روزنامہ نوائے وقت لاہور ۱۰ جولائی ۱۹۹۶ء کی ایک خبر کے مطابق فلپائن کے جنوبی علاقہ میں ایک مسلمان خاندان کے تین افراد میاں بیوی اور بھتیجی کے قتل کے بعد علاقہ میں مسلم عیسائی تصادم کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے اور عیسائی آبادی نے مورو میں مسلمانوں کے محاذِ آزادی اور فلپائنی حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے کی کھلم کھل مخالفت شروع کر دی ہے۔
مورو، فلپائن کے جنوب میں مسلم اکثریت کا علاقہ ہے جہاں کے مسلمان ایک عرصہ سے آزادی اور خودمختاری کے لیے جنگ لڑ رہے ہیں اور ’’مورو مسلم محاذِ آزادی‘‘ کی قیادت میں مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں۔ مورو کے مسلمانوں کی اس مسلح جدوجہد کے باعث فلپائن کی حکومت نے ماضی میں کئی بار ان سے مذاکرات اور گفت و شنید کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ گزشتہ ماہ کے دوران حکومتِ فلپائن اور مورو مسلم محاذِ آزادی کے درمیان ایک معاہدے پر اتفاق ہوا ہے جس کے تحت مسلمانوں کو داخلی خودمختاری دی جائے گی اور مسلمان مسلح جدوجہد ختم کر دیں گے۔ اس معاہدے پر اگرچہ فلپائن کے مسلمانوں میں اختلافِ رائے موجود ہے اور ہفت روزہ ’’العالم الاسلامی‘‘ مکہ مکرمہ ۸ جولائی ۱۹۹۶ء کے مطابق فلپائنی مسلمانوں کے انقلابی لیڈر نور مسواری نے اس سمجھوتے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مسلمانوں کے لیے کمزور حکومت نہیں چاہتے بلکہ ایک مکمل اسلامی ریاست کے قیام کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن اس سمجھوتے کے خلاف سب سے زیادہ ردعمل کا اظہار خطہ کی عیسائی آبادی نے کیا ہے اور مذکورہ مسلمان خاندان کے قتل کو بھی اسی ردعمل کا اظہار سمجھا جا رہا ہے۔ جس کے بعد علاقہ میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان کشیدگی بڑھ گئی ہے اور خونریز تصادم کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ مورو کے مسلمان اس وقت سب سے زیادہ نازک صورتحال سے دوچار ہو گئے ہیں، ایک طرف فلپائنی حکومت کے ساتھ داخلی خودمختاری پر سمجھوتہ، دوسری طرف مسلمان جماعتوں کی طرف سے سمجھوتے کی مخالفت، اور تیسری طرف عیسائی آبادی کا پُرتشدد ردعمل ان کے لیے مشکلات پیدا کر رہا ہے۔ اور یہ موقع ہے کہ عالم اسلام کے لیڈر بالخصوص بین الاقوامی اسلامی تنظیمیں اور شخصیات اس معاملہ میں دلچسپی لیں اور مورو کے مسلمانوں کو باہمی اختلاف کا شکار ہونے سے بچانے کے ساتھ ساتھ عیسائی مسلم تصادم کو روکنے کے لیے بھی اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔