سفرِ معراج کے دو پہلو

   
۱۱ مئی ۲۰۱۶ء

خیر پور سندھ کی مرکزی جامع مسجد کے خطیب مولانا مفتی محمد اسد اللہ شیخ نے ۴ مئی کو میری حاضری کے موقع پر جامع مسجد میں معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر بیان کا اہتمام کر رکھا تھا۔ اس موقع پر جو گزارشات پیش کیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ اسراء و معراج کا واقعہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا اہم واقعہ ہے اور بڑے معجزات میں سے ہے۔ ہمارا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کے ایک حصے میں جسم اطہر کے ساتھ بیداری کی حالت میں یہ مقدس سفر کرایا، جس کا ایک حصہ اسراء کہلاتا ہے جو مکہ مکرمہ سے بیت المقدس تک تھا، جبکہ دوسرا حصہ معراج کہلاتا ہے جو زمین سے عرش بلکہ اس سے بھی آگے کی منازل تک تھا۔ اور اس کا مقصد قرآن کریم نے یہ بیان فرمایا ہے ”لنريہ من اٰياتنا“ تاکہ ہم اپنے پیغمبر کو اپنی نشانیاں دکھائیں۔ چنانچہ آپؐ نے بہت سی نشانیاں دیکھیں اور ان میں سے بہت سی بیان بھی فرمائیں، جو سینکڑوں احادیث میں محفوظ ہیں اور جن کا تذکرہ ہوتا رہتا ہے۔

اسراء و معراج کی حکمتوں اور اس کے اسباق پر مفسرین و متکلمین نے بے شمار باتیں لکھی اور کہی ہیں۔ میں ان میں سے دو کا تذکرہ کرنا چاہوں گا۔ ایک حکمت کے حوالہ سے اور دوسری سبق اور پیغام کے حوالہ سے ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرات انبیاء کرام علیہم السلام سے لیے گئے ایک میثاق کا ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرامؑ سے وعدہ لیا کہ میں تم سب کے بعد ایک رسول بھیجوں گا جو تمہاری تعلیمات کی تصدیق کرے گا، تم سب اس پر ایمان لاؤ گے اور اس کی مدد کرو گے۔ سب پیغمبروں نے اللہ تعالیٰ سے اس بات پر پکا عہد کیا اور اس کی گواہی دی۔

یہاں ایک اشکال سامنے آیا کہ تمام پیغمبروں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری پر ان پر ایمان لانے اور ان کی مدد کرنے کا وعدہ کیا تھا، جبکہ سارے کے سارے پیغمبر آپؐ کی تشریف آوری سے پہلے اپنا اپنا زمانۂ نبوت پورا کر کے واپس جا چکے تھے تو یہ ایمان اور نصرت کا وعدہ کیسے اور کب پورا ہوا؟ اس پر مفسرین کرامؒ فرماتے ہیں کہ ایمان والا وعدہ تو معراج کی رات پورا کرایا گیا کہ تمام انبیاء کرامؑ کو بیت المقدس میں جمع کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نماز کے لیے کھڑا کر دیا، جس سے ایمان لانے کا وعدہ پورا ہو گیا۔ جبکہ نصرت کے وعدہ کی تکمیل کے لیے حضرات انبیاء علیہم السلام کے نمائندہ کے طور پر سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ رکھا ہوا ہے، وہ قیامت سے پہلے دوبارہ تشریف لائیں گے اور امام مہدی علیہ السلام کے ساتھ مل کر اسلامی خلافت کو پوری دنیا میں بحال کرائیں گے۔ یہ ان کی مدد ہو گی جو تمام انبیاء کرامؑ کی طرف سے ہو گی اور اس طرح ”ولتنصرنہ“ کا وعدہ بھی پورا ہو جائے گا۔ اس کی تفصیل حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کی کتاب ”مشکلات القرآن“ میں دیکھی جا سکتی ہے۔

سفر معراج کی ایک اہم بات نماز کا فرض ہونا ہے، لیکن اس کے ساتھ اس سفر میں ایک اور بات کی تلقین بھی ہوئی ہے جسے معراج کے سبق اور پیغام کے حوالہ سے عرض کرنا چاہتا ہوں۔ امام ترمذیؒ نے ایک روایت میں ذکر کیا ہے کہ معراج کے سفر میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ جنت میں بھی ہوئی۔ اس ملاقات کے اختتام پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رخصت کرتے ہوئے حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا کہ اپنی امت کو میری طرف سے سلام کہہ دیں اور یہ پیغام دے دیں کہ ”ان الجنۃ أرضھا طيب و ماءھا عذب“ کہ جنت کی زمین عمدہ ہے اور پانی میٹھا ہے، یعنی یہ جگہ رہائش کے لیے اچھی ہے۔ اس لیے کہ جس جگہ بستی آباد کرنی ہو یا کالونی بسانی ہو سب سے پہلے یہی دیکھتے ہیں کہ زمین کیسی ہے اور پانی کیسا ہے۔ ہمارے سائنس دان آج کل کائنات کے سیاروں میں یہی چیزیں تلاش کر رہے ہیں کہ رہنے کے قابل کونسا سیارہ ہے۔ ایک عرصہ چاند کی خاک چھاننے کے بعد اب ہم نے مریخ کا رخ کر رکھا ہے اور وہاں آبادی کے امکانات کا جائزہ لے رہے ہیں اور مٹی و پانی وغیرہ چیک کر رہے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے ہمیں چودہ سو برس قبل یہ بات بتا دی تھی کہ رہنے کی بہترین جگہ جنت ہے، اسی کی تیاری کرو۔

حضرت ابراہیمؑ نے یہ بتا کر کہ جنت کی زمین عمدہ اور پانی میٹھا ہے، ایک اور بات بھی سمجھا دی جسے میں وارننگ سے تعبیر کیا کرتا ہوں کہ ”ولكنھا قيعان“ وہ چٹیل اور صاف میدان ہے جسے خود آباد کرنا ہو گا، یعنی جنت کا پلاٹ خالی میدان ہو گا جسے آباد کرنے کے لیے دنیا میں محنت کرنا ہو گی۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ قبر میں سوال و جواب کے بعد جس نے جنت میں جانا ہو، اس کے لیے پہلے دوزخ کی کھڑکی کھولی جاتی ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ اگر تم ایمان اور عمل صالح کی زندگی نہ گزارتے تو تمہارا ٹھکانہ یہ ہوتا، اس کے بعد یہ کھڑکی بند کر کے اس کے لیے جنت کی کھڑکی کھولی جاتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف والے کے لیے پہلے جنت کی کھڑکی کھولی جاتی ہے کہ اگر تم دنیا کی زندگی ایمان کے ساتھ گزارتے تو تمہارے لیے یہ جگہ تھی، لیکن اب یہ کھڑکی بند کی جا رہی ہے اور دوزخ کی کھڑکی کھولی جا رہی ہے۔ اس حدیث کی بنیاد پر میں یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ ہر انسان کے لیے جنت اور دوزخ دونوں جگہ پلاٹ مخصوص کر دیے جاتے ہیں، پھر اسے دنیا میں بھیج دیا جاتا ہے کہ تمہاری مرضی ہے کون سا پلاٹ آباد کرتے ہو اور کونسا کینسل کرا دیتے ہو۔

سیدنا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ فرما کر کہ جنت کا پلاٹ خالی ہے، اس کی آبادی کا طریقہ بھی بتا دیا کہ ”غرسھا سبحان اللہ والحمد للہ وغير ذلک“ کہ اس میں شجر کاری دنیا میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے سے ہو گی۔ سبحان اللہ، الحمد للہ اور اللہ تعالیٰ کے دیگر اذکار کرو گے تو اس سے جنت میں درخت لگیں گے اور آباد کاری ہو گی۔

ایک اور حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے کہ تم دنیا میں سبحان اللہ کہتے ہو تو جنت میں ایک درخت لگ جاتا ہے اور یہی بات حضرت ابراہیمؑ نے فرمائی کہ جنت میں تمہاری جگہ تو مخصوص ہے، لیکن اس کی آباد کاری اور اسے پکا کرنے کے لیے تمہیں دنیا میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق جوڑ کر رکھنا ہو گا اور اپنے مالک کا بار بار ذکر کرنا ہو گا۔

چنانچہ معراج کا ہمارے لیے سبق جہاں نماز ہے، وہاں ذکر الٰہی اور اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق زندگی گزارنا بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter