(شاہ فیصل مسجد اسلام آباد کے آڈیٹوریم میں ’’قومی ادارہ برائے تعلیم و تحقیق پشاور‘‘ کے زیر اہتمام ’’ماں اور بچے کی صحت‘‘ کے عنوان پر مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی کی زیر صدارت منعقدہ سیمینار سے خطاب۔)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ماں اور بچے کی صحت کے حوالہ سے اس سیمینار میں باخبر حضرات کی طرف سے جو اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں اور صورتحال کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے، حاملہ خواتین کو بروقت طبی امداد مہیا نہ ہونے کے باعث ہزاروں خواتین کی زچگی کی حالت میں موت، اور نوزائیدہ بچوں کو ضروری طبی سہولتیں میسر نہ آنے کی وجہ سینکڑوں بچوں کی اموات کے بارے میں یہ اعداد و شمار چونکا دینے والے ہیں۔ اس کا سبب بے خبری اور بعض غلط قسم کی معاشرتی رسوم کو قرار دیا گیا ہے، بلاشبہ اس بے خبری اور جہالت کا سدباب ضروری ہے اور حاملہ ماں اور نومولود بچے کو طبی سہولتیں فراہم کرنے سے جو رسوم روکتی ہیں ان کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے اور یہ کام علماء کرام ہی بہتر طور پر کر سکتے ہیں۔
اسلامی تعلیمات میں حاملہ ماں اور نومولود بچے کی صحت کے بارے میں واضح ہدایات دی گئی ہیں اور جناب اکرمؐ کے مختلف ارشادات میں اس حوالہ سے ہدایات اور راہنمائی موجود ہے، میں ان میں سے صرف ایک کا بطور مثال ذکر کرنا چاہوں گا۔ صحیحین کی روایت میں ہے کہ جناب نبی اکرمؐ نے ایک بار ’’غیلہ‘‘ سے ممانعت کا حکم ارشاد فرمایا۔ غیلہ بچے کو دودھ پلانے کی مدت میں خاوند کی بیوی کے ساتھ مجامعت کرنے کو کہتے ہیں، اس کے بارے میں عام طور پر مشہور تھا کہ ایسا کرنے سے بچے کو نقصان پہنچتا ہے، نبی کریمؐ نے اس وجہ سے لوگوں کو غیلہ سے منع کرنے کا ارادہ فرما لیا مگر بعد میں معلوم ہوا کہ فارس و روم کے لوگ یہ عمل کرتے ہیں اور بچوں کو کوئی ضرر نہیں پہنچتا، تو نبی اکرمؐ نے غیلہ سے منع کرنے کا ارادہ ترک کر دیا ممانعت واپس لے لی۔ میں اس حدیث مبارکہ کے ضمن میں دو تین باتیں عرض کرنا چاہوں گا:
- ایک یہ کہ ماں باپ کا کوئی عمل جس سے بچے کو نقصان پہنچتا ہو اس سے ماں باپ کو منع کیا جا سکتا ہے۔
- دوسری یہ کہ طب و علاج وغیرہ کے معاملات میں جناب نبی اکرمؐ نے عام لوگوں کے تجربات و مشاہدات کا لحاظ رکھا ہے اور ان کی بنیاد پر ہدایات بھی دی ہیں۔
- اس کے ساتھ ہی ایک اور بات کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ آج کل مغربی دنیا میں حاملہ ماں اور نوزائیدہ بچے کی صحت کا خاص طور پر خیال رکھا جاتا ہے اور اس کی دنیا بھر میں تلقین بھی کی جاتی ہے، یہ اچھی بات ہے اور اچھی بات جس طرف سے بھی آئے اسے قبول کرنا چاہیے۔ لیکن اس بات کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ ماں اور بچے کی صحت کے بارے میں مغرب کا تصور اور تناظر بہت محدود ہے جبکہ اسلام کا تناظر اس کے بارے میں بہت وسیع ہے۔ مغرب صرف جسمانی صحت کی بات کرتا ہے اسے روحانی اور اخلاقی صحت سے کوئی غرض نہیں ہے اور نہ ہی وہ اس کے بارے میں سوچنے کے لیے تیار ہے۔ حالانکہ بچہ صرف جسم کا نام نہیں بلکہ جسم اور روح دونوں کے ملاپ سے بچہ تشکیل پاتا ہے، ماں کے پیٹ میں بچے کو روح کا کنکشن ملے تو وہ بچہ کہلاتا ہے لیکن اگر وہ روح کے بغیر پیدا ہو جائے تو اسے اسی طرح زمین میں دفن کر دیا جاتا ہے، اسلام میں دونوں باتوں کا لحاظ رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچے کی ولادت کے بعد جہاں اسے پہلی جسمانی خوراک کے طور پر کسی نیک آدمی سے گھٹی دلانا سنت ہے، وہاں اس کے کان میں اذان اور اقامت کہنا بھی سنت ہے۔ گھٹی اس کے جسم کی خوراک ہے جبکہ اذان اس کی روح کی خوراک ہے اور زندگی کے تمام مراحل میں اسلام نے اس توازن کو قائم رکھا ہے۔
چونکہ اس سیمینار کے شرکاء کی اکثریت علماء کرام اور خطباء پر مشتمل ہے اور انہیں اس مقصد کے لیے یہاں دعوت دی گئی ہے کہ وہ بچے اور ماں کی صحت کے بارے میں موجود معروضی صورتحال سے آگاہی حاصل کر کے حالات کی بہتری کے لیے اپنا کردار ادا کریں، اس لیے میں ان سے یہ عرض کروں گا کہ بچے کی جسمانی اور روحانی دونوں قسم کی صحت کے بارے میں قوم کی راہنمائی ضروری ہے، علماء کرام کو چاہیے کہ وہ دونوں پہلوؤں کے بارے میں معروضی صورتحال سے آگاہی حاصل کریں اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و فرمودات اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں صورتحال کی اصلاح اور عوام کی راہنمائی کے لیے اپنا فریضہ ادا کریں۔