مذہب کا ریاستی کردار اور مغربی دانش ور

   
تاریخ : 
اکتوبر ۲۰۰۷ء

نیو یارک سے شائع ہونے والے اردو جریدہ ہفت روزہ ’’نیو یارک عوام‘‘ نے ۳۱ اگست تا ۶ ستمبر ۲۰۰۷ء کی اشاعت میں بتایا ہے کہ اقوام متحدہ میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے سفیر زلمے خلیل زاد نے آسٹریا کے ایک اخبار ’’آئی پریس‘‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں تیزی سے ابتر ہوتی ہوئی صورت حال تیسری عالمی جنگ کا باعث بن سکتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مشرق وسطیٰ کی موجودہ صورت حال ابتری کے حوالے سے ایسے نقطے پر پہنچ چکی ہے جس نقطے پر بیسویں صدی کے پہلے نصف حصے میں یورپ کی صورت حال تھی اور یہ صورت حال دو عالمی جنگوں کا باعث بنی تھی۔ انھوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں سیاسی اتار چڑھاؤ جو اس وقت انتہائی بلندیوں کو چھو رہا ہے اور اسلامی تہذیب تیسری عالمی جنگ کی وجہ بن سکتی ہے۔ زلمے خلیل زاد نے یہ بھی کہا کہ اسلامی تہذیب بالآخر عالمی دھارے میں شامل ہو جائے گی تاہم اس عمل میں کچھ وقت لگے گا۔

’’نیو یارک عوام‘‘ کے اسی شمارے میں امریکی فوج کے سربراہ جنرل ارج کیسی کے ایک خطاب کی رپورٹ بھی شائع ہوئی ہے جو انھوں نے سان جوآن میں نیشنل گارڈ ایسوسی ایشن کی ۱۲۹ویں سالگرہ میں کیا ہے اور جس میں انھوں نے کہا ہے کہ انتہا پسند مسلمانوں کے خلاف شروع کی گئی نظریاتی جنگ کئی عشروں تک جاری رہ سکتی ہے اور یہ جنگ اس وقت تک نہیں جیتی جا سکتی جب تک اعتدال پسند مسلمان انتہا پسند مسلمانوں پر بالادستی نہ حاصل کر لیں، اس لیے سرد جنگ کے دور کی طرح یہ نظریاتی جنگ بھی کئی عشروں تک جاری رہ سکتی ہے۔

اس کے ساتھ ’’نیو یارک پولیس ڈیپارٹمنٹ‘‘ کی اس رپورٹ پر بھی ایک نظر ڈال لی جائے جس کا ان دنوں امریکی حلقوں میں بہت چرچا ہے۔ یہ رپورٹ ۹۰ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا اعلان نیو یارک کے پولیس کمشنر ریمون کیلی نے پریس کانفرنس میں کیا ہے اور اس میں امریکہ کے اندر دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کی نشان دہی کی گئی ہے۔ ہفت روزہ ’’پاکستان نیوز‘‘ نے، جو نیو یارک سے شائع ہوتا ہے، ۲۳-۲۹ ؍اگست ۲۰۰۷ کے شمارے میں اس کے کچھ حصے شائع کیے ہیں۔ پولیس کمشنر ریمون کیلی نے اخباری کانفرنس میں بتایا کہ اس رپورٹ کو تیار کرنے کے لیے نیو یارک پولیس افسروں نے دنیا بھر کا دورہ کیا ہے اور ۱۰۰ دہشت گردوں اور دہشت گردی کے گیارہ منصوبوں کے مطالعہ کے بعد یہ رپورٹ تیار کی گئی ہے۔ اس میں دہشت گردی کے مختلف پہلوؤں کا ذکر کیا گیا ہے کہ کن مراحل سے گزر کر کوئی دہشت گرد مکمل دہشت گرد کا روپ دھار لیتا ہے اور بتایا گیا ہے کہ خطرہ کا آغاز اس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص زیادہ مذہبی ہو جائے، ڈاڑھی بڑھا لے، لڑکیوں اور نشے سے دوری اختیار کر لے، امریکن پاپ کلچر سے بیزاری ظاہر کرے اور وار گیم کھیلنے شروع کر دے۔ ایسے نوجوان اپنے خاندان سے تعلقات کم کر لیتے ہیں اور ایسی مساجد میں جانا بند کر دیتے ہیں جو کہ شدت پسند نہیں ہوتیں۔ اس کے بجائے وہ شدت پسند مساجد میں جاتے ہیں۔

تحقیقاتی افسر کا کہنا ہے کہ اگر ’’کوئی مسجد جانا چھوڑ دے تو بظاہر لگتا ہے کہ اچھی بات ہے‘‘ مگر یہ ہو سکتا ہے کہ اس نے مسجد آنا اس لیے چھوڑا ہو کہ وہ اتنی شدت پسند نظریات والے نہیں ہیں۔ رپورٹ میں نوجوانوں کے دہشت گردی کی طرف مائل ہونے کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کسی کی نوکری چھوٹ جائے، نوکری پر تعصب کا شکار ہو جائے، کوئی جانی نقصان ہو جائے، والدین کا انتقال ہو جائے یا پھر کوئی ایسا شخص جو مسلم دنیا پر ہونے والی زیادتی سے ناراض ہو۔

یہ تین رپورٹیں مغرب اور عالم اسلام کے درمیان جاری کشمکش کے بارے میں خود مغربی راہ نماؤں کی طرف سے ظاہر کیے جانے والے خیالات کی ایک جھلک کی حیثیت رکھتی ہیں، ورنہ اگر مغرب میں شائع ہونے والے اخبارات اور جرائد کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے تو اس جیسے بیسیوں بیانات، مضامین اور رپورٹوں کی نشان دہی کی جا سکتی ہے جن کی رو سے مغرب کے ذمہ دار دانش وروں، حکمرانوں اور تجزیہ نگاروں کے نزدیک اس کشمکش اور تیزی کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کے اسباب کی جڑیں عقیدہ، ثقافت اور کلچر میں پیوست ہیں اور اپنے اسباب، معروضی صورت حال اور نتائج کے حوالے سے یہ واضح طور پر ایک کلچرل اور عقیدہ وثقافت کی جنگ دکھائی دیتی ہے، مگر مسلم دنیا کے ان حکمرانوں اور دانش وروں کے حوصلہ کی داد دینا پڑتی ہے جو ابھی تک مسلسل یہ واویلا کیے جا رہے ہیں کہ مغرب اور مسلم دنیا کے درمیان اس کشمکش کا عقیدہ وثقافت اور کلچر سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جن کے ہر تجزیہ کی تان اس نکتہ پر آ کر ٹوٹتی ہے کہ مسلمانوں کو اور خصوصاً ان کے دینی حلقوں اور مذہبی راہ نماؤں کو مغرب کے بارے میں اپنی رائے پر نظر ثانی کر نی چاہیے، مغرب کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کی طرف پیش رفت کرنی چاہیے۔

ہم ان صفحات میں کئی بار یہ عرض کر چکے ہیں کہ مغرب نے آسمانی تعلیمات سے انحراف اور ریاست وسوسائٹی کے معاملات سے مذہب کی بے دخلی پر مبنی جس سولائزیشن کو گزشتہ دو صدیوں میں پروان چڑھایا ہے، وہ اسے دنیا پر اپنے سیاسی، عسکری اور معاشی غلبے کی وجہ سے ’’واحد عالمی سولائزیشن‘‘ قرار دے کر اسے میڈیا، لابنگ، عسکری بالادستی اور معاشی تسلط کے ذریعے دنیا بھر سے منوانے کے درپے ہے اور مسلم دنیا چونکہ اپنے عقیدہ وثقافت اور قرآن وسنت کی تعلیمات سے بے لچک وابستگی کے باعث سوسائٹی اور ریاست کے معاملات میں ان کے راہ نمائی کے کردار سے دست بردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے، اس لیے وہ اس کی مزاحمت کر رہی ہے اور جیسا کہ مظلوم، مقہور اور بے بس شخص مزاحمت پر اتر آنے کے بعد جو چیز اس کے ہاتھ میں آ جائے، اسی کو ہتھیار بنا لیتا ہے، اسی طرح ہر طرف سے جکڑی ہوئی مسلم دنیا کا ایک حصہ اس حصار کی رسیوں کو کاٹنے کے لیے جو اس کے بس میں ہے، وہ کیے جا رہا ہے۔

آپ ایک لمحہ کے لیے تصور کیجیے کہ ایک شخص رسیوں سے جکڑا ہوا دشمن کے سامنے پڑا ہے اور دشمن خنجر ہاتھ میں لیے اس کے سر پر کھڑا ہے، وہ شخص خود کو اس صورت حال سے نجات دلانے کے لیے کیا کچھ نہیں کرے گا؟ وہ تڑپے گا، بھاگنے کی کوشش کرے گا، رسیوں کو توڑنے کے لیے دانتوں اور ناخنوں کا استعمال کرے گا، اپنے ہاتھوں اور پاؤں کو پتھروں پر رگڑے گا اور جسم کے جس حصے کو حرکت دینے کی پوزیشن میں ہوگا، اسے وہ دشمن کے خلاف استعمال کرے گا۔ اس وقت اگر آپ ریفری بن کر سامنے کھڑے ہوں اور اسے سمجھانا شروع کر دیں کہ اس طرح تمھارے دانت ٹوٹ جائیں گے، ناخن اکھڑ جائیں گے، جسم چھلنی ہو جائے گا اور ہاتھ پاؤ ں کی ہڈیاں ٹوٹ جائیں گی تو آپ خود اپنے ضمیر سے پوچھ لیجیے کہ آپ کے اس طرز عمل کو کس عنوان سے تعبیر کیا جانا چاہیے؟

ہم کبھی دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حق میں نہیں رہے۔ ہم نے ہمیشہ اعتدال وتوازن او رپرامن جدوجہد کی بات کی ہے اور اس کی حمایت کی ہے۔ اب بھی ہم دنیا کے کسی بھی حصے میں عام شہریوں اور غیر متعلق اور بے گناہ لوگوں کی جان ومال کو خطرے میں ڈالنے کے عمل کو قابل نفریں سمجھتے ہیں اور اس کی مذمت کرتے ہیں۔ اسی طرح ہم مسلم ممالک میں مسلم حکومتوں کے خلاف مسلح جدوجہد کو بھی درست نہیں سمجھتے اور مسلم معاشروں کی اصلاح اور مسلم ممالک میں اسلامی اقدار وروایات کے نفاذ وتحفظ کے لیے پرامن جدوجہد کو ہی صحیح اور معقول راستہ تصور کرتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم ان زمینی حقائق کو بھی نظر انداز کرنے کے لیے تیار نہیں کہ:

  • مغرب اس وقت مسلم دنیا میں سیاسی، معاشی اور عسکری غلبہ کے زور سے جو کچھ کر رہا ہے، اس کا ایک بڑا مقصد مسلمانوں کو اسی طرح آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کے معاشرتی اور ریاستی کردار سے دست بردار ہونے پر مجبور کرنا ہے جس طرح مغرب خود یہ دست برداری اختیار کر چکا ہے۔
  • مغرب نے ’’دہشت گردی‘‘ کا کوئی مفہوم عالمی سطح پر طے کیے بغیر دہشت گردی کے خلاف جو جنگ شروع کر رکھی ہے، اس نے دہشت گردی اور تحریک آزادی کے معاملات کو آپس میں گڈمڈ کر دیا ہے جس سے مظلوم اور غلام قوموں کا خود ارادیت اور آزادی کا حق مجروح ہو رہا ہے۔
  • مختلف ممالک میں غیر ملکی فوجی تسلط کے خلاف مزاحمت کرنے والے ’‘فریڈم فائٹرز‘‘ کو دہشت گرد قرار دے کر قوموں کی آزادی اور خود مختاری کا کھلم کھلا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔

البتہ صورت حال میں ایک مثبت تبدیلی کے آثار بھی نمودار ہونا شروع ہوئے ہیں جو ہمارے لیے کسی حد تک اطمینان کا باعث ہے۔ وہ یہ کہ سوسائٹی اور ریاست کے معاملات میں مذہب کے کردار کا خلا اب مغرب میں بھی محسوس کیا جانے لگا ہے اور امریکی دانش وروں کے ایک فکری فورم کے ساتھ ہمیں اس سلسلے میں ابتدائی گفتگو کا موقع ملا ہے۔ راقم الحروف نے اس سال شعبان المعظم کا بیشتر حصہ واشنگٹن کے ایک دینی ادارے ’’دار الہدیٰ‘‘ میں گزارا ہے اور اسی دوران میرے علم میں یہ بات آئی ہے کہ بہت سے امریکی دانش ور اس پہلو پر کام کر رہے ہیں کہ ریاست کے ساتھ مذہب کا تعلق ختم ہونے سے جو خلا پیدا ہوا ہے، اسے پر کرنے کے لیے کوئی راستہ نکالا جائے۔ اس سلسلے میں دو امریکی دانش وروں ڈگلس جانسٹن اور سینتھیا سمپسن کی مشترکہ طور پر لکھی ہوئی ضخیم کتاب
Religion: The Missing Dimension of State Craft
اسی حلقہ کے ایک دوست نے مجھے فراہم کی۔ اس کا پیش لفظ سابق امریکی صدر جمی کارٹر نے تحریر کیا ہے اور مجھے بتایا گیا ہے کہ اس کتاب میں مذہب کے ریاستی کردار کی اہمیت پر بات کی گئی ہے۔ اس کتاب کی دیگر تفصیلات اس وقت میرے سامنے نہیں ہیں، مگر اس کا یہی پہلو میرے لیے کسی حد تک اطمینان بخش ہے کہ مغرب میں ریاست کے ساتھ مذہب کے تعلق کی اہمیت پر دانش وروں میں بحث ہو رہی ہے۔ یہی نکتہ ہمارے دانش وروں کی توجہ کا سب سے زیادہ مستحق ہے اور مسلم دانش وروں سے ہماری گزارش ہے کہ وہ اپنی صلاحیتیں مسلمانوں کو مذہب کے ریاستی کردار سے دست برداری کی تلقین کرنے کے بجائے مغرب کو مذہب کے ریاستی کردار کی بحالی کی اہمیت کا احساس دلانے میں صرف کریں کہ وقت کا سب سے اہم تقاضا یہی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter