بعد الحمد والصلوٰۃ۔ یہاں کبھی کبھی حاضری ہوتی ہے اور میں اس نیت سے آتا ہوں کہ حضرت مولانا طارق جمیل صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے ساتھ نسبت تازہ ہو جاتی ہے، یہاں کے اساتذہ سے ملاقات اور طلبہ کی زیارت ہو جاتی ہے اور کچھ باتیں عرض کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔ اساتذہ کرام کی مہربانی ہے کہ وہ یاد کراتے رہتے ہیں کہ آنا ہے۔ کوئی متعین ایجنڈا نہیں ہے، کسی نہ کسی موضوع پر آج کے حالات کے تناظر میں معلومات مہیا کرنا، صورتحال سے آگاہ کرنا اور کچھ رہنمائی کرنا، جس کو آج کی زبان میں بریفنگ کہتے ہیں۔ کچھ موضوعات پر پہلے بات ہوئی ہے اور ان شاء اللہ کوشش کروں گا کہ اس سال بھی چار پانچ نشستوں میں کچھ موضوعات پر بات ہو جائے۔
آج میں نے حضرت سے پوچھا کہ موضوع متعین ہے یا فری اسٹائل ہے تو انہوں نے فرمایا کہ آپ کی مرضی پر ہے۔ تو ”انی لاجھز جیشی وانا فی الصلوٰۃ“ میرا معمول بھی ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سنت ہے، میں بھی نماز میں کچھ سوچتا رہتا ہوں، نماز بھی ہو جاتی ہے الحمد للہ اور کچھ بات بھی ذہن میں آ جاتی ہے۔ یہ میرا معمول ہے کہ جہاں کوئی بات ذہن میں نہ آ رہی ہو نماز میں ذہن کو متوجہ کرتا ہوں تو کوئی نہ کوئی بات ذہن میں آ جاتی ہے۔ نماز میں میرے ذہن میں خیال آیا کہ میں آج آپ سے ’’اجتہاد‘‘ کے موضوع پر بات کروں گا۔
یہ زمانہ اجتہاد کا زمانہ کہلاتا ہے۔ اجتہاد اصل میں کیا ہے، سمجھا کیا جا رہا ہے، اجتہاد کے بارے میں مختلف لوگوں کا نقطہ نظر کیا ہے، اجتہاد کا طریق کار کیا ہے، اور آج اجتہاد کن لوگوں میں پھنسا ہوا ہے؟ اس حوالے سے چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔
اجتہاد کا لفظی معنی کوشش کرنا ہے، اور ہمارے اپنے ماحول میں ہمیں سب سے پہلے اجتہاد کے حوالے سے بخاری شریف کی وہ روایت ملتی ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کے اسلامی ریاست میں شامل ہونے کے بعد یمن کا گورنر حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو مقرر کیا تھا۔ اس زمانے میں حاکم ایک ہی ہوتا تھا، وہی ایڈمنسٹریٹر ہوتا تھا، وہی قاضی ہوتا تھا، وہی کور کمانڈر ہوتا تھا۔ اب تو کور کمانڈر الگ ہوتا ہے، چیف جسٹس الگ ہوتا ہے، چیف ایڈمنسٹریٹر الگ ہوتا ہے، اور مالیات کا محکمہ الگ ہوتا ہے۔ اس زمانے میں سارے کام ایک ہی آدمی کرتا تھا جو ’’عامل‘‘ کہلاتا تھا۔ آج کی زبان میں گورنر کہہ لیں لیکن گورنر کا دائرہ اور ہے۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک حصے کا عامل حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو مقرر کیا اور دوسرے حصے کا گورنر حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا تھا۔ گورنر میں تکلفاً کہہ رہا ہوں۔ بہرحال عہدِ نبوی میں یمن دو حصوں میں تقسیم تھا جو کہ اب اکٹھا ہی ہے۔
جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو جب مقرر کیا تو ان سے انٹرویو لیا کہ ڈیوٹی پر بھیج رہا ہوں کیسے کام کرو گے؟ انٹرویو لینا بھی سنت ہے۔
فرمایا معاذ! تم بحیثیت حاکم جا رہے ہو، تمہارے سامنے معاملات اور مقدمات پیش ہوں گے، کوئی معاملہ، مقدمہ یا قضیہ پیش ہوا تو کیا کرو گے؟
انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! ’’اقضی بکتاب اللہ‘‘ دیکھوں گا کہ قرآن پاک کا حکم کیا ہے، اس کے مطابق فیصلہ کروں گا۔
لیکن قرآن پاک میں ساری باتیں اور ساری تفصیلات تو نہیں ہیں تو فرمایا ‘’فان لم تجد فی كتاب اللہ‘‘ کہ اگر قرآن پاک میں تمہیں وہ مسئلہ نہ ملا تو کیا کرو گے؟ عرض کیا یا رسول اللہ! ’’فبسنۃ رسول اللہ‘‘ آپ کی سنت کو دیکھوں گا، آپ کی کوئی بات یاد کروں گا کہ آپ نے کوئی ایسا فیصلہ کیا ہو تو اس کے مطابق فیصلہ کروں گا۔
لیکن ضروری نہیں کہ ہر بات سنت میں بھی مل جائے، اس لیے فرمایا ”فان لم تجد‘‘ اگر میری سنت میں بھی کوئی بات نہ ملی تو پھر کیا کرو گے؟ عرض کیا ’’اجتھد رايی ولا آلو‘‘ پھر میں اپنی رائے سے صحیح بات تک پہنچنے کی کوشش کروں گا۔
’’اجتھد برایی‘‘ کا معنی یہ نہیں کہ میں اپنی رائے چلاؤں گا، بلکہ یہ مطلب ہے کہ اپنی رائے سے صحیح بات تک پہنچنے کی کوشش کروں گا اور صحیح بات تک رسائی میں کوئی کوتاہی نہیں کروں گا۔
اس پر جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’الحمد للہ الذی وفق رسول رسول اللہ‘‘ یا اللہ! تیرا شکر ہے کہ میرے نمائندے کو اس بات کی توفیق عطا فرمائی ہے جس پر اللہ راضی ہے اور میں راضی ہوں۔
حضرت معاذ کے جملے ’’اجتھد برایی‘‘ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے توثیق فرما دی، اور اسی سے اجتہاد کا لفظ ہے۔ چنانچہ دلائل کے تین دائرے ہو گئے۔ ہمارے ہاں چار اصول گنے جاتے ہیں: (۱) کتاب اللہ (۲) سنت رسول اللہ (۳) اجماع یعنی کسی دور کے اجتہادات کا مجموعہ، اجتہادات میں سے کسی اجتہاد پر اتفاق، اور (۴) قیاس (۵) ہمارا احناف کا ایک پانچواں اصول استحسان بھی ہے۔ ہر ایک کے پاس پانچواں نمبر بھی ہے: شوافع کا اپنا ہے، مالکیہ کا اپنا ہے، ہمارا استحسان ہے۔ ہمارے یہ چار پانچ اصول ہیں جو اجتہاد کی بنیاد ہیں۔ ایک اجتہاد تو یہ ہے۔
حضرات خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کا معمول یہی تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ کوئی مسئلہ پیش آتا تھا تو سب سے پہلے کتاب اللہ میں دیکھتے تھے۔ جو قرآن مجید میں نہ ملتا تو سنت کو دیکھتے تھے، ان کو خود حضورؐ کی سنت یاد ہوتی تھی، یا پوچھا کرتے تھے کہ کسی کو حضورؐ کی کوئی سنت، کوئی ارشاد معلوم ہو۔ اگر معلوم ہو جاتی تو اس کے مطابق فیصلہ فرما دیتے۔ اگر کوئی سنت معلوم نہیں ہوتی تھی تو پھر اجتہاد کرتے تھے۔
اجتہاد کا معنی فقہاء نے یہ کیا ہے کہ قرآن و سنت کے اصول کی روشنی میں کوئی راستہ نکالنا۔ وہ اصول فقہاء نے بیان کیے ہیں۔ یہ اجتہاد جو آپ نے اصول الشاشی، نور الانوار اور حسامی میں پڑھا ہے، یہ شرعی اجتہاد ہے جو ہمارے ہاں ایک مستقل دلیل ہے، قانون کا ایک مستقل ماخذ ہے۔ میں اس اجتہاد کی تفصیلات میں نہیں جاؤں گا کہ یہ آپ کو معلوم ہے۔ میں نے صرف اشارہ کیا ہے کہ اجتہاد کا ایک دائرہ وہ ہے جو صحابہ کرامؓ سے ملا ہے، اور مجتہدین نے تو کام ہی یہی کیا ہے۔
تابعین اور اتباع تابعین کے دور میں جو بنیادی مجتہدین مطلق تھے ان کی تعداد بیس کے لگ بھگ ہے۔ ان میں حسن بصریؒ، امام نخعیؒ، امام اوزاعیؒ اور دیگر حضرات ہیں، لیکن آہستہ آہستہ امت میں تعامل کے ساتھ جن کو اہلِ سنت کے دائرے میں قبولیتِ عامہ حاصل ہوئی وہ چار ہیں (۱) احناف (۲) مالکیہ (۳) شوافع اور (۴) حنابلہ۔ لیکن ساتھ ظواہر بھی ہیں اس لیے میں ساڑھے چار کہتا ہوں۔ وہ دعویٰ نہیں کرتے، لیکن ہیں۔ ان کے اپنے اصول ہیں، اپنا اجتہاد ہے اور اپنے نتائج ہیں۔ اہلِ سنت میں جن کو قبولیت حاصل ہوئی اور جو آج مسلّمہ طور پر مروج ہیں وہ یہ پانچ فقہی دائرے ہیں۔
اہلِ سنت سے ہٹ کر دوسرے دائرے میں زیدی اور جعفری ہیں۔ ان دو کا تعلق شیعہ سے ہے۔ مجموعی امت کے مسلّمہ فقہی مکاتب یہ سات شمار ہوتے ہیں۔ اس اجتہاد کے بارے میں، میں نے صرف تعارفی بات کی ہے، تفصیلات آپ پڑھ رہے ہیں یا پڑھیں گے۔
میں اِس اجتہاد کا ہلکا سا مختصر تعارف کرا کے اُس اجتہاد کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جس کی بات آج کی جا رہی ہے۔ اور یہ بات میں آپ کے ذہن میں ڈالنا چاہوں گا کہ آج ہم سے جس اجتہاد کا تقاضہ کیا جا رہا ہے، وہ یہ والا اجتہاد نہیں ہے، اُس کا مفہوم، دائرہ کار، اس کا ہدف اور ہے۔ لفظ اجتہاد کا ہے لیکن پیچھے یہ اجتہاد نہیں ہے۔ وہ اجتہاد اور ہے اور اس کا بیک گراؤنڈ بھی اور ہے۔ اس کے پس منظر کی بنیادیں ہمیں ملتی ہیں، مثال کے طور پر بخاری شریف کی ایک روایت کا حوالہ دینا چاہوں گا۔
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ تعالیٰ عنہ عیسائیت سے مسلمان ہوئے تھے۔ عیسائی سرداروں میں سے تھے، ان کے والد حاتم طائی بھی عیسائی سردار تھے۔ ان کے بارے میں آتا ہے ’’تنصر‘‘ کہ عیسائی ہو گئے تھے۔ اور یہ بات درمیان میں عرض کر دوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کوئی آدمی حق قبول کرنا چاہتا تھا تو عیسائی مذہب قبول کرتا تھا۔ اس وقت کا رائج الوقت مذہب عیسائیت تھا۔ حاتم طائی نے اس دور میں عیسائیت قبول کی، انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ نہیں پایا۔ اس زمانے میں کسی کے عیسائی ہو جانے کا مطلب یہ ہے وہ اہلِ حق میں ہے۔ اس اصول کے مطابق حاتم طائی کا شمار اہلِ حق میں ہوگا۔ البتہ ان کا بیٹا عدیؓ بھی صحابی ہے اور بیٹی سفانہؓ بھی صحابیہ ہیں۔
حضرت عدیؓ نے ایک دن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن پاک کی ایک آیت کے بارے میں سوال کر دیا۔ سوالات ہوتے رہے ہیں، ہوتے رہتے ہیں، ہوتے رہیں گے۔ سوال گھبرانے کی بات نہیں ہے، جہاں بحث ہوگی تو سوال بھی ہو گا۔ قرآن پاک کے بارے میں بھی سوال ہوں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی ہوں گے۔ آپ سوال سے انکار نہیں کر سکتے۔ لوگ سوال پوچھتے تھے کہ یہ کیا ہے، اس کا مطلب سمجھ نہیں آیا۔
چنانچہ حضرت عدی بن حاتمؓ چونکہ عیسائیت سے مسلمان ہوئے تھے تو ایک دن پوچھنے لگے یا رسول اللہ! قرآن پاک نے ہمارے بارے میں کہا ہے ’’اتخذوا احبارھم و رھبانھم اربابا من دون اللہ والمسیح ابن مریم‘‘ (التوبہ ۳۱) کہ عیسائیوں نے اپنے علماء و مشائخ کو، مولویوں اور صوفیوں کو خدا بنا لیا تھا۔ مسیح ابن مریمؑ کو تو بنایا ہی تھا، احبار اور رہبان کو بھی ’’اربابا میں دون اللہ‘‘ بنا لیا تھا۔ یا رسول اللہ! ہم تو ایسا نہیں کرتے تھے، میں خود عیسائی تھا، سردار تھا، ہم تو اپنے احبار اور رہبان کو ’’اربابا من دون اللہ‘‘ نہیں کہتے تھے، تو قرآن نے ہمارے کھاتے میں یہ بات کیوں ڈال دی ہے؟
حضرت عدیؓ کے سوال پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ بتاؤ کہ تمہارے احبار اور رہبان کے پاس حلال کو حرام کرنے اور حرام کو حلال کرنے کی اتھارٹی تھی؟
عدیؓ کہنے لگے یا رسول اللہ! یہ اتھارٹی تو تھی، اب بھی کرتے ہیں۔
حضورؐ نے فرمایا یہی ’’اربابا من دون اللہ‘‘ ہے کہ تم نے حلال و حرام کی اتھارٹی اپنے علماء و مشائخ کو دے دی تھی۔
یہ اتھارٹی کیا ہے؟ اجتہاد ہی ہے۔ ایک دائرہ یہ ہے جس کی جناب نبی کریمؐ نے نشاندہی کی کہ حلال و حرام کی اتھارٹی انہوں نے اپنے علماء و مشائخ کو قرار دے دیا تھا۔ ہمارے ہاں صورتحال کیا ہے؟ بات سمجھانے کے لیے مختصراً عرض کروں گا، لیکن ذہن میں رہے کہ یہ منصوص حلال و حرام کی بات ہو رہی ہے۔ یہ فرق بھی ذہن میں رکھیں کہ ’’منصوص‘‘ حلال و حرام کا دائرہ اور ہے اور ’’مجتہد فیہ‘‘ حلال و حرام کا دائرہ اور ہے۔ اس کے بڑے لطائف بھی ہیں لیکن ابھی اس کا موقع نہیں آیا۔
منصوص حلال و حرام میں ردوبدل کی کسی کو اتھارٹی نہیں ہے۔ عیسائیت میں تو ان کے بقول احبار اور رہبان کو تھی۔ ہمارے ہاں یہ اتھارٹی اگر ہوتی تو کس کو ہوتی؟ یا اگر حلال و حرام میں ردوبدل کا کوئی اختیار ہوتا تو کس کو ہوتا؟ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اس کا اہل کوئی نہیں تھا کہ اللہ پاک آپؐ کو صوابدیدی اختیار دے دیتے۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لیے شہد کو حرام کہا تھا تو اللہ پاک نے کس لہجے میں بات کی ہے ’’لم تحرم ما احل اللہ لک تبتغی مرضات ازواجک واللہ غفور رحیم، قد فرض اللہ لکم تحلۃ ایمانکم‘‘ (التحریم ۱، ۲) ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور میں کرتا بھی نہیں ہوں کہ ’’تبتغی مرضات ازواجک‘‘ کا تو مجھ سے ترجمہ ہوتا ہی نہیں ہے۔ یہ اپنی ذات کے لیے کہا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے فرمایا نہیں جناب! یہ میرا کام ہے، یہ میری اتھارٹی ہے۔ ہمارے ہاں اگر اتھارٹی ہوتی بھی تو حضورؐ کو ہوتی، جب آپؐ کو نہیں ہے تو اور کس کو ہو گی؟
میں نے تصور بتایا ہے کہ اجتہادی معاملات کا اس دور میں تصور کیا تھا۔ اور آج بھی یہ اتھارٹی ہے، اب بھی پاپائے روم اور ان کی کونسل کو حلال و حرام کی فہرست میں ردوبدل کرنے کا اختیار ہے۔ اس پر ایک عملی مثال دوں گا۔
چرچ آف انگلینڈ جو انگلستان کا سب سے بڑا چرچ ہے، اتھارٹی ہے، بادشاہ اس کا سربراہ ہوتا ہے۔ چرچ آف انگلینڈ سرکاری ہے اور پورے برطانیہ کے چرچز کا نگران ہے اور پالیسی ساز ہے۔ آج سے کوئی بیس بائیس سال پہلے چرچ آف انگلینڈ نے ایک خط جاری کیا، میرے مطالعے میں بھی آیا، ہم نے شائع بھی کیا۔ اس میں انہوں نے پچھلے خط کا حوالہ دیا کہ آج سے اتنے سال پہلے، کوئی تیس سال پہلے ہم نے ایک سرکلر جاری کیا تھا کہ شادی کے بغیر لڑکے لڑکی کا اکٹھے رہنا گناہ ہے، اس کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
یہ ذہن میں رہے کہ مغرب میں یہ رواج ہو گیا ہے کہ میاں بیوی بننے کے لیے نکاح ضروری نہیں سمجھا جاتا، یہ تبرع ہے، کر لیا یا نہ کیا، مرضی ہے، یہ برکت سمجھی جاتی ہے۔ اس پر ایک لطیفہ یاد آگیا۔ میں نیویارک بہت دفعہ گیا ہوں۔ ایک دفعہ وہاں مکی مسجد میں ٹھہرا ہوا تھا۔ چار پانچ پاکستانی ایک لڑکے اور ایک لڑکی کو لے کر آ گئے۔ یہ بات اس لیے بھی یاد آ گئی کہ وہ لڑکا فیصل آبادی تھا، لڑکی اسپینش تھی اور مسلمان ہو گئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ان کا نکاح پڑھا دیں، تو میں نے نکاح پڑھا دیا۔ مٹھائی وغیرہ کھائی، جب سب معاملات ہو چکے تو وہ اللہ کا بندہ کہنے لگا مولوی صاحب! ہم رہتے تو پہلے بھی اکٹھے ہی تھے، یہ ساتھی کہتے تھے کہ دو کلمے بھی پڑھ لو، اس لیے آپ کے پاس آ گئے ہیں۔ میں نے کہا کاش یہ بات مجھے نہ ہی کہتا تو اچھا تھا۔ وہاں نکاح یہی ہے کہ دو کلمے بھی پڑھ لو۔
درمیان میں ایک بات عرض کر دوں کہ ہمارے ہاں کیس چلتے ہیں کہ لڑکی کسی کے ساتھ نکل جاتی ہے اور نکاح کر لیتے ہیں، عدالت میں نکاح نامہ پیش کر دیتے ہیں۔ ہائی کورٹ کے ایک جج صاحب نے فیصلہ لکھا کہ نکاح کر لیا ہے تو بس ٹھیک ہے۔ ہمارے ہاں آج کل یہی فیصلے ہو رہے ہیں۔
میں نے یہ فیصلہ پڑھا تو جج صاحب کو خط لکھا کہ جج صاحب! ٹھیک ہے نکاح ہو گیا، لیکن نکاح سے پہلے یہ جو دو مہینے اکٹھے رہے ہیں، اس کا آپ نے کیا فیصلہ کیا ہے؟ آپ کے ریکارڈ کے مطابق لڑکا لڑکی کو گھر سے بھگا کر لے گیا ہے، اور اس کے بعد دونوں ہوٹل میں دو مہینے اکٹھے رہے ہیں، اس کا آپ نے کوئی نوٹس لیا ہے یا وہ سب کچھ نکاح کے بعد جائز ہو گیا تھا؟ نکاح سے بعد کے معاملات جائز ہوں گے، پہلے کے تو جائز نہیں ہوئے۔ اس کا آپ نے کیا نوٹس لیا ہے؟ لیکن اس کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
بہرحال انگلینڈ میں یہ ہوتا ہے اور چرچ آف انگلینڈ نے کہا کہ ہم نے آپ کو لکھا تھا کہ نکاح کے بغیر مرد اور عورت کا اکٹھے رہنا گناہ ہے، اس کے حوصلہ شکنی کی جائے، لیکن اب چونکہ نکاح کے بغیر اکٹھے رہنے والوں کا تناسب پچپن فیصد سے بڑھ گیا ہے، اس لیے ہم پہلا سرکلر واپس لیتے ہیں، اب اس کو گناہ نہ کہا جائے۔ یعنی اب چونکہ اکثر لوگوں نے قبول کر لیا ہے تو اس کو گناہ نہ کہا جائے۔ یہ وہی حلال و حرام میں ردوبدل والی بات ہے۔
آج جو اجتہاد کی بات ہوتی ہے وہ دو پس منظر میں ہوتی ہے:
(۱) ایک پس منظر یہ ہے کہ مغربی دنیا میں عیسائیوں میں یہ بات چلی آرہی ہے کہ پادری صاحبان اگر کسی مسئلے پر ماضی سے ہٹ کر کوئی نیا فیصلہ کر لیتے ہیں تو ان کو اس کی اتھارٹی حاصل ہے، وہ کوئی نیا فیصلہ کر سکتے ہیں، غلط ہے یا صحیح، وہ الگ بات ہے، لیکن یہ ہوتا ہے۔
(۲) دوسرا پس منظر یہ ہے کہ ہمارے ہاں نئی نسل کے ذہن میں یہ بات ہے کہ علماء اجتہاد کر سکتے ہیں۔ اور آج کا تعلیم یافتہ طبقہ جو آپ سے اجتہاد کا تقاضا کرتا ہے وہ ’’اصول الشاشی‘‘ والے اجتہاد کا تقاضا نہیں کرتا، بلکہ وہ اس صوابدیدی اختیار والے اجتہاد کا تقاضا کرتا ہے کہ آپ کچھ کر سکتے ہیں مگر کرتے نہیں ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ ہے کہ علماء کرام مل کر ردوبدل کر سکتے ہیں۔ اس پر تین واقعاتی شہادتیں عرض کروں گا۔ میں آج کے اجتہاد کا مطلب آپ کو بتانا چاہ ہوں کہ آج کس کو اجتہاد کہا جا رہا ہے۔
آج سے بیس پچیس سال پہلے گستاخانِ رسول میں ایک بڑا نام تسلیمہ نسرین کا تھا، جو بنگلہ دیش کی ایک دانشور ہے، ابھی زندہ ہے، یورپی یونین کی تحویل میں ہے۔ اچھی لکھاری ہے۔ اس نے ایک کتاب لکھی تھی۔ اس نے لکھا کہ عالمی قوانین کے ساتھ اور بین الاقوامی ماحول کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے کے لیے ہمیں کوئی ردوبدل تو کرنا ہی پڑے گا۔
یہ میں آپ کو کسی اور موقع پر بتاؤں گا کہ کیا کیا ردوبدل کرنے کا تقاضا ہے۔ کریں گے نہیں، لیکن تقاضا یہی ہے۔ آج کی عالمی قوانین کے ساتھ ایڈجسٹ ہونے کے لیے اور آج کی برادری میں، آج کے جمہور میں شامل ہونے کے لیے کچھ تبدیلیاں کرنی پڑیں گی۔ ظاہر بات ہے کہ وہ تبدیلیاں قرآن پاک میں کرنی پڑیں گی، کچھ احادیث میں کرنی پڑیں گی۔
اس نے یہ نہیں کہا کہ یہ کرو، بلکہ اس نے تجویز پیش کی کہ میں علماء کرام کو مشورہ دیتی ہوں کہ باہمی مشاورت کے ساتھ صورتحال کا جائزہ لیں اور قرآن پاک اور سنت کے ان قوانین میں ردوبدل تجویز کریں، جن کا آج کے عالمی حالات تقاضا کر رہے ہیں۔ اس پر شور مچ گیا، اس کو علماء نے گستاخِ رسول قرار دیا۔ اور گستاخ تھی بھی، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ وہ گرفتار ہوئی، پھر رہا ہوئی، پھر یورپی یونین اس کو لے گئی اور آزادئ رائے کا ہیرو بنا دیا۔
آج اجتہاد کا تصور یہ ہے کہ علماء کرام قرآن و سنت کے قوانین میں ردوبدل کی اتھارٹی رکھتے ہیں لیکن ضدی لوگ ہیں، کرتے نہیں ہیں۔ آج کے اجتہاد کا مفہوم بتانے کے لیے دو شخصی واقعے عرض کروں گا۔ ہم دراصل خلط مبحث کا شکار ہو جاتے ہیں۔ آج کی دنیا جب اجتہاد کا تقاضا کرتی ہے تو وہ اس پس منظر میں اور آج کے تناظر میں یہ تقاضا کرتی ہے، جبکہ ہم وہ جواب دیتے ہیں جو ہم نے اصول الشاشی اور حسامی میں پڑھا ہوا ہے، تو فریکونسی سیٹ نہیں ہوتی اور بات بنتی نہیں ہے۔ ان کو کیا پتہ کہ ’’حسامی‘‘ کیا ہوتی ہے اور ’’نورالانوار‘‘ اور ’’توضیح تلویح‘‘ کیا ہے! ان کو تو یہ پتہ ہے کہ یہ ہو سکتا ہے، کرنا چاہیے، علماء کر سکتے ہیں، مگر کرتے نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک یہ اجتہاد ہے۔
میں برطانیہ بہت دفعہ گیا ہوں۔ ایک دفعہ ٹرین پر لندن سے مانچسٹر جا رہا تھا، میں جہاں بھی جاتا ہوں الحمد للہ میرا حلیہ یہی ہوتا ہے۔ میں اسی حلیے میں بہت دنیا گھوما ہوں۔ ایک نوجوان میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔ کہنے لگا آپ مولانا صاحب ہیں؟ میں نے کہا ہاں لوگ یہی کہتے ہیں۔ کہنے لگا آپ میرا ایک مسئلہ حل کریں گے؟ میں نے کہا بتاؤ۔ کہنے لگا آپ اجتہاد کر سکتے ہیں؟ میں نے کہا اجتہاد کو چھوڑو، مسئلہ بتاؤ کیا ہے، اگر سمجھ میں آیا تو بتا دوں گا۔ اس نے کہا میں الحمد للہ مسلمان ہوں، انڈیا کا ہوں۔ یہاں اتنے عرصہ سے رہ رہا ہوں، الحمد للہ پانچ نمازیں پڑھتا ہوں، لیکن ملازمت ایسی ہے کہ ظہر اور عصر کی ملازمت کے دوران اجازت نہیں ملتی، اس لیے ظہر اور عصر وقت پر نہیں پڑھ سکتا۔ تو میں نے اس کا ایک حل نکالا ہے کہ ظہر کی نماز فجر کے ساتھ پڑھ لیتا ہوں اور عصر کی نماز مغرب کے ساتھ پڑھتا ہوں، آپ اجازت دے دیں۔
آج اجتہاد کا تصور یہ ہے کہ گویا میں کوئی اتھارٹی ہوں، این او سی دے دوں گا تو کام ہو جائے گا۔ مجھے کہنے لگا کہ آپ اجازت دے دیں تو مجھے تسلی ہو جائے گی۔ میرا گفتگو کا انداز کیا ہوتا ہے، یہ تو آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا۔
میں نے کہا بیٹا! ففٹی ففٹی کروں گا، میری اتھارٹی چھوٹی ہے۔ جو تم عصر کی نماز مغرب کے ساتھ پڑھتے ہو، اس کی میں گنجائش دے سکتا ہوں کہ چلو مجبوری ہے، قضا ہو گی لیکن نماز تو ہو جائے گی۔ لیکن جو تم ظہر کی نماز فجر کے ساتھ پڑھتے ہو، اس کی اتھارٹی میرے پاس نہیں ہے، یہ میرے اختیارات میں شامل نہیں ہے۔
کہنے لگا پھر میں کیا کروں؟ میں نے کہا میرا مشورہ یہ ہے کہ اچھی ملازمت کی تلاش کی کوشش کرو جہاں نماز اپنے وقت پر پڑھ سکو، جب تک نہیں ملتی تو ظہر بھی مغرب کے ساتھ ہی پڑھ لیا کرو۔
یہ میں نے آج کے اجتہاد کا مفہوم بتایا ہے۔ میں انگریزوں کی بات نہیں کر رہا، ہماری اپنی نسل کے، مسلمانوں کے ذہن میں اجتہاد کا تصور یہ ہے کہ علماء کے پاس کوئی صوابدیدی اتھارٹی ہے، لیکن مولوی دھکا کرتے ہیں، استعمال نہیں کرتے۔
ایک واقعہ پاکستان کا ہے۔ پینتیس چالیس سال پہلے جب گرمیوں کو روزے تھے۔ اب گرمیوں سے پیچھے واپس آ رہے ہیں، پچھلے پیریڈ میں جب پینتیس سال پہلے جولائی اگست کے روزے تھے تو ایک صاحب نے روزنامہ نوائے وقت لاہور میں مضمون لکھا ’’علماء کرام سے درد مندانہ اپیل‘‘۔ اس میں لکھا کہ جولائی اور اگست کا روزہ بھٹی پر کام کرنے والے مزدور اور کھیت میں کدو کرنے والے کسان کے لیے بہت مشکل ہوتا ہے۔
مونجی ایک ایک پودا کر کے لگاتے ہیں، اس کو کدو کرنا کہتے ہیں، کاشتکاری میں سب سے مشکل کام یہ ہے۔ اب تو خیر مشینیں آگئی ہیں۔ لیکن ساون کا موسم ہو، سخت تپش اور سخت حبس ہو، اوپر منہ پر دھوپ ہو، نیچے گرم پانی ہو، سانپ ادھر ادھر پھر رہے ہوں، اس کیفیت میں روزہ رکھ کر ایک ایک کر کے پودا لگانا کتنا مشکل ہے۔
تو اس نے کہا کہ علماء کرام مہربانی کریں اور مشورہ کر کے رمضان کا گھومنا پھرنا بند کر دیں کہ کبھی جنوری میں آ جاتا ہے اور کبھی جون میں آ جاتا ہے۔ اس لیے علماء کرام سے میری درخواست یہ ہے کہ رمضان کو کسی ایک اچھے سے موسم میں باندھ دیں تاکہ آسانی ہو جائے۔ ساتھ اس نے تجویز دی کہ فروری کو رمضان قرار دے دیں، یکم مارچ کو عید قرار دے دیں، رمضان بھی ٹھنڈا ہو جائے گا اور رؤیتِ ہلال کمیٹی سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ یوں یہ دونوں مسئلے حل ہو جائیں گے۔
میں نے اس کے اپنے لہجے میں جواب لکھا جو نوائے وقت میں ہی چھپا کہ یار پہلی بات تو یہ ہے کہ تمہاری ہمدردی بہت اچھی ہے، کمزور لوگوں سے ہمدردی کرنی چاہیے، لیکن تم نے رمضان کو فروری میں لے جانے کے دو فائدے بیان کیے ہیں، میں اس کا تیسرا فائدہ بھی بتا دیتا ہوں۔ تم نے یہ فائدے بیان کیے کہ روزے ٹھنڈے ہو جائیں گے اور چاند دیکھنے کی ضرورت نہیں رہے گی، لیکن تیسرا فائدہ یہ بھی ہو گا کہ روزے تیس سے اٹھائیس ہو جائیں گے، یہ کیوں نہیں بیان کیا؟ انتیسویں روزے سے تین سال چھٹی ہو جائے گی، چوتھے سال لیپ کے سال انتیسواں روزہ ہوگا، اور تیسویں روزہ سے ہمیشہ کے لیے چھٹی ہو جائے گی جو سب سے مشکل روزہ ہوتا ہے۔ فروری کو رمضان قرار دینے سے یہ فائدہ بھی ہوگا جو آپ ذکر کرنا بھول گئے، میں نے بتا دیا ہے۔
رمضان کا چلتے چلتے تینتیس سال میں چکر مکمل ہوتا ہے اور اس کی حکمت میں نے کہیں پڑھی تھی، شاید امام غزالیؒ نے بیان کی ہے کہ اس طرح رمضان کے گھومنے سے ایک آدمی کو بالغ ہونے کے بعد طبعی عمر تک پہنچنے تک سال کے ہر موسم کے روزے مل جاتے ہیں۔ ٹھنڈے سے ٹھنڈا بھی، گرم سے گرم بھی، چھوٹے سے چھوٹا بھی اور بڑے سے بڑا بھی۔
جب جواب لکھنا ہو تو کچھ نہ کچھ پڑھنا بھی پڑتا ہے، میں نے مطالعہ کیا تو مجھے ایک روایت مل گئی جو قرطبی میں ہے اور قاضی ثنا اللہ پانی پتیؒ نے تفسیرِ مظہری میں نقل کی ہے کہ بنی اسرائیل میں بھی رمضان کے روزے تھے۔ انہیں گرمی کے روزوں نے تنگ کیا تو وہ اپنے علماء کے پاس گئے اور درخواست کی۔ ان کے علماء انسان دوست تھے تو انہوں نے درخواست مان لی۔ انہوں نے باقاعدہ مشورے سے فیصلہ کیا اور رمضان کا چلنا پھرنا بند کیا، مارچ کے روزے طے کیے، اور اپریل کے پہلے یا دوسرے اتوار کو عید الفطر قرار دیا۔
اپریل کے آغاز میں عیسائی ایسٹر مناتے ہیں جو کہ ان کی عید الفطر ہے۔ لیکن بنی اسرائیل کے علماء نے کہا کہ ہم تھوڑی بہت گڑبڑ کر رہے ہیں اس لیے روزے تیس کی بجائے چالیس رکھیں گے۔ چنانچہ عیسائی چالیس روزے رکھتے ہیں اور ان کا روزہ آٹھ پہر کا ہوتا ہے۔ مذہبی عیسائی اب بھی اسی طرح روزہ رکھتے ہیں اور چالیس روزے پورے کر کے ایسٹر مناتے ہیں۔ میں نے کالم میں لکھا کہ خدا کا خوف کرو، وہ گڑبڑ کی وجہ سے تیس کی بجائے چالیس روزے رکھتے ہیں اور تم تیس سے اٹھائیس پر آ رہے ہو۔
اگلی بات میں نے یہ کی کہ یار! ایک بات تم بتا دو تو پھر میں بھی تمہارے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہوں۔ عیسائیوں کے پاس اتھارٹی تھی یا نہیں تھی لیکن علماء کی اتھارٹی سمجھی جاتی تھی۔ ہمارے پاس اتھارٹی نہیں ہے کہ ہم اس میں ردوبدل کر سکیں، نہ پہلے تھی، نہ آئندہ کبھی ہو گی۔ ’’شھر رمضان الذی انزل فیہ القراٰن ھدی للناس وبینت من الھدی والفرقان فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ‘‘ (البقرہ ۱۸۵) نص قطعی، نص صریح ہے، اس کو کون بدلے گا۔ تم اتھارٹی دلوا دو تو میں تمہارے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہوں۔
ایک اشکال درمیان میں عرض کر دیتا ہوں۔ مجھ سے ایک سوال ہوا کہ فقہاء تو حلال و حرام کرتے رہتے ہیں۔ ایک چیز امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک حلال ہے اور امام شافعیؒ کے نزدیک حرام ہے۔ امام شافعیؒ کے نزدیک حلال ہے اور امام مالکؒ کے نزدیک حرام ہے۔ کیا یہ اتھارٹی نہیں ہے؟ ایک چھوٹی سی مثال دوں گا۔
آج کل دنیا کی مارکیٹ میں حلال میٹ کی طلب بڑھ رہی ہے طبی بنیادوں پر۔ یہ بات اب سائنسی اور طبی ریسرچ سے آگئی ہے کہ جو جانور ذبح ہو جائے، خون نکل جائے وہ گوشت بالکل طیب ہو جاتا ہے، اور جو ذبح نہ ہو تو خون اندر جذب ہوتا ہے اور گوشت نقصان دہ ہوتا ہے۔ اس کی بنیاد پر حلال میٹ کی طلب بین الاقوامی مارکیٹ میں بڑھ رہی ہے۔ لیکن انہیں حلال میٹ کی گارنٹی اور اسٹیمپ چاہیے جو کہ گورنمنٹ ہی دے سکتی ہے۔ چنانچہ اس وقت بین الاقوامی مارکیٹ میں ہم سے دو بڑے تقاضے ہیں کہ حلال میٹ کی گارنٹی اور اسٹیمپ فراہم کرو، جس طرح یہودیوں کا کوشر ہے، وہ ان کی گارنٹی ہے۔ اس پر کانفرنسیں ہوتی رہتی ہیں۔
پاکستان حلال فوڈ اتھارٹی کے چیئرمین جسٹس خلیل الرحمان خان ہیں، ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہے ہیں، ہمارے دوست ہیں۔ کئی سال قبل لاہور پی سی میں بین الاقوامی کانفرنس تھی جس میں تیرہ چودہ ملکوں کے نمائندے شریک تھے۔ ایجنڈا یہ تھا کہ حلال میٹ کی گارنٹی کا کوئی سسٹم بنائیں تاکہ بین الاقوامی مارکیٹ تسلی سے حلال میٹ خریدے، اور اسٹیمپ کا کوئی سسٹم متعارف کروائیں تاکہ وہ دیکھیں تو پوچھنا نہ پڑے۔ انہوں نے مجھے بھی اس کی ایک نشست میں گفتگو کرنے کی دعوت دی۔ میں نے نیا کٹا کھول دیا۔ میں صبح میسج بھیجا کرتا ہوں، پرسوں ترسوں میسج جاری کیا تو مولانا فضل الرحمٰن کا دو تین منٹ کے بعد فون آ گیا کہ نیا کٹا کھولنے لگے ہو؟
مجھے کانفرنس میں ظہر کے بعد کی نشست میں گفتگو کا وقت دیا گیا، اتفاق سے اس نشست کی صدارت پاکستان میں انڈونیشیا کے سفیر محترم کر رہے تھے۔ انڈونیشیا آبادی کے اعتبار سے مسلمانوں کا سب سے بڑا ملک ہے، وہاں سب شوافع ہیں اور ان کے نزدیک پانی کی ہر چیز حلال ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کا نظام دیکھیے کہ تیس کروڑ شافعی پانی میں رہتے ہیں، تین ہزار جزیروں کا نام انڈونیشیا ہے۔ یہ تکوینیات ہیں کہ شوافع کے نزدیک پانی کی ہر چیز حلال ہے اور شوافع کی غالب اکثریت پانی میں یعنی جزیروں میں رہتی ہے۔
مجھے گفتگو کے لیے کہا گیا تو میں نے کہا کہ یہ بڑی اچھی بات ہے، یہ اسلام کی حقانیت کی دلیل ہے کہ اسلام نے ذبیحہ کو پاک کہا ہے اور میتہ کو نجس کہا ہے۔ جبکہ آج دنیا اس پر آ گئی ہے کہ جو ذبح ہوگا وہ پاک ہوگا اور جو ذبح نہیں ہوگا وہ نجس رہے گا۔ لیکن دنیا کو حلال کی گارنٹی فراہم کرنے سے پہلے آپس میں کوئی فارمولا طے کریں، کیونکہ میرا حلال و حرام اور ہے، صدر محترم کا حلال و حرام اور ہے۔ میں حنفی ہوں ہمارے نزدیک پانی کا جو جانور مچھلی کی جنس سے ہو وہ حلال ہے۔ جبکہ صدر محترم کے نزدیک پانی کی ہر چیز حلال ہے۔ اس لیے آپس میں کسی بات پر اتفاق کر کے گارنٹی جاری کرنا، دنیا کو تماشہ نہ دکھانا کہ یہ انڈونیشیا کا حلال ہے اور یہ پاکستانی حلال ہے۔ یہ جکارتہ کا حلال ہے اور یہ لاہور کا حلال ہے۔
اس بات پر سب چونکے، کٹا کھل گیا۔ آخری خطاب سفیر محترم نے فرمایا، ان کو میرا نام تو یاد نہیں تھا، مگر بار بار کہہ رہے تھے کہ ان مولوی صاحب نے ٹھیک کہا ہے۔ آپس میں کوئی فارمولا طے کر لو، تماشہ نہ بننا۔ عالمی مارکیٹ میں اکٹھے ہو کر جائیں گے، الگ الگ تو نہیں جائیں گے۔
میں اجتہاد کی بات کر رہا تھا کہ کہا جاتا ہے کہ فقہاء تو حلال و حرام کرتے ہیں۔ ایک چیز شوافع کے نزدیک حرام ہے، احناف کے نزدیک حلال ہے، یہ کیا ہے؟ اس پر یہ نکتہ کی بات ذہن میں رکھیں کہ ایک ہے حلال و حرام صوابدیدی اور ایک ہے اجتہادی۔ قرآن مجید کے منصوص معاملات میں یہ اختیار کسی کو نہیں ہے۔ البتہ جو غیر منصوص معاملات ہیں، ان میں اجتہاد ہے۔ لیکن مجتہد حلال و حرام قرار نہیں دیتا بلکہ صرف حلال و حرام بتاتا ہے۔ حلال بنانے کا اختیار نہیں ہے، بتانے کا اختیار ہے۔
فقہاء کا حلال و حرام کا فیصلہ اجتہادی اور استدلالی ہے۔ اجتہادی اختیار فقہاء کے پاس غیر منصوص مسائل میں ہے۔ اور جس اجتہاد کی یہ لوگ بات کرتے ہیں وہ صوابدیدی ہے کہ میں اپنی اتھارٹی سے کسی چیز کو حلال کہہ دوں، حالانکہ یہ اختیار کسی کے پاس نہیں ہے۔
میں نے یہ بات آپ سے عرض کی ہے کہ اجتہاد کا ایک مفہوم وہ ہے جو ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں، اور اجتہاد کا ایک مفہوم آج کے پس منظر میں ہے، ان کو کچھ پتہ نہیں کہ کرخی کے اصول کیا ہیں اور بزدوی کے اصول کیا ہیں۔ ان کو بس یہ پتہ ہے کہ یہ اختیار علماء کے پاس ہے تو انہیں کرنا چاہیے۔ میں نے اجتہاد کا موجودہ تناظر آپ کے سامنے عرض کیا ہے۔ یہ ذہن میں رکھیں اور کوئی سوال کرے تو اس کے تناظر میں جواب دیں۔
چند سوالات
سوال: ……
جواب: یہ بات میں عرض کرتا رہتا ہوں کہ ہم علماء آج کے حالات سے واقف نہیں ہوتے حالانکہ واقفیت ضروری ہے۔ ’’من لم یعرف اھل زمانہ فھو جاھل‘‘ اہل زمانہ سے واقف ہونے کا یہی مطلب ہے۔ لیکن ایک اور مسئلہ ہے کہ کیا اجتہاد سے مراد اصول کی تشکیلِ نو ہے یا طے شدہ اصولوں کے مطابق اجتہاد کرنے کا نام ہے؟ اجتہاد اصول کی تشکیلِ نو کا نام نہیں ہے، اصول طے ہو چکے ہیں، ان اصولوں کی روشنی میں آج کی ضروریات اور عرف و تعامل کو سامنے رکھ کر اجتہاد کیا جا سکتا ہے۔
یہ صرف اصولِ فقہ کی بات نہیں ہے، کسی بھی علم میں اصول کی تشکیلِ نو کی بات غلط ہے۔ مثلاً نحو میں بنیادی اصول ’’الفاعل مرفوع و المفعول منصوب‘‘ ہیں، ان کو آج میں نئے سرے سے وضع کرنا چاہوں تو کوئی ایسا کرنے دے گا؟ اسی طرح منطق اور صَرف کے بنیادی اصول وہی ہیں جو طے ہو چکے۔ اگر کوئی آدمی کہے کہ میں نئے اصول وضع کر کے تشکیلِ نو کرتا ہوں تو یہ غلط ہے۔ البتہ انہی اصولوں کی روشنی میں نحو میں بھی ارتقا ہو رہا ہے اور صَرف اور منطق میں بھی ارتقا ہو رہا ہے۔ اصول کے ارتقا کا ایک دور ہوتا ہے۔ جب اصول مکمل ہو جاتے ہیں تو وہ دروازہ کوئی بند نہیں کرتا بلکہ خودبخود بند ہو جاتا ہے۔ اس پر میں نے تفصیل سے لکھا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اجتہاد کا دروازہ کس نے بند کیا ہے؟ میں کہتا ہوں کہ کسی نے بند کیا نہیں ہے، آٹومیٹک بند ہو گیا ہے۔ منطق، فلسفہ، صَرف، نحو، کسی بھی علم میں اصول کے تعین کا ایک دور ہوتا ہے، جب اصول طے ہو جاتے ہیں تو ان کا دروازہ خودبخود بند ہو جاتا ہے۔ اب قیامت تک ہر علم میں اصول وہی چلیں گے، نئے اصول وضع کرنے کی بات نہیں ہے۔ اصول وہی رہیں گے اور انہی چار پانچ دائروں میں رہیں گے جو امت نے قبول کر لیے ہیں، ان کا دائرہ بھی تبدیل نہیں ہو گا۔ اصول میں اجتہاد کی گنجائش نہیں ہے کہ اب اس کی ضرورت ہی نہیں ہے، جو ہونا تھا، سو ہو گیا ہے۔ کسی بھی علم میں اصول کی تشکیلِ نو نئے علم کی تشکیل ہوتی ہے، اس علم کی تشکیلِ نو نہیں ہوتی۔
سوال: پاکستان میں احناف کے مختلف دارالافتاء ہیں، ان کی طرف سے مختلف فتاویٰ جاری ہوتے ہیں۔ اس وقت اس دائرہ میں اجتہاد کیوں نہ کیا جائے کہ تمام ملک سے ایک ہی فتویٰ جاری ہو جیسے جامعہ ازہر میں اور عرب کے مختلف ملکوں میں ہے۔
جواب: یہ بات میں بھی عرض کرتا رہتا ہوں۔ کراچی میں اکابر کے زمانے میں ایک مجلسِ علمی تھی۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ، حضرت مولانا رشید احمد لدھیانویؒ، حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانویؒ، حضرت مولانا ولی حسن ٹونکیؒ وغیرہ آٹھ دس بڑے اکابر مجلس علمی کے ممبر تھے، کوئی اجتماعی مسئلہ آتا تھا تو اس میں بیٹھ کر مشورہ کرتے تھے اور اجتماعی رائے دیتے تھے۔ اب وہ ماحول نہیں ہے، یہ میری بھی درخواست رہتی ہے۔ ایک ہیں شخصی معاملات، ان میں ٹھیک ہے آپ فتویٰ دیں، لیکن اجتماعی معاملات میں دارالافتاؤں کو مل بیٹھ کر اجتماعی مشورہ دینا چاہیے کہ اجتماعی معاملات میں اختلاف رائے سے تشطط پیدا ہوتا ہے۔ جس طرح ایک مثال موجود ہے کہ مجلسِ علمی کام کرتی رہی ہے، اس کی آج ضرورت ہے اور ہونی چاہیے، لیکن کرے گا کون؟ واللہ اعلم۔ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ یہ مسئلہ ہے۔ دعا کریں کہ اس کی کوئی صورت نکل آئے۔ اجتماعی مشاورت کا اہتمام ہونا چاہیے اور آج کی ضروریات کے مطابق آٹھ دس اکابر مفتی اگر مل بیٹھ کر کسی اجتماعی مسئلے پر رائے دیں گے تو اعتماد بھی قائم رہے گا اور جدید مسائل کا حل بھی نکل آئے گا۔ اس کا نظم نہیں بن رہا، مشاورت کون کرے گا اور اس کا اہتمام کون کرے گا؟
میں اپنے حلقہ کی گوجرانوالہ کی بات کرتا ہوں کہ کوئی اجتماعی مسئلہ آتا ہے تو ہم صرف اپنے مسلکی دائرے میں نہیں، کہ وہ تو ہم کرتے ہی ہیں۔ ہمارے ہاں دو مرحلے ہوتے ہیں۔ کوئی اجتماعی مسئلہ ہوتا ہے تو ہم آپس میں مشورہ کر کے ایک مشترکہ رائے دے دیتے ہیں۔ اس سے آگے اگر ضروری ہو تو بریلوی اور اہل حدیث حضرات کو بلا کر باہمی مشورے سے کوئی رائے دے دیتے ہیں۔ (قومی سطح پر) ہمارا ایک مشترکہ فورم لاہور میں بھی ہے ’’ملی مجلس شرعی‘‘ کے نام سے جس میں دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث، جماعت اسلامی اور شیعہ سب شریک ہیں، میں اس کا صدر ہوں۔ کوئی اہم قومی مسئلہ پیش آتا ہے تو ہم ایک اجتماعی رائے دیتے ہیں۔ حالیہ سپریم کورٹ کے مسئلے پر کراچی سے تو ان اکابر نے اہتمام کیا تھا اور لاہور سے اجتماعی رائے ہم نے دی ہے۔ ہماری یہ کوشش ہوتی ہے کہ کوئی اجتماعی قومی نوعیت کا مسئلہ ہو تو ہم کم از کم مل بیٹھ کر مشترکہ طور پر ایک رائے دے دیں کہ یہ سب کی مشترکہ رائے ہے تاکہ کل کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ تم خود متفق نہیں ہو۔ اس درجے میں ہمارا اہتمام ہے لیکن یہ ہر شہر میں ہونا چاہیے اور قومی سطح پر بھی ہونا چاہیے۔
سوال: ……
جواب: یہ ایک مستقل موضوع ہے ’’مسلم دنیا کی معاشی صورتحال، ہماری مشکلات اور ان کا حل‘‘۔ اس پر ان شاء اللہ اگلی نشست میں تفصیلی بات کروں گا، لیکن ایک چھوٹی سی بات کہہ دیتا ہوں کہ ہماری مشکلات اور الجھنیں کیوں ہیں؟ اندلس کی حکومت کے خاتمے تک تو سائنس، ریاضی اور سوشیالوجی میں دنیا کو ہم لیڈ کر رہے تھے۔ اندلس کی حکومت ختم ہوئی، ہم شکست کھا کر نکلے تو پھر دو بڑی سلطنتیں آئی ہیں: خلافت عثمانیہ اور مغل سلطنت۔ دونوں میں سے کسی نے اس طرف توجہ نہیں دی۔ میں اس کا ایک نتیجہ بتاتا ہوں۔ تیل کی دولت اللہ پاک نے ہمیں دی تھی، اس وقت سب سے زیادہ تیل مسلمانوں کے پاس ہے، یہ دولت ہمیں سو سال پہلے ملی تھی۔ تیل کے چشمے ہمارے پاس ہیں لیکن زمین سے تیل نکالنے کی صلاحیت ہمارے پاس نہیں تھی۔ تیل نکال کے اسے ریفائن کرنا ہوتا ہے، بیچنے کے قابل بنانا ہوتا ہے۔ پھر تیل مارکیٹ تک پہنچانا۔ یہ تینوں صلاحیتیں ہمارے پاس نہیں تھیں، نہ مغلوں کے پاس تھیں اور نہ عثمانیوں کے پاس تھیں۔ ہم نے اس کے لیے امریکہ کو بلایا تو اس نے آ کر ساتھ ہی ہمارا تیل بھی نکال لیا۔ اس لیے ہمیں اپنی کوتاہیوں کو دیکھنا پڑے گا۔
آج کی تمام مشکلات کی بنیاد یہ ہے کہ ہمارے پاس صلاحیت نہیں ہے۔ اگر ہمارے پاس تیل نکالنے کی صلاحیت ہوتی، ریفائن کرنے اور مارکیٹنگ کی صلاحیت ہوتی تو ہم امریکہ اور جرمنی کو نہ بلاتے، خود کرتے۔ لیکن ہم نے ان کو بلایا، پھر انہوں نے جو کچھ کیا وہ ہمارے سامنے ہے۔ اس لیے اپنی کوتاہیوں پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ حالانکہ مغرب کو ہم نے یہ سارے سبق پڑھائے ہیں۔ سائنس، سوشیالوجی اور ٹیکنالوجی ہم نے سکھائی ہے، لیکن جب بنیاد بنا کر ہم فارغ ہو گئے تو انہوں نے اپنی عمارت کھڑی کر لی۔
اللہ تعالیٰ ہماری حاضری اور مل بیٹھنا قبول فرمائیں، کہی سنی باتیں قبول فرمائیں، جو باتیں صحیح ہوئی ہیں عمل کی توفیق عطا فرمائیں، کوئی بات غلط ہو گئی ہو تو اصلاح کی توفیق عطا فرمائیں۔ اللہ رب العزت اپنے دین کے لیے، قوم، ملت اور ملک کے لیے بہتر سے بہتر خدمت کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔