برطانیہ کے ولی عہد شہزادہ چارلس نے کچھ عرصہ قبل ایک تقریب میں اپنے دانشوروں کو یہ مشورہ دیا تھا کہ:
’’اسلام کا مطالعہ کریں اور بطور نظام زندگی اور متبادل سسٹم اسے اسٹڈی کریں۔ لیکن اسلام کا مطالعہ کرتے ہوئے دو باتوں کی طرف مت دیکھیں، ایک یہ کہ ہمارے بڑوں نے اسلام کے بارے میں کیا کچھ کہا ہے، دوسرا یہ کہ اس وقت مسلمان کیسے نظر آرہے ہیں۔‘‘
برطانیہ ہی کے ایک ممبر پارلیمنٹ جم مارشل نے چند سال پہلے لیسٹر میں ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
’’جس اسلام سے ہمارے بڑوں نے متعارف کرایا وہ اور ہے، جو اسلام ہم کتابوں میں پڑھتے ہیں وہ اور ہے، جبکہ دنیا میں اس وقت موجودہ مسلمانوں کی زندگیوں میں جو اسلام نظر آتا ہے وہ ان دونوں سے مختلف ہے۔‘‘
اصل بات یہ ہے کہ آج اسلام دنیا کی ضرورت بن گیا ہے اور مروجہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی سسٹم کی ناکامی کے بعد اب آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی طرف رجوع کیے بغیر نسل انسانی کے پاس کوئی چارہ کار نہیں رہا، جبکہ آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی اگر محفوظ حالت میں کسی مذہب کے پاس موجود ہیں تو وہ صرف اسلام ہے، لیکن کنفیوژن اس بات نے پیدا کر رکھا ہے کہ کتابوں میں جو اسلام ملتا ہے اس کا موجودہ مسلمانوں کی زندگیوں اور معاملات سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا۔ دنیا کو ضرورت دراصل کتابوں والے اسلام کی ہے، خلفاء راشدین والے اسلام کی ہے، ہماری زندگیوں والے اسلام کی نہیں، کیونکہ ہمارا یہ برائے نام اسلام تو ہمیں مشکلات و مسائل میں سہارا نہیں دے رہا، دنیائے انسانیت کے مسائل کیا حل کرے گا؟
برصغیر کی تحریک آزادی کے عظیم راہنما مولانا عبید اللہ سندھیؒ جب ماسکو گئے اور کمیونسٹ لیڈروں سے اسلام کے فلسفۂ حیات اور نظام زندگی پر بات کی تو ان سے سوال کیا گیا کہ کیا یہ فلسفہ اور سسٹم دنیا میں کسی جگہ عملاً رائج بھی ہے؟ مولانا سندھیؒ کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا، اور یہی بات اسلام کے فروغ اور دنیا میں اس کے دوبارہ غلبہ کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔
اسلام نام ہے سادگی، قناعت اور جفاکشی کا، اور یہ صرف تصوف کے موضوعات نہیں بلکہ سیاست کے بنیادی ستون بھی ہیں۔ سادگی، قناعت اور جفاکشی کروڑوں روپے کی لاگت سے بنے ہوئے ایوانوں میں لاکھوں روپے کے خرچ سے اجتماعات کر کے ان عنوانات پر دلکش تقریریں کرنے کا نام نہیں ہے۔ بلکہ یہ ان اصولوں کو ذاتی اور اجتماعی زندگی میں عملاً نافذ کرنے کا نام ہے جس کا بہترین نمونہ خلفاء راشدینؓ، حضرت عمر بن عبد العزیز یا ان کے بعد سلطان صلاح الدین ایوبی، سلطان محی الدین اورنگزیب عالمگیر اور سلطان ٹیپو رحمہم اللہ تعالٰی جیسے نیک دل حکمران ہیں، اور سیاست و حکومت کا یہی انداز ہے جس کی آج کی دنیا کو ضرورت ہے۔
آج کے دانشور کتابوں میں اس طرز سیاست اور طرز حکومت کو پڑھ کر دنیا کے جغرافیے میں وہ خطے تلاش کرنے لگتے ہیں جہاں اس کی جھلک نظر آتی ہو مگر بدقسمتی سے دنیا کا کوئی مسلمان ملک اس کی جھلک پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ ایک عرصہ کے بعد افغانستان میں طالبان کی حکومت نے سادگی، قناعت اور جفاکشی کے ان سنہری اصولوں کو اپنی حکومت اور سیاست کی بنیاد بنا کر دنیا کو کتابوں میں پائے جانے والے خالص اسلام کا عملی نمونہ دکھانا شروع کیا تھا، اس دوران مجھے کابل، قندھار اور جلال آباد میں طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد جانے کا اتفاق ہوا تھا، ان کا طرز بود و باش اور لوگوں کے ساتھ معاملات کا انداز دیکھا ، سچی بات یہ ہے کہ کتابوں والے اسلام کا عملی نقشہ آنکھوں کے سامنے آگیا تھا مگر بوجوہ اس کا تسلسل قائم نہ رہ سکا۔
ہم تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ حضرت عمرؓ جب بیت المقدس کی چابیاں وصول کرنے کے لیے بذات خود تشریف لے گئے، اس وقت کیفیت یہ تھی کہ کپڑوں پر پیوند لگے ہوئے تھے، ان کا غلام اونٹ پر سوار تھا اور نکیل امیر المومنین کے ہاتھ میں تھی۔ اس وقت تاریخ نے ایک اور منظر بھی دیکھا تھا کہ عیسائی علماء ہاتھوں میں پرانی کتابیں اٹھائے ان میں سے بیت المقدس کے فاتح کی نشانیاں پڑھتے جاتے تھے اور ایک ایک نشانی کو حضرت عمرؓ میں دیکھتے جاتے تھے۔ اور بالآخر سب کے سب پکار اٹھے تھے کہ بیت المقدس کی چابیاں اس کے حوالے کر دو، ہماری کتابوں کے مطابق بیت المقدس کا فاتح یہی ہے۔ آج پھر بیت المقدس فاتح کا منتظر ہے اور وہ فاتح اسی طرز کا کوئی درویش ہوگا جو دنیا کے پروٹوکول اور پرسٹیج کے مصنوعی ضابطوں کو رد کرتا ہوا سادگی، قناعت اور جفاکشی کے ساتھ آگے بڑھے گا اور بیت المقدس پر ایک بار پھر اسلام کا ہلالی پرچم لہرائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بحمد اللہ تعالی تین دن مدینہ منورہ میں گزار کر آج ۲۱ رمضان المبارک کو مکہ مکرمہ جا رہا ہوں جہاں عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے بعد رابطہ عالم اسلامی کی کانفرنس میں شریک ہوں گا جو ۲۲ تا ۲۴ رمضان المبارک کو منعقد ہو رہی ہے اور جمعرات کو پاکستان واپسی ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالی۔ مدینہ منورہ میں اپنے ایک عزیز شاگرد مولانا قاری ابوبکر یحییٰ فاضل نصرۃ العلوم کا مہمان رہا جو گزشتہ اٹھارہ برس سے جبلِ احد کے دامن میں امامت و تدریس کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں، انہوں نے بہت خدمت کی، اللہ تعالی جزائے خیر سے نوازے، آمین۔
پاکستان شریعت کونسل کے امیر حضرت مولانا فداء الرحمن درخواستی اپنے فرزند مولانا قاری رشید احمد درخواستی کے ہمراہ ان دنوں مدینہ منورہ میں قیام پذیر ہیں ۔گزشتہ روز ان کی افطاری کا لطف اٹھایا اور مختلف امور پر تبادلہ خیالات ہوا۔ اس سے پہلے روز حضرت مولانا ڈاکٹر محمد الیاس فیصل کے ہاں افطاری پر حاضری ہوئی جو ایک عرصے سے اس شہرِ مقدّس میں مقیم ہیں اور معذوری کے باعث مسلسل وہیل چیئر پر ہونے کے باوجود تعلیم و تربیت اور ابلاغ و دعوت کے محاذ پر قابل رشک جدوجہد میں ہر وقت مصروف رہتے ہیں، اللہ پاک قبولیت سے نوازیں آمین ۔
مسجد نبوی میں جمعۃ المبارک کی نماز کی سعادت حاصل ہوئی اور روضہ اطہر علی صاحبہا التحیۃ والسلام پر ہدیہ سلام پیش کرنے کے ساتھ ساتھ دو روز تک نماز تراویح میں شرکت کا شرف بھی پایا جو یہاں حاضری کا اہم سرمایہ اور مقصود ہوتا ہے ۔
سعودیہ میں یہ حاضری رابطہ عالم اسلامی کی دعوت پر ہوئی جو عالمِ اسلام کا ایک باوقار فورم اور ملت اسلامیہ کی وحدت کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ علمی و فکری رہنمائی کا ادارہ ہے، اللہ تعالی رابطہ کی قیادت کو جزائے خیر سے بہرہ ور فرمائیں اور اس کی مساعی کو ملت اسلامیہ کی بہتری اور ترقی کا ذریعہ بنائیں اور مذکورہ کانفرنس کو کامیابی اور ثمرات سے بہرہ ور فرمائیں۔ کانفرنس کے حوالے سے اپنے تاثرات و مشاہدات حسبِ معمول قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کروں گا ، ان شاء اللہ تعالٰی۔ سرِدست سب دوستوں سے سلام مسنون کے ساتھ دعاؤں میں شریک رکھنے کی درخواست ہے۔