دیوبند کا سفر

   
تاریخ : 
۱۲ دسمبر ۲۰۱۳ء

جنوبی افریقہ جاتے ہوئے آخری وقت مجھے معلوم ہوگیا تھا کہ دیوبند اور دہلی میں ۱۳، ۱۴ اور ۱۵ دسمبر کو شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی قدس اللہ سرہ العزیز کے حوالہ سے کانفرنسیں منعقد ہو رہی ہیں جن میں شرکت کے لیے جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کا ایک بھرپور وفد جا رہا ہے، اور مولانا فضل الرحمن نے اس وفد میں میرا نام بھی شامل کر رکھا ہے۔ میں نے اس کرم فرمائی پر ان کا شکریہ ادا کیا، لیکن اس وقت میں ویزے کے لیے پاسپورٹ ان کے سپرد کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا، اس لیے واپسی پر قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور جنوبی افریقہ جانے والے علماء کرام کے وفد سے پہلے پاکستان واپس پہنچ گیا۔ مولانا فضل الرحمن نے بطور خاص میرے لیے دوبارہ کوشش فرمائی اور میرا ویزا بھی لگ گیا، بحمد اللہ تعالیٰ۔ چنانچہ آج بدھ کے روز جمعیۃ علماء اسلام پاکستان کے وفد کے ساتھ دہلی روانہ ہو رہا ہوں۔ ہفتہ کے لگ بھگ تو لگ ہی جائے گا اور کوشش کروں گا کہ اس سفر میں بھی حسب عادت قارئین کو ساتھ ساتھ رکھوں، ورنہ واپسی پر داستان سرائی کا شوق پورا کر لوں گا۔

دیوبند اس سے قبل صد سالہ اجلاس کے موقع پر جانے کی سعادت حاصل کر چکا ہوں۔ اس وقت حضرت مولانا مفتی محمود قدس اللہ سرہ العزیز کی قیادت میں علماء کرام اور دینی کارکنوں کا ایک قافلہ دیوبند گیا تھا، والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ تعالیٰ اور عم مکرم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید سواتی رحمہ اللہ تعالیٰ بھی قافلہ میں شامل تھے۔ گوجرانوالہ کے دیگر علماء کرام کے ہمراہ ہم تینوں کا قیام حضرت مولانا محمد سالم قاسمی مدظلہ کے مکان پر ہوا تھا اور اس موقع پر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمیؒ ، حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ ، حضرت مولانا سید احمد رضا بجنوریؒ ، حضرت مولانا سید اسعد مدنیؒ ، حضرت مولانا ازھر شاہ قیصرؒ اور کچھ دیگر بزرگوں کی زیارت کا شرف میسر آیا تھا۔

والد محترمؒ اور عم مکرمؒ نے مجھے ایک دن بطور خاص دیوبند کے مختلف علاقوں کی سیر کرائی اور اپنے طالب علمی کے دور کی یادیں تازہ کرتے رہے۔ اب دوبارہ عازم دیوبند ہوتے ہوئے یہ ساری یادیں ایک ایک کر کے ذہن میں تازہ ہو رہی ہیں۔ اس بات کو تین عشروں سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے مگر ابھی کل کی بات لگتی ہے۔ میں نے سفر دیوبند کی یادداشتیں ایک مجلس میں آڈیو ریکارڈ کرائی تھیں مگر وہ کیسٹ دوبارہ دستیاب نہ ہو سکی۔ ہمارے بزرگ تو قافلہ کے ساتھ واپس آگئے مگر میں کچھ دن کے لیے رک گیا۔ فیصل آباد کے مولانا محمد عابد نعیم ؒ اور میں دہلی میں دو روز اکٹھے رہے۔ اس کے بعد میں نے لدھیانہ کا رُخ کر لیا تھا، جوانی کا زمانہ تھا، خطرات و خدشات عام طور پر ارادوں میں حائل نہیں ہوا کرتے تھے، اس لیے بے تکلف لدھیانہ جا پہنچا۔ رئیس الاحرار حضرت مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ کے فرزندان گرامی حضرت مولانا محمد احمد لدھیانویؒ اور حضرت مولانا سعید الرحمن لدھیانویؒ کے ہاں دو تین دن قیام رہا اور ان کی میزبانی کا لطف اٹھایا۔

شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن دیوبندی قدس اللہ سرہ العزیز بچپن سے ہی میرے آئیڈیل شخصیت ہیں اور میں نے خود کو ہمیشہ ان کی فکری و سیاسی جدوجہد کا کارکن تصور کیا ہے۔ اس لیے دیوبند کے ساتھ ساتھ حضرت شیخ الہندؒ کی نسبت بھی اس سفر میں میرے لیے باعث کشش ہے۔ میں شعوری طور پر سمجھتا ہوں کہ آج کے دور میں نہ صرف عالم اسلام کی سطح پر بلکہ اقوام عالم کے ماحول میں بھی حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور حضرت شیخ الہندؒ کے فکر و فلسفہ اور طرز و اسلوب کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ اور مجھے امید ہے کہ دیوبند اور دہلی میں منعقد ہونے والی یہ کانفرنسیں اس کارِ خیر کو آگے بڑھانے میں سنگ میل ثابت ہوں گی۔ ان کانفرنسوں اور مختلف شہروں کے سفر کے حوالہ سے قارئین کو آگاہ رکھنے کی کوشش کرتا رہوں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ سرِ دست یہ عرض کر رہا ہوں کہ اس اچانک پروگرام کی وجہ سے ہفتہ دس دن (اگلے جمعہ تک) میں نے جن دوستوں سے مختلف پروگراموں کے لیے حاضری کا وعدہ کر رکھا ہے ان کے پاس حاضری نہ دے سکوں گا، اس کے لیے سب دوستوں سے معذرت خواہ ہوں۔

   
2016ء سے
Flag Counter