۲۶ دسمبر کو گوجرانوالہ کے ایک ہوٹل میں محکمہ بہبود آبادی پنجاب کے زیر اہتمام علماء کرام کا سیمینار ہوا، جس میں مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام نے شرکت کی۔ محکمہ بہبود آبادی کے صوبائی سیکرٹری جناب الطاف ایزد خان نے صدارت کی، ان کے ساتھ محکمہ کے صوبائی ڈائریکٹر جنرل قیصر سلیم صاحب مہمان خصوصی تھے اور ڈسٹرکٹ ویلفیئر آفیسر گوجرانوالہ جناب محمد شعیب اس سیمینار کے منتظم تھے۔ آبادی کے کنٹرول اور خاندان کی بہبود کے مختلف پہلوؤں پر سرکردہ علماء کرام نے خطاب کیا اور راقم الحروف نے بھی کچھ معروضات پیش کیں، جن کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ محکمہ بہبود آبادی کا شکر گزار ہوں کہ علماء کرام کی اس محفل میں حاضری اور کچھ سننے سنانے کا موقع فراہم کیا۔ ابھی مجھ سے پہلے محکمہ کے صوبائی سیکرٹری محترم الطاف ایزد خان نے، جو سیمینار کی صدارت کر رہے ہیں، بہت خوب باتیں کی ہیں اور خاصی معلوماتی گفتگو فرمائی ہے۔ میں ان میں سے دو باتوں کا بطورِ خاص تذکرہ کرنا چاہوں گا۔
- انہوں نے فرمایا ہے کہ اسلام صرف عقائد و عبادات اور اخلاقیات پر مشتمل نہیں ہے، بلکہ ایک مکمل نظام حیات ہے، جو زندگی کے ہر شعبہ اور معاملہ میں ہماری راہ نمائی کرتا ہے۔ ان کی یہ بات ایک واضح حقیقت کا درجہ رکھتی ہے، جس پر ہم سب کا ایمان ہے۔ لیکن آج کے دور میں چونکہ ہم سب عملی دنیا میں اس حقیقت کو نظر انداز کرتے جا رہے ہیں، اس لیے اس بات کو جس قدر بھی دہرایا جائے کم ہے اور جس جس فورم پر بھی دہرایا جائے، کم ہے۔
- میں ان کے ارشاد کی سو فیصد تائید کرتے ہوئے ان کی دوسری بات کا تذکرہ کرنا چاہوں گا، جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک فیملی پلاننگ اور بہودئ آبادی کے لیے کام کرنے والے محکموں اور علماء کرام کے درمیان رابطوں کا خلا رہا ہے اور انہیں ایک دوسرے کی بات کو سمجھنے کے مواقع کم ملتے رہے ہیں، جس کی طرف اب توجہ دی جا رہی ہے اور اس قسم کے مشترکہ مذاکروں کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔
میں اس بات پر تبصرہ کرنے سے قبل نفسِ مسئلہ کے بارے میں کچھ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ آج کا موضوعِ گفتگو ”خاندان کی بہود کے بارے میں رائے عامہ کو توجہ دلانے کے لیے علماء کرام کا کردار“ بتایا گیا ہے اور میرے سامنے علماء کرام ہی کی بڑی تعداد تشریف فرما ہے، اس لیے میں علماء کرام یعنی اپنی برادری سے کچھ باتیں کھل کر کہنا چاہتا ہوں۔
خاندان انسانی سوسائٹی کا بنیادی یونٹ ہے اور میری طالب علمانہ رائے میں سوسائٹی کی بنیاد افراد پر نہیں، بلکہ خاندانوں پر ہے اور انسانی سوسائٹی کا نقطہ آغاز بھی فرد کی بجائے خاندان ہے۔ اس لیے کہ اللہ رب العزت نے زمین پر سب سے پہلے ایک فرد کو ہیں، بلکہ جوڑے کو اتارا تھا، وہ جوڑا ایک فیملی تھا اور اسی سے زمین پر نسلِ انسانی کا آغاز ہوا تھا۔ اس بنیاد پر میں یہ عرض کر رہا ہوں کہ نسلِ انسانی کا نقطہ آغاز فرد نہیں، بلکہ ایک خاندان ہے اور انسانی سوسائٹی کا بنیادی یونٹ فیملی اور خاندان ہے۔ لیکن یہ خاندان آج مختلف حوالوں سے مشکلات اور مسائل کا شکار ہے، علماء کرام کو ان سب پر توجہ دینی چاہیے، فیملی پلاننگ اس کا صرف ایک پہلو ہے۔ میں یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ خاندان کی بہبود کے لیے ہمیں خاندان کے وسیع تناظر کو سامنے رکھنا ہو گا اور خاندان کو خاندان کے طور پر جن مسائل کا سامنا ہے ان کا حل تلاش کرنا ہو گا۔ ان میں سرِدست تین پہلوؤں کی طرف علماء کرام کو توجہ دلانا چاہوں گا۔
- ایک یہ کہ خاندان کا آج کے دور کا سب سے بڑا مسئلہ اس ادارے کی بقا اور خاندان کا تحفظ ہے، اس لیے کہ خاندان کا ادارہ مغربی دنیا میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے اور اس ٹوٹ پھوٹ نے اب ہماری طرف بھی رخ کر لیا ہے۔ آج مغرب کا دانش ور خاندانی نظام کے سبوتاژ ہونے پر سر پکڑے بیٹھا ہے اور خاندان کے ادارے کی بحالی کے راستے تلاش کر رہا ہے، حتیٰ کہ سابق برطانوی وزیر اعظم جان میجر کو ”بیک ٹو دی بیسکس“ کا نعرہ لگانا پڑا۔ علماء کرام کو میں یہ دعوت دوں گا کہ وہ خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ اور مسلم معاشرہ پر اس کی اس یلغار کی طرف توجہ دیں، جس نے ہماری سوسائٹی کا رخ کر رکھا ہے اور دھیرے دھیرے ہمارے خاندانی نظام کو بکھیرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ اس پر نظر رکھنا، اس کے اسباب تلاش کرنا اور اس کے نتائج و عواقب کا اندازہ کرتے ہوئے اس کی روک تھام کی راہیں تلاش کرنا ہماری یعنی علماء کرام کی ذمہ داری ہے، جس سے ہمیں بے پرواہی نہیں کرنی چاہیے۔
- دوسری بات یہ کہ ہمارے معاشرے میں خاندان کا اندرونی ماحول دینی حوالہ سے مسلسل کمزور پڑتا جا رہا ہے اور برکت و رحمت کے اسباب ہمارے ہاں بتدریج سمٹتے جا رہے ہیں۔ ہمیں ہر طرف اس شکایت کا سامنا ہے کہ گھروں میں برکت نہیں رہی، رحمت کا ماحول نہیں رہا، سکون نہیں رہا اور محبت و اعتماد کی فضا نہیں رہی، لیکن اس کے اسباب پر ہماری نظر نہیں ہے۔ ہم نے گھر بنا لینے کو ہی گھر بسا لینے کے لیے کافی سمجھ لیا ہے، حالانکہ گھر کا بننا اور چیز ہے اور گھر کا بسنا اس سے بالکل مختلف چیز ہے۔ گھر بنانے کے لیے زمین درکار ہے، بلڈنگ کی تعمیر ضروری ہے، پانی، بجلی، گیس وغیرہ کی سہولتوں کی ضرورت ہے، اور آرائش اور زیبائش کے اسباب ناگزیر ہیں، لیکن کیا اس سب کچھ سے گھر بس بھی جائے گا؟ نہیں، بلکہ گھر بنانے کے لیے ہمیں رحمت و برکت کی ضرورت ہو گی اور محبت و پیار کا ماحول درکار ہو گا۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جس گھر میں قرآن کریم کی تلاوت نہیں ہوتی وہ ویران گھر ہے۔ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ہے کہ گھر میں بھی نماز پڑھا کرو اور انہیں قبرستان نہ بناؤ۔ گویا جس گھر میں نماز کا ماحول نہیں ہے، وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق گھر نہیں، قبرستان ہے۔ اس لیے گھر بنا لینے کے بعد اسے بسانے کے لیے جس رحمت و برکت اور سکون و محبت کی ضرورت ہے وہ نماز سے ملے گی، قرآن کریم کے تذکرہ سے ملے گی، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکرِ خیر سے ملے گی، اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ملے گی اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف کی کثرت سے ملے گی۔
علماء کرام سے درخواست کروں گا کہ خاندان کے تحفظ کے بعد دوسرے نمبر پر ہماری ذمہ داری ہے کہ گھروں کے ماحول کو بابرکت بنانے کی طرف قوم کی راہ نمائی کی جائے اور ان کو بتایا جائے کہ گھر کے اندر سکون و اطمینان اور رحمت و برکت کا ماحول پیدا کرنے کے لیے ہمیں کیا کچھ کرنا ہے۔
- تیسرے نمبر پر میں اس موضوع کی طرف آتا ہوں، جس کا ایک عنوان یہ ہے کہ صحت مند بچے کو ترجیح دینی چاہیے اور بچے اور ماں کی صحت کو اولیت اور ترجیح ملنی چاہیے۔ مجھے اس سے اتفاق ہے اور بچے اور ماں کی صحت کے ہر تقاضے کی تکمیل کو میں ضروری سمجھتا ہوں۔ اس سلسلہ میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک ارشاد گرامی کی طرف علماء کرام کو توجہ دلانا چاہوں گا کہ ایک موقع پر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”غیلہ“ کی ممانعت فرما دی۔ ”غیلہ“ بچے کے دودھ پینے کی مدت کے دوران ماں باپ کے باہمی ملاپ کو کہتے ہیں۔ اس دور میں یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ ایسا کرنے سے دودھ پینے والے بچے کو نقصان ہوتا ہے، اس لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غیلہ سے منع فرما دیا اور وجہ یہ بیان کی کہ لوگ کہتے ہیں کہ اس سے بچے کو نقصان ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں بچے کی صحت کی خاطر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ماں باپ کو ملاپ کے جائز حق سے روک دیا تھا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کی صحت کا کس قدر خیال رکھا ہے۔
یہ الگ بات ہے کہ بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پابندی واپس لے لی اور فرمایا کہ لوگوں کا یہ کہنا غلط ثابت ہوا ہے کہ غیلہ سے بچے کو نقصان پہنچتا ہے، اس لیے میں یہ پابندی ختم کرتا ہوں۔ اس میں بھی ہمارے لیے سبق ہے کہ کسی مسئلہ پر لوگوں میں عام طور پر کوئی بات مشہور ہونے پر ہمارا کوئی ذہن بن جائے تو اس بات کے غلط ثابت ہونے پر اس ذہن اور رائے کو تبدیل کر لینا بھی ضروری ہوتا ہے اور یہی سنت نبویؐ ہے۔
مجھے ان مفتیان کرام کے ارشاد سے اتفاق ہے جو یہ کہتے ہیں کہ میاں بیوی راضی ہوں اور ماں اور بچے کی صحت کا تقاضہ ہو تو بچوں کی ولادت میں وقفہ کی صورت اختیار کی جا سکتی ہے اور اس کے لیے مانعِ حمل تدابیر اور دوائیں اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن خاندان کی بہبود صرف اسی ایک مسئلہ میں منحصر نہیں ہے، بلکہ خاندان کے وسیع تناظر میں اس کی بہبود کے تقاضوں کا تعین اور ان کی تکمیل کا اہتمام ضروری ہے۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچے کی تعلیم و تربیت کی اہمیت بطورِ خاص بیان فرمائی ہے اور تعلیم و تربیت صرف دنیوی ضروریات کے حوالہ سے نہیں بلکہ قبر، آخرت اور حشر کو سامنے رکھ کر وسیع تر تناظر میں تعلیم و تربیت کو ایک مسلمان بچے اور بچی کی ضرورت قرار دیا ہے۔ ایک حدیث نبویؐ کا مفہوم ہے کہ مسلمان جب پیدا ہوتا ہے تو اس کے کان میں سب سے پہلے کلمہ طیبہ پڑھا جائے اور جب وہ زندگی گزار کر دنیا سے رخصت ہونے لگے تو اس کے کان میں آخری کلام بھی کلمہ طیبہ ہونا چاہیے۔ اسی سے مسلمان کی تعلیم و تربیت کی ضروریات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس ماحول میں اور کن اہداف کے لیے مسلمان بچے کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ دلائی ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ بچے کی صحت کی طرف لوگوں کی راہ نمائی کرنا علمائے کرام کی ذمہ داری ہے، لیکن صرف جسمانی صحت نہیں، بلکہ روحانی صحت کی ضروریات کا لحاظ رکھنا بھی اس کے ساتھ ناگزیر ہے۔
ان گزارشات کے بعد میں سیمینار کے صدر محترم کے اس ارشاد کی طرف آتا ہوں جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ بہبود آبادی اور فیملی پلاننگ کے شعبہ میں کام کرنے والے اداروں اور علمائے کرام کے درمیان رابطہ کا خلا رہا ہے، جس کو اب کم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ میں بڑے ادب کے ساتھ ”رابطہ کے خلا“ کو انتہائی محتاط اصطلاح قرار دیتے ہوئے اسے اس صورت میں تبدیل کرنا چاہوں گا کہ ہمارے درمیان بہت سے باہمی تحفظات چلے آ رہے ہیں، جن کی وجہ سے ہمارے درمیان وہ قربت نہیں ہو رہی، جو اس کام کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے۔
صدر محترم نے فرمایا ہے کہ علمائے کرام کو صورت حال کا صحیح علم نہیں ہے، انہیں آبادی اور وسائل کے درمیان عدمِ توازن کی سنگینی سے واقفیت نہیں ہے، اس کے لیے انہوں نے بہت مفید اعداد و شمار پیش کیے ہیں۔ مجھے اس سے اتفاق ہے کہ ہم میں سے اکثر حضرات کو یہ معلومات پہلی بار ملی ہیں اور اس سلسلہ میں محترم کے تحفظات کافی حد تک درست ہیں، لیکن میری گزارش ہے کہ اس مسئلہ پر ہمارے تحفظات پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے۔ کیونکہ جب تک ہم دونوں فریق ایک دوسرے کے موقف کو نہیں سمجھیں گے اور ایک دوسرے کے تحفظات کا لحاظ نہیں کریں گے، بات آگے نہیں بڑھے گی۔ اگر آج ہم اکٹھے بیٹھے ہیں تو ایک دوسرے کی بات بھی ہمیں فراخدلی کے ساتھ سننی چاہیے۔ اس لیے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں آج کی اس محفل میں اپنے چند تحفظات کا اجمالی تذکرہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور توقع رکھتا ہوں کہ ہمارے تحفظات پر بھی توجہ دی جائے گی۔
- اس سلسلہ میں ہمارا پہلا تحفظ یہ ہے کہ اصلاح کا یہ ایجنڈا ہمارے داخلی تقاضوں کے دائرے میں ہونا چاہیے، بیرونی ایجنڈا ہمارے لیے کبھی قابلِ قبول نہیں ہوا اور نہ آئندہ قابلِ قبول ہو گا۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ داخلی ضروریات اور ملی تقاضوں کی بات ہو تو ہم اس کے حل کے لیے ”اجتہاد“ کی آخری حدود تک جانے کے لیے تیار ہیں اور شرعی اجتہاد کے جائز دائروں میں ہر محنت کے لیے حاضر ہیں، لیکن باہر سے آنے والا ایجنڈا ہمارے دل و دماغ تک رسائی حاصل نہیں کر سکتا۔ اس لیے جہاں بھی اس قسم کے کسی کام میں بیرونی دلچسپی اور مداخلت نظر آنے لگتی ہے، ہمارے ذہن کی سوئی وہیں رک جاتی ہے اور آگے بڑھنا ہمارے لیے ممکن نہیں رہتا۔
- دوسری گزارش یہ ہے کہ خاندان، آبادی اور سوسائٹی کے حوالہ سے ہمارا ”وژن“ دوسری دنیا کے ”وژن“ سے قطعی طور پر مختلف ہے۔ ہمیں دوسری قوموں پر قیاس نہ کیا جائے اور دوسری قوموں کے فارمولے ہم پر نہ آزمائے جائیں۔ بات متعلقہ تو نہیں ہے، لیکن مثال کے طور پر یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کچھ عرصہ قبل میں نے ایک ریسرچ رپورٹ پڑھی، جو اس موضوع پر تھی کہ مغربی دنیا میں سائیکالوجی پر بہت کام ہوتا ہے اور ماہرینِ نفسیات کی طرف رجوع کا عمومی رجحان پایا جاتا ہے، لیکن مسلم سوسائٹیوں میں اس کا تناسب بہت کم ہے، نہ ماہرینِ نفسیات کی بہتات ہے اور نہ ہی ان کی طرف رجوع کا کوئی عمومی رجحان موجود ہے۔ ایک ریسرچ اسکالر نے اس کا جائزہ لیتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مسلم سوسائٹیوں کو اس کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے، اس لیے کہ سائیکالوجسٹ کا سب سے اہم کام یہ ہوتا ہے کہ اس کے پاس آنے والے پریشان حال شخص کو جن مسائل نے پریشان کر رکھا ہے، ان سے اس کی توجہ ہٹائی جائے اور کسی دوسری طرف اس کی توجہ مبذول کرا کے اسے اس کی ٹینشن سے نجات دلائی جائے۔ جبکہ مسلم سوسائٹی میں ہر طرف مسجدیں موجود ہیں، خانقاہیں موجود ہیں اور ایسے مراکز موجود ہیں جن میں جانے والا اور ان میں کچھ وقت گزارنے والا مسلمان اپنی ذہنی الجھنوں کے ماحول سے کچھ دیر کے لیے نکل جاتا ہے، جس سے اسے سکون حاصل ہوتا ہے۔
یہ تو اس اسکالر کا تجزیہ ہے، جبکہ ہمارا ایمان یہ ہے کہ اس کے ساتھ مسجد کا بابرکت ماحول، قرآن کریم کی تلاوت، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ، ذکرِ الٰہی اور درود شریف کی برکات ایک مسلمان کی ذہنی الجھنوں کو کافی حد تک کم کر دیتی ہیں۔
اس لیے میری گزارش ہے کہ ہمارے خاندان کے مسائل کے حل کرنے کے لیے ہم پر دوسری قوموں کے فارمولے نہ آزمائے جائیں، وہ ہم پر فٹ نہیں بیٹھتے۔ ہمارا ملی مزاج دوسری قوموں سے بالکل مختلف ہے، جسے اقبالؒ نے یوں تعبیر کیا ہے کہ ؏
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی - اس کے ساتھ ایک تیسری بات عرض کرنا بھی شاید نامناسب نہ ہو کہ آبادی اور وسائل کے درمیان عدمِ توازن کی جس بات کا ذکر کیا جاتا ہے، بلاشبہ معروضی صورت حال یہی ہے۔ لیکن یہ پہلو ہماری نظروں سے اوجھل نہیں رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ جتنی مخلوق کو پیدا کرتے ہیں، اس کی ضرورت کا رزق بھی ساتھ ہی پیدا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ وسائلِ رزق میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ دنیا کے مختلف علاقوں میں بھوک اور قحط کی صورت حال رزق کی کمی کی وجہ سے نہیں، بلکہ درست مینجمنٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہے۔ اس لیے اگر ہم اس مسئلہ کی جڑ آبادی اور وسائل کے عدمِ توازن میں تلاش کرنے کی بجائے وسائل کی تقسیم کے نظام میں تلاش کریں تو اس مسئلہ کو زیادہ بہتر طریقہ سے حل کیا جا سکتا ہے۔
تفصیل کا موقع نہیں ہے، مگر میری طالب علمانہ رائے میں دنیا میں وسائل کی تقسیم کا نظام درست نہیں ہے اور تقسیم کے اس غلط نظام نے دنیا کے ایک بڑے حصے کو بھوک، افلاس اور غربت کا شکار بنا رکھا ہے۔ اگر آبادی کے تناسب کے ساتھ وسائل کی تقسیم کے نظام کو ہم آہنگ کیا جائے اور استحصالی نظام کو ختم کر کے آبادی کے ہر حصے کو وسائل سے استفادہ کے مواقع فراہم کیے جائیں تو میرے خیال میں یہ مسئلہ زیادہ بہتر انداز میں حل ہو سکتا ہے۔