روزنامہ پاکستان لاہور ۲۶ جنوری ۲۰۰۶ء میں شائع شدہ ایک خبر کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان نے شراب پینے کی بنیاد پر برطرف ہونے والے پولیس کانسٹیبل کی اپیل نمٹاتے ہوئے اس کی برطرفی کے حکم کو اس کی جبری ریٹائرمنٹ میں تبدیل کر دیا ہے۔ فاضل جج نے قرار دیا ہے کہ کسی شرابی کو محکمہ پولیس میں رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اپیل کنندہ نے پندرہ سال تک محکمہ پولیس میں نوکری کی تھی، اس کی طویل نوکری کو پیش نظر رکھ کر عدالت اس کی برطرفی کو جبری ریٹائرمنٹ میں تبدیل کر رہی ہے۔ عباس نامی کانسٹیبل کو شراب پینے کے الزام میں برطرف کر دیا گیا تھا۔ پنجاب سروسز ٹریبونل نے اس کی اپیل مسترد کر دی تھی، جس کے خلاف اس نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا تھا۔
شراب کا اطلاق ہر اس مشروب پر کیا جاتا ہے جو انسان کے دماغ میں نشہ کی کیفیت پیدا کر کے اسے مختل کر دیتا ہے اور نشہ کی حالت میں انسان کا اپنے حواس پر پوری طرح کنٹرول نہیں رہتا، اس لیے اسے حرام قرار دیا گیا ہے اور اس پر کوڑوں کی سزا مقرر کی گئی ہے۔ بخاری شریف میں روایت ہے کہ جب جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو یمن کے ایک حصے کا عامل بنا کر بھیجا تو انہوں نے یمن میں استعمال ہونے والے بعض مشروبات کے بارے میں دریافت کیا۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر فرمایا کہ ”کل مسکر حرام“ (نشہ دینے والی ہر چیز حرام ہے)۔ شراب کی حرمت کا قرآن کریم میں بھی واضح طور پر اعلان کیا گیا ہے اور سورۃ المائدۃ کی آیت ۹۰ میں اسے گندگی اور شیطانی عمل قرار دے کر اس کے استعمال کی ممانعت کی گئی ہے۔
قطعی حرمت کے اعلان اور کوڑوں کی سزا کے باوجود شراب نوشی ہر دور میں ہوتی رہی ہے اور منچلے حضرات اس کے لیے مختلف حیلے بہانے تراشتے رہے ہیں۔ امام شاطبی رحمہ اللہ نے ”الاعتصام“ میں اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ نقل کیا ہے کہ دمشق میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی حضرت یزید بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی گورنری کے دور میں کچھ لوگ شراب نوشی کرتے ہوئے پکڑے گئے اور امیر یزید رضی اللہ عنہ کی عدالت میں پیش کیے گئے۔ انہوں نے اپنی شراب نوشی کے جواز میں قرآن کریم سے استدلال کیا اور کہا کہ قرآن کریم نے حرمت کے باوجود اہل ایمان کو شراب پینے کی اجازت دی ہے۔ ان کا استدلال سورۃ المائدۃ کی اس آیت کریمہ سے تھا جو شراب کی حرمت کے بعد والی ہے اور اس میں کہا گیا ہے کہ ”جو لوگ ایمان لائے اور عمل صالح اور تقویٰ پر کاربند رہے، ان پر کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ شراب پی لیں۔“ اس آیت کریمہ کا ظاہری مفہوم یہی ہے اور انہوں نے اس کی بنیاد پر کہا کہ اگر ہم نے شراب پی ہے تو کوئی جرم نہیں کیا۔
امیر یزید رضی اللہ عنہ نے یہ مقدمہ مدینہ منورہ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیج دیا کہ اس کا فیصلہ وہ فرمائیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر اصحاب شوریٰ کو طلب کر لیا اور ان کے سامنے مسئلہ رکھا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا کہ ”یہ لوگ دوہرے جرم کے مرتکب ہوئے ہیں، انہوں نے قرآن کریم کی غلط تشریح کی ہے جو زندقہ ہے۔ اگر اس سے وہ توبہ نہ کریں تو ان کی سزا قتل ہے اور اگر قرآن کریم کی من مانی تشریح سے توبہ کر لیں تو انہیں شراب نوشی پر کوڑوں کی سزا دی جائے۔“
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اس رائے پر ان ملزموں سے توبہ کے لیے کہا اور انہوں نے قرآن کریم کی من مانی تشریح سے توبہ کر کے شراب کی قطعی حرمت کا اعتراف کیا، جس پر انہیں کوڑوں کی سزا دی گئی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس ارشاد گرامی کا مطلب یہ تھا کہ جس آیت کریمہ میں اہل ایمان اور اہل تقویٰ کے شراب پینے کو حرج قرار نہ دینے کی بات کی گئی ہے، وہ مسلمانوں کے لیے شراب نوشی کے جواز کی دلیل نہیں ہے، بلکہ یہ ان لوگوں کے بارے میں ہے جو شراب کی حرمت کے اعلان سے قبل شراب پیتے رہے ہیں اور اسی حالت میں دنیا سے چلے گئے تھے۔ جب قرآن کریم میں شراب کو گندگی اور شیطانی عمل قرار دیا گیا تو بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ ”ہمارے جو مسلمان بھائی اس سے قبل شراب پیتے تھے اور اسی حالت میں ان کی وفات ہو گئی ہے ان کا کیا بنے گا؟“ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ”جو لوگ اہل ایمان تھے اور عمل صالح اور تقویٰ پر کاربند رہے ہیں، وہ اگر حرمت کے اعلان سے قبل شراب پیتے رہے ہیں تو ان پر کوئی حرج اور گناہ نہیں ہے۔“ مگر دمشق کے مذکورہ افراد نے اسے مستقبل میں شراب نوشی کے جواز کی دلیل بنا لیا تھا جو قرآن کریم کی من مانی تشریح تھی اور اسے زندقہ قرار دے کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے توبہ نہ کرنے کی صورت میں ان کے قتل کی رائے دی تھی۔
پاکستان کا قیام اسلام کے نام پر عمل میں آیا تھا اور اس میں قرآن کریم اور سنت نبویہؐ کے مطابق اسلامی احکام کے عملی نفاذ کی ضمانت دی گئی تھی، اس لیے پاکستان بننے کے فوراً بعد سے شراب کی ممانعت کا اعلان ہو جانا چاہیے تھا، مگر ایسا نہ ہو سکا۔ بلکہ ۱۹۷۲ء میں حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ نے صوبہ سرحد میں وزیر اعلیٰ کے منصب کا حلف اٹھانے کے بعد جب صوبے میں شراب بنانے، بیچنے اور پینے کو ممنوع قرار دے کر اسے قابلِ تعزیر جرائم کی فہرست میں شامل کرنے کا اعلان کیا تو وفاقی حکومت نے اس میں مسلسل دخل اندازی کی۔ حضرت مولانا مفتی محمود رحمہ اللہ نے جمعیت علماء اسلام پاکستان کی مجلس شوریٰ میں اس کی تفصیل بیان کی تھی، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ جب مفتی صاحبؒ نے صوبہ سرحد میں شراب بنانے، بیچنے، پینے اور پلانے کو قانوناً ممنوع قرار دیا تو وفاقی حکومت نے، جو جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی سربراہی میں کام کر رہی تھی، صوبائی حکومت کو خط لکھا کہ ”شراب پر پابندی کی وجہ سے صوبائی حکومت کو شراب کی مد سے جو آمدنی ٹیکس وغیرہ کی صورت میں ہوتی تھی، وہ رک جائے گی اور صوبائی بجٹ میں خسارہ ہو گا، جسے پورا کرنے کے لیے وفاقی حکومت صوبائی حکومت کی کوئی مدد نہیں کرے گی۔“ صوبائی حکومت نے اس کا جواب دیا کہ ”کوئی بات نہیں، ہم اپنے اخراجات میں کمی کر کے یہ خسارہ پورا کر لیں گے۔“
اس کے بعد وفاقی حکومت کا خط آیا کہ ”شراب مسلمانوں کے لیے حرام ہے، مگر غیر مسلم شراب پیتے ہیں۔ اس لیے صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ صوبہ سرحد میں رہنے والے غیر مسلموں کے لیے شراب کی تیاری اور فروخت کا اہتمام کرے۔“ مفتی صاحب کی حکومت نے اس خط کا جواب دیا کہ ”غیر مسلموں کو اگر وہ شراب کو جائز سمجھتے ہیں تو پینے کا حق ہے اور انہیں اس پر سزا نہیں دی جائے گی، لیکن انہیں شراب مہیا کرنا ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ اس لیے ہم غیر مسلموں کے نام پر شراب کی کوئی دکان کھولنے کی اجازت نہیں دیں گے۔“
اس کے بعد وفاقی حکومت کا تیسرا خط آ گیا کہ ”بعض بیماریوں میں شراب بطور علاج استعمال ہوتی ہے، اس لیے صوبائی حکومت کو چاہیے کہ وہ اسپتالوں میں شراب مہیا کرنے کا انتظام کرے۔“ حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے فرمایا کہ اس پر انہوں صوبائی ہیلتھ سیکرٹری کی سربراہی میں سینئر ڈاکٹروں کا ایک بورڈ قائم کر دیا، جو ایسی بیماریوں کی نشاندہی کرے جو مہلک ہوں اور شراب کے علاوہ ان کا کوئی اور علاج نہ ہو۔ مفتی صاحبؒ کا کہنا تھا کہ اضطرار کی حالت میں شریعت نے حرام کے استعمال کی اجازت دی ہے، لیکن اضطرار کی صورت تب بنتی ہے جب جان کا خطرہ ہو اور اسے بچانے کے لیے اس حرام کا اور کوئی متبادل موجود نہ ہو۔ اس لیے وہ اس بات کے لیے تیار تھے کہ اگر واقعتاً کوئی ایسی بیماری ہو، جو جان لیوا ہو اور مریض کی جان بچانے کے لیے شراب کے علاوہ کوئی متبادل چیز نہ ہو تو وہ اس مقصد کے لیے شراب کے استعمال کی اجازت دے دیں گے، مگر ڈاکٹروں کی رپورٹ تھی کہ سرے سے ایسی کوئی بیماری ہی نہیں ہے جو مہلک ہو اور شراب کے علاوہ اس کا کوئی اور علاج نہ ہو۔
شراب کے مسئلہ پر وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کی یہ آنکھ مچولی شاید مزید آگے بڑھتی، مگر حضرت مفتی صاحبؒ نے صوبہ بلوچستان کی منتخب حکومت کی برطرفی پر احتجاج کرتے ہوئے وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دے دیا اور یہ مکالمہ یہیں رک گیا۔
اس سلسلے میں ایک دلچسپ واقعہ یہ ہوا کہ ۱۹۹۰ء کے عشرے میں پنجاب اسمبلی کے ایک رکن سردار الطاف حسین نے صوبائی اسمبلی میں قرارداد پیش کی کہ ”صوبے میں شراب بنانے، بیچنے اور پینے پر پابندی عائد کی جائے۔“ اس پر صوبائی وزیر قانون نے یہ موقف اختیار کیا کہ ”صوبے میں شراب بنانے کا ایک ہی کارخانہ ہے جو غیر مسلم کا ہے۔ چونکہ دستورِ پاکستان میں تمام شہریوں کو کاروبار کی مکمل آزادی دی گئی ہے اور غیر مسلموں کے نزدیک شراب حرام نہیں ہے، اس لیے ان کے لیے شراب بنانے اور بیچنے پر پابندی سے ان کا یہ دستوری حق متاثر ہو گا، لہٰذا وہ اس قرارداد کی حمایت نہیں کر سکتے۔“ اس پر پنجاب اسمبلی کے مسیحی اقلیتی رکن جناب سی ایم قیصر پوائنٹ آف آرڈر پر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ ”اقلیتوں کے نام پر شراب کا یہ کاروبار روا نہ رکھا جائے، کیونکہ وہ بھی شراب کو حرام سمجھتے ہیں اور مسیحی مذہب میں بھی شراب کی ممانعت کی گئی ہے۔“ جناب سی ایم قیصر نے کہا کہ صرف عیاش طبقہ اقلیتوں کے نام پر پرمٹ بنوانے کے لیے یہ چور دروازہ قائم رکھنا چاہتا ہے، اس لیے وہ شراب کی تیاری اور فروخت وغیرہ پر پابندی کی قرارداد کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔
اس پس منظر میں عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ خوش آئند ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ کسی شرابی کو پولیس کے محکمہ میں رہنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ہم اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں، مگر اپنے اس احساس کا اظہار ضروری سمجھتے ہیں کہ یہ فیصلہ ایک غریب پولیس کانسٹیبل کے حوالے سے ہے، جو شراب نوشی کے الزام میں برطرف کر دیا گیا ہے، جبکہ شراب نوشی کا سلسلہ محکمہ پولیس اور غریب کانسٹیبل کی سطح تک محدود نہیں ہے، بلکہ وہ تو شاید گھٹیا قسم کی دیسی شراب کا عادی ہو، اصل شراب تو بہت اعلیٰ سطح پر پی جاتی ہے، بڑے اہتمام اور پروٹوکول کے ساتھ پی جاتی ہے، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں اور عدالت عظمیٰ کے اردگرد بڑے بڑے ہوٹلوں اور بلڈنگوں میں پی جاتی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے پاس ازخود نوٹس لینے کا اختیار موجود ہے۔ اگر شراب نوشی سے محکمہ پولیس کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے تو دوسرے محکموں کے ملازمین اور افسران کی شراب نوشی یقیناً اس سے مختلف کوئی نتیجہ نہیں دیتی ہو گی، اس لیے اگر عدالت عظمیٰ کے کوئی فاضل جج پورے ملک میں نہ سہی، صرف وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شراب خانہ خراب کی تباہ کاریوں کا جائزہ لینے کا عزم کر لیں تو اس سے ملک و قوم کا بہت فائدہ ہو گا اور فاضل حج کی عاقبت بھی سنورے گی کہ یہ واقعی بہت بڑی نیکی اور ثواب کا کام ہے۔