٹی مرزا غلام احمد قادیانی ہیں۔ اور یہ مذاہب کا طے شدہ اصول ہے کہ وحی بدل جائے، نبی بدل جائے اور دلیل کی حتمی اتھارٹی بدل جائے تو مذہب تبدیل ہو جاتا ہے، نئی وحی نئے اور نئی اتھارٹی کے ساتھ نیا مذہب وجود میں آتا ہے۔ اس لیے قادیانیوں کا مسئلہ فرقہ وارانہ نہیں ہے بلکہ الگ اور مستقل مذہب کا ہے، اور قادیانی گروہ مسلمانوں کا کوئی فرقہ نہیں ہے ایک الگ مذہب رکھتا ہے، اس لیے اس کے ساتھ ایک الگ مذہب کے طور پر ہی معاملات طے کیے جائیں گے۔
- دوسرا مغالطہ یہ ہے کہ چلو قادیانی کافر ہی سہی مگر ان کے مذہبی اور شہری حقوق سے کیوں انکار کیا جا رہا ہے؟ اور انہیں ان کے جائز حقوق کیوں نہیں دیے جا رہے؟ الطاف حسین نے اسی حوالہ سے قادیانیوں کو مظلوم قرار دیا ہے اور ان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ میری گزارش یہ ہے کہ یہ بہت بڑا مغالطہ اور دھوکہ ہے جس کا جال پوری دنیا میں قادیانیوں نے پھیلا رکھا ہے اور وہ عالمی سطح پر بھی دنیا کو یہی فریب دے رہے ہیں۔ جبکہ اصل مسئلہ حقوق کا نہیں بلکہ حقوق کے ٹائیٹل کا ہے، ہمیں اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر قادیانیوں کے شہری اور مذہبی حقوق سے کوئی انکار نہیں ہے، جب ہم ہندوؤں کے مذہبی حقوق سے انکار نہیں کرتے، عیسائیوں کے مذہبی حقوق پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے، اور سکھوں کی مذہبی سرگرمیوں پر ہم معترض نہیں ہوتے تو قادیانیوں کے جائز مذہبی حقوق سے ہم کیوں انکار کریں گے؟ ہمارے معاشرے میں عیسائی، ہندو، سکھ اور دوسرے مذاہب کے لوگ اپنی مذہبی سر گرمیاں دن رات جاری رکھے ہوئے ہیں اور بسا اوقات اپنی حدود سے تجاوز بھی کر جاتے ہیں مگر ہم نے کبھی مزاحمت نہیں کی۔
قادیانی بھی ان مذاہب کی طرح اپنی مذہبی سرگرمیاں جائز حدود میں کرنا چاہیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا لیکن قادیانی اس معروضی حقیقت کو تسلیم نہیں کر رہے کہ وہ مسلمانوں سے الگ ایک نئے مذہب کے پیروکار ہیں۔ وہ نہ دستور اور پارلیمنٹ کا فیصلہ مان رہے ہیں، نہ عدالت عظمٰی کے فیصلے کو تسلیم کر رہے ہیں، اور نہ ہی پوری دنیا کی امت مسلمہ کے اجماعی فیصلوں کو قبول کر رہے ہیں۔ اور وہ ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر حقوق طلب کرنے کی بجائے مسلم اکثریت والے حقوق کا تقاضہ کر رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ وہ مسلمان ہیں اور پاکستان کی باقی ساری آبادی کافر ہے اس لیے مسلمانوں والے حقوق انہیں الاٹ کر دیے جائیں۔ وہ مسلم اکثریت کے حقوق کے طلبگار ہیں جو کسی صورت میں ممکن نہیں ہے۔ آخر میں اپنے نام پر کسی اور کو کاروبار کا حق کیسے دے سکتا ہوں؟ کوئی شخص میرے نام پر کمیٹی بنائے، دوکان کھولے یا کوئی ادارہ قائم کرے تو میں کبھی اسے برداشت نہیں کروں گا، جب میں اپنے نام پر کسی اور کو کاروبار کرنے کا حق نہیں دیتا تو اپنے نام پر کسی کو نیا مذہب بنانے کی اجازت کیسے دے سکتا ہوں، یہ کل بھی ممکن نہیں تھا، آج بھی ممکن نہیں ہے اور قیامت تک ممکن نہیں ہو گا۔
الطاف حسین نوٹ کر لیں، سلمان تاثیر بھی اس حقیقت کو سمجھ لیں، اور قادیانی حضرات بھی اس معروضی حقیقت کا اچھی طرح ادراک کر لیں کہ اصل مسئلہ ان کے حقوق کا نہیں بلکہ حقوق کے ٹائیٹل کا ہے۔ ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر ان کے سارے جائز حقوق تسلیم ہیں اور ان کا مکمل احترام کیا جائے گا لیکن مسلمانوں کے نام پر اور اسلام کے ٹائیٹل کے ساتھ ہم ان کے کسی حق کو تسلیم نہیں کرتے اور ان کا یہ خواب کبھی پورا نہیں ہو گا کہ وہ مسلمان کہلا کر اس ملک میں حقوق حاصل کر سکیں۔ و آخر دعوانا ان الحمد للّٰہ رب العالمین۔