روزنامہ اوصاف لاہور ۲۴ اکتوبر ۲۰۲۰ء کی خبر کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس محترم جسٹس گلزار احمد نے ایک کیس کی سماعت کے دوران فرمایا ہے کہ حکمرانوں نے قومی خزانے کو ذاتی رقم سمجھ کر بانٹا ہے اور اس وجہ سے حکومت پاکستان مالی مشکلات سے دوچار ہے۔ چیف جسٹس محترم کا یہ ارشاد بظاہر ایک تاثراتی جملہ ہے مگر اس کے پیچھے ہماری پوری قومی تاریخ جھلک رہی ہے۔ پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم اور ان کے چند رفقاء کے بعد ہمارے حکومتی سیٹ اپ میں جو طبقے اور افراد بھی آئے ہیں چند مستثنیات کے ساتھ کم و بیش سبھی حکمرانوں کا طرز عمل اسی قسم کا نظر آتا ہے، اور صرف حکمران نہیں بلکہ اثر و رسوخ رکھنے والے تمام طبقات میں یہی رجحان غالب چلا آرہا ہے۔
ملکی وسائل اور قومی خزانہ بادشاہی نظام میں شاہی خاندان کی ملکیت اور جاگیر تصور ہوتا ہے جبکہ جمہوری نظام میں اسے منتخب پارلیمنٹ اور حکومت کے اختیار اور صوابدید کے دائرے میں سمجھا جاتا ہے۔ اس سہولت کے ساتھ کہ قومی خزانے کو بھرنے اور اسے استعمال کرنے کے لیے قواعد و ضوابط اور جواز اور عدم جواز کا تعین بھی اسی پارلیمنٹ کے اختیار میں ہوتا ہے جس نے اس کے استعمال کے فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ متعینہ قواعد و احکام کی لازمی پیروی صرف اسلام کے نظام خلافت میں ضروری ہوتی ہے کہ جن حکمران شخصیات یا گروہوں نے وسائل اور خزانے کے حصول اور استعمال کا نظام وضع کرنا ہے وہ قرآن و سنت کے ایسے احکام کے پابند ہیں جن میں ترمیم اور ردوبدل کا انہیں خود کوئی اختیار نہیں ہے۔ اس لیے یہ بات بلاخوف تردید کہی جا سکتی ہے کہ دنیا میں دلیل اور قانون کی حکومت صرف ایک صورت میں قائم ہو سکتی ہے اور وہ اسلام کا نظام خلافت ہے، کیونکہ جس قانون اور ضابطے میں ترمیم و تبدیلی کا اختیار خود قانون پر عمل کا اہتمام کرنے والے شخص یا نظام (بادشاہ یا پارلیمنٹ) کو حاصل ہو اسے دلیل کی حکومت قرار دینا بہت مشکل ہے۔ بادشاہی نظام میں تو کسی بازپرس یا وضاحت طلبی کا تصور ہی نہیں ہوتا، جبکہ جمہوری نظام میں منتخب حکومتیں اور اسمبلیاں جب ضرورت پڑتی ہے قوانین و احکام میں ردوبدل کر لیتی ہیں اور وقتی مفادات کی خاطر کیے جانے والے اس ردوبدل کو دستوری اور قانونی جواز بھی فراہم ہوتا ہے۔
اس لیے قوانین و احکام کی بالادستی کے حوالہ سے ہمارے خیال میں بادشاہت اور جمہوریت میں اس کے سوا کوئی فرق نہیں ہے کہ بادشاہت میں شاہی خاندان جو اختیارات رکھتا ہے، جمہوریت میں وہی اختیارات منتخب افراد کے ایک متعین گروہ کو حاصل ہو جاتے ہیں، خواہ وہ کسی بھی حوالہ یا کسی بھی ذریعہ سے اس گروہ میں شامل ہو گیا ہو۔ چنانچہ ہماری قومی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ ریاستی وسائل اور قومی خزانے پر کنٹرول تو بہرحال حکمران طبقات اور شخصیات کا ہی ہوتا ہے ، لیکن اگر کہیں قانون ان کے کسی معاملہ میں رکاوٹ بنتا ہے تو اس میں آسانی کے ساتھ ترمیم کر لی جاتی ہے، جبکہ اگر وقتی طور پر قانون و حکم کی خلاف ورزی کرنا پڑ گئی ہے تو بعد میں ترمیم کر کے اس قانون کو حکمران گروہ کی مرضی کے مطابق ڈھال لیا جاتا ہے۔ اس لیے چیف جسٹس محترم کا یہ ارشاد بجا ہے کہ قومی خزانے کو بہت سے حکمران ذاتی صوابدید پر استعمال کرتے آرہے ہیں جس کی وجہ سے ہر حکومت کو مالی مشکلات و مسائل کا سامنا رہتا ہے۔
پاکستان میں وسائل کی کمی نہیں ہے، یہ وسائل سے مالامال ملک ہے، مسئلہ ان وسائل کی صحیح تقسیم اور درست استعمال کا ہے جسے ہم آج تک صحیح ٹریک پر نہیں لا سکے اور عالمی مالیاتی اداروں کے حصار میں چیخ و پکار کرتے رہنے پر مجبور ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح مرحوم نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر یہ بات آن ریکارڈ کہی تھی کہ میں پاکستان کے معاشی نظام کو مغربی فلسفہ و سسٹم کی بنیاد پر نہیں بلکہ اسلام کے اصولوں اور ہدایات کے دائرے میں استوار دیکھنا چاہتا ہوں، بلکہ انہوں نے اسی خطاب میں ملک کے معاشی ماہرین کو ہدایت کی تھی کہ وہ ملک کے معاشی نظام کو اسلامی اصولوں کے مطابق تشکیل دینے کے لیے محنت کریں۔ مگر بانیٔ پاکستان یہ حسرت دل میں لیے اگلے جہاں رخصت ہو گئے اور ہم ابھی تک عالمی معاشی نظام کے گرد کولہو کے بیل کے گرد گھوم رہے ہیں، جس میں ہمارے گروہی، طبقاتی اور ذاتی مفادات کے مسلسل اضافے نے یہ صورتحال پیدا کر دی ہے کہ عدالت عظمیٰ کو کہنا پڑ گیا ہے کہ ملک کے معاشی مسائل کی بڑی وجہ قومی خزانے کی غلط تقسیم ہے۔
ہم چیف جسٹس محترم کے اس ارشاد کا خیر مقدم کرتے ہوئے گزارش کریں گے کہ وہ ملکی نظام معیشت کو قائد اعظمؒ کی ہدایت کے مطابق اسلامی اصولوں کے دائرے میں لانے کے لیے بھی کوئی پیشرفت فرمائیں، اللہ تعالیٰ ان کو اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔