جابر حکمرانوں کے دربار میں حق بات کہنا بڑے دل گردے کا کام ہے اور جان کو ہتھیلی پر رکھ کر بات کرنا پڑتی ہے۔ مگر بات کہنے کا سلیقہ ہو اور اس میں ذاتی مفاد یا حکمران کے ساتھ مخاصمت کا تاثر نہ ہو تو بڑے سے بڑے سخت دل حکمران کے دل پر بھی حق بات اثر کر جاتی ہے۔ اور حوصلہ و تدبر کے ساتھ کی جانے والی بات کبھی بے اثر نہیں رہتی۔ اس سلسلہ میں چند تاریخی واقعات قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔
حجاج بن یوسف کوفہ کا طاقتور ترین گورنر تھا اور اس کے ظلم و جبر اور قتل عام کے واقعات سے تاریخ بھری ہوئی ہے۔ اس کے دربار میں ایک معروف تابعی بزرگ حضرت یحییٰ بن یعمرؒ بھی موجود تھے۔ حجاج بن یوسف نے گفتگو کے دوران حضرت امام حسینؓ کا تذکرہ کیا اور کہا کہ انہیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذریت (اولاد) شمار کرنا درست نہیں ہے کیونکہ نسب ہمیشہ باپ کی طرف سے ہوتا ہے۔ اس پر اور تو کسی کو بولنے کا حوصلہ نہ ہوا مگر حضرت یحییٰ بن یعمرؒ خاموش نہ رہ سکے اور فرمایا کہ جناب والا! قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰؑ کو حضرت آدمؑ کی ذریت میں شمار کیا ہے حالانکہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔ اس لیے اگر ماں کی طرف سے رشتہ کے باعث وہ حضرت آدمؑ کی اولاد میں شمار ہوتے ہیں تو حضرت امام حسینؓ کو بھی جناب رسول اللہؐ کی اولاد میں شمار کرنا درست ہے۔ حجاج کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا اس لیے اسے خاموشی اختیار کرنا پڑی۔
حجاج بن یوسف بہت بڑا خطیب تھا مگر اعراب (زیر زبر) میں اکثر غلطی کر جایا کرتا تھا اور یہ بات لوگوں میں مشہور ہوگئی تھی۔ ایک روز اس نے اپنے دربار میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے پوچھ لیا کہ کیا میں اعراب میں غلطی کرتا ہوں؟ اس پر حضرت یحییٰ بن یعمرؒ نے ایک ذومعنی جملہ ارشاد فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے کہ
’’تم اکثر زیر کو زبر اور زبر کو زیر کر دیا کرتے ہو۔‘‘
اس کا ظاہری مطلب تو یہ ہے کہ تم الفاظ میں زیر زبر پڑھنے میں غلطی کر جاتے ہو۔ مگر اس میں حجاج پر ایک مخفی طنز بھی تھا کہ تم عزت کے مستحق لوگوں کو ذلیل کرتے ہو اور ذلیل لوگوں کو عزت دیتے ہو، اس پر حجاج خود بھی محظوظ ہوا۔
عباسی حکمران خلیفہ منصور نے موصل شہر کے لوگوں سے میثاق لے رکھا تھا کہ وہ اس سے بغاوت نہیں کریں گے۔ اور اگر انہوں نے بغاوت کی تو شہر والوں کا قتل اس پر مباح ہوگا۔ ایک موقع پر موصل والوں نے بغاوت کر دی، یہ وہ دور تھا جب حضرت امام ابوحنیفہؒ بھی بغداد میں آئے ہوئے تھے۔ خلیفہ منصور نے صلاح مشورہ کے لیے امام ابوحنیفہؒ اور ان کے ساتھ دیگر دو علماء کو طلب کیا اور ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا کہ کیا اس معاہدہ کی رو سے اہل موصل کا قتل عام میرے لیے شرعاً جائز ہے؟ دوسرے دو حضرات نے تو گول مول بات کی کہ جب موصل والوں نے خود لکھ کر دیا ہے تو گویا انہوں نے اپنے قتل کا اختیار خود آپ کو دے دیا ہے۔ مگر امام ابوحنیفہؒ نے صاف طور پر کہا کہ اگر انہوں نے لکھا ہے تو غلط لکھا ہے کیونکہ انہیں اپنے بارے میں کسی کو یہ اختیار دینے کا حق نہیں ہے۔ اور آپ نے معاہدہ کیا ہے تو بھی غلط ہے کیونکہ شریعت یہ اختیار آپ کو بھی نہیں دیتی۔ یوں امام صاحبؒ کی حق گوئی کی وجہ سے موصل کے شہریوں کی جانیں بچ گئیں۔
عباسی خلافت کے بانی سفاح کے چچا عبد اللہ بن علی کا دربار لگا ہوا تھا اور اپنے وقت کے ایک بڑے امام حضرت امام اوزاعیؒ بھی تشریف فرما تھے۔ عبد اللہ نے پوچھا کہ ہم نے بنو امیہ کا جو قتل عام کیا ہے اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ امام اوزاعیؒ نے پہلے تو بات کو ٹالنے کی کوشش کی مگر جب اس کا اصرار جاری رہا تو فرمایا کہ ان کا خون تم پر حرام تھا۔ اس لیے کہ آنحضرتؐ نے قتل کی صرف تین صورتیں جائز قرار دی ہیں۔ (۱) کسی شادی شدہ شخص نے زنا کا ارتکاب کیا ہو تو اسے سنگسار کر دیا جائے گا۔ (۲) کسی نے کسی کا ناحق قتل کیا ہو تو قصاص میں اسے قتل کیا جائے گا۔ (۳) کوئی مسلمان مرتد ہوگیا ہے تو سزا کے طور پر وہ قتل ہوگا۔ جبکہ بنو امیہ کے جن افراد کو تم نے قتل کیا ہے ان میں سے کسی نے ایسا کوئی جرم نہیں کیا تھا۔
عبد اللہ بن علی نے سوال کیا کہ کیا ہماری حکومت دینی نہیں ہے؟ امام اوزاعیؒ نے پوچھا وہ کیسے؟ عبد اللہ بن علی نے کہا کہ کیا رسول اللہؐ نے حضرت علیؓ کے حق میں خلافت کی وصیت نہیں کی تھی؟ امام اوزاعیؒ نے جواب دیا کہ اگر حضرت علیؓ کے حق میں رسول اکرمؐ کی وصیت موجود ہوتی تو جنگ صفین میں حضرت امیر معاویہؓ کے ساتھ فیصلہ کے لیے حضرت علیؓ کسی کو حکم نہ بناتے۔ اس جواب پر عبد اللہ بن علی ایسا بگڑا کہ اس نے امام اوزاعیؒ کو اپنے دربار سے نکل جانے کا حکم دے دیا۔
خلیفہ ہارون الرشید کو ایک دفعہ مسجد نبویؐ میں حضرت امام مالکؒ کی مجلس میں حدیث رسولؐ پڑھنے کا شوق ہوا تو وہ اپنے صاحبزادوں سمیت حاضر ہوا۔ امام مالکؒ کی مجلس عروج پر تھی۔ خلیفہ وقت نے گزارش کی کہ وہ آپ کی خدمت میں چند احادیث پڑھنا چاہتا ہے مگر دوسرے لوگوں کو تھوڑی دیر کے لیے یہاں سے اٹھا دیا جائے۔ امام مالکؒ نے جواب دیا کہ
’’اگر خواص کی خاطر عوام کو محروم کر دیا جائے گا تو پھر خود خواص کو بھی کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔‘‘
یہ کہہ کر امام مالکؒ نے معمول کے مطابق مجلس میں حدیث رسولؐ کی قرأت کرنے کے لیے شاگرد کو پڑھنے کا حکم دیا جس پر اس نے حسب معمول پڑھنا شروع کر دیا۔ خلیفہ وقت تھوڑی دیر خاموشی کے ساتھ احادیث سنتا رہا اور پھر اٹھ کر چلا گیا۔
عالم اسلام کے خلاف تاتاریوں کی یورش کے زمانہ میں مصر کے حکمران رکن الدین بیبرس نے جہاد کی تیاری کے لیے عام لوگوں پر ٹیکس لگانے کا ارادہ کیا اور شرعی سند حاصل کرنے کے لیے اس وقت کے بڑے عالم دین حضرت امام شریف الدین نوویؒ سے فتویٰ حاصل کرنا چاہا۔ امام نوویؒ نے فتویٰ دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ پہلے اپنے محلات میں بھرے ہوئے زر و جواہرات اور اپنی بیگمات اور کنیزوں کے زیورات جمع کر کے مصرف میں لاؤ۔ اس کے بعد اگر ضرورت باقی رہی تو مزید ٹیکس لگانے کا فتویٰ دے دوں گا۔ مگر جب تک یہ زر و جواہر اور زیورات تمہارے محلات میں موجود ہیں اس وقت تک غریب عوام پر کوئی نیا ٹیکس لگانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔ یہ جواب سن کر مصر کا حکمران سخت طیش میں آیا اور امام نوویؒ کو شہر بدر کر دیا۔ کچھ دنوں کے بعد اسے احساس ہوا تو شہر بدری کا حکم واپس لے لیا۔ مگر امام نوویؒ نے انکار کر دیا اور کہا کہ جب تک رکن الدین بیبرسی زندہ ہے میں شہر میں واپس نہیں آؤں گا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ اس کے صرف ایک ماہ بعد بیبرس کا انتقال ہوگیا اور امام نوویؒ شہر میں واپس آئے۔
تاتاریوں کی یورش کے دوران اس طرح کا ایک اور واقعہ بھی پیش آیا کہ اس وقت کے مصر کے ایک اور حکمران نجم الدین الملک الصالح نے تاتاریوں کے خلاف جہاد کی تیاری کے لیے مالداروں سے قرض لینے کا ارادہ کیا۔ مگر وقت کے شیخ الاسلام الشیخ عز الدین بن عبد السلامؒ نے اس کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور بادشاہ سے فرمایا کہ شاہی خاندان اور حکمران طبقہ کے بڑے بڑے لوگوں کے گھروں میں رکھی ہوئی دولت، ان کی بیگمات کے زیورات، اور زر و جواہر کو جمع کرو اور جہاد کی تیاری میں انہیں استعمال میں لاؤ۔ اس کے بعد بھی اگر ضرورت باقی رہی تو میں ملک کے تاجروں اور مالداروں سے قرضہ لینے کی اجازت دے دوں گا۔ اس کے بغیر میں اس کا فتویٰ جاری نہیں کر سکتا۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ رکن الدین بیبرس نے تو امام نوویؒ کے فتویٰ سے ناراض ہو کر انہیں شہر بدر کر دیا تھا مگر نجم الدین الملک الصالح نے شیخ الاسلام عز الدین عبد السلامؒ کے ارشاد پر عمل کیا اور شاہی خاندان اور دیگر حکمران خاندانوں کی بیگمات سے زیورات اور زر و جواہر حاصل کر کے جہاد کی تیاری کی جس کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے تاتاریوں کے مقابلہ میں الملک الصالح کو شاندار فتح عطا فرمائی اور اسے کسی سے ایک درہم بھی قرضہ لینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔