جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق نے مینار پاکستان گراؤنڈ لاہور میں منعقدہ جماعت اسلامی کے سالانہ اجتماع میں سودی نظام کے خلاف جنگ، جاگیرداری نظام کے خاتمے اور متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات کے لیے جدوجہد کو اپنی آئندہ حکمت عملی اور جماعتی کاوشوں کا بنیادی ہدف قرار دینے کا اعلان کیا ہے۔
یہ باتیں ملک کی اکثر دینی اور محب وطن سیاسی جماعتوں کے انتخابی منشوروں میں شامل چلی آ رہی ہیں۔ اگر ۱۹۷۰ء کے الیکشن کے موقع پر پیش کیے جانے والے انتخابی منشوروں کا جائزہ لیا جائے تو دیگر معاملات کے ساتھ یہ امور بھی ان میں نمایاں نظر آئیں گے، حتیٰ کہ جمعیت علمائے اسلام پاکستان کے منشور کو تو جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف نمایاں جنگ کے باعث بعض حلقوں نے ’’سوشلسٹ مولویوں‘‘ کا دستور قرار دینا بھی شروع کر دیا تھا۔ لیکن پاکستان کی تقسیم اور نئے پاکستان کے مسائل نے سیاسی اور دینی جماعتوں کی ترجیحات میں ایسی اکھاڑ پچھاڑ کی کہ سب کچھ الٹ پلٹ ہو کر رہ گیا۔ اس کے بعد سے میرے جیسے نظریاتی کارکنوں کا یہ انتظار حسرت میں ہی بدلتا چلا گیا کہ کوئی جماعت جاگیرداری نظام کے خاتمے کی بات کرے، کسی جماعت کی ترجیحات میں سرمایہ دارانہ نظام کے چنگل سے قوم کو نجات دلانے کی بات شامل ہو، کوئی جماعت ملک کے معاشی نظام کو سود کی لعنت سے پاک کرنے کا نعرۂ مستانہ بلند کرے، اور کوئی پارٹی متناسب نمائندگی کی بنیاد پر انتخابات کی راہ ہموار کرتی ہوئی دکھائی دے۔
اس وقت پاکستان کے نظام میں تبدیلی کا ایک تصور وہ ہے جو بین الاقوامی سیکولر حلقے پیش کر رہے ہیں اور ملک کی سیکولر لابیاں اور دانش ور اس کے لیے مضطرب اور بے چین ہیں، جبکہ نظام کی تبدیلی کا دوسرا تصور وہ ہے جو دستور پاکستان کے اسلامی تشخص کا تقاضا ہے، قیام پاکستان کے مقصد کی تکمیل کی طرف لے جانے والا ہے اور پاکستان کے عوام کی غالب اکثریت کی خواہش ہے۔ ملک کے عوام کی اکثریت کیا چاہتی ہے؟ اس سلسلے میں ایک قومی اخبار میں ۱۹؍ نومبر کو شائع ہونے والی یہ خبر عوامی رجحانات سے آگاہی کے لیے کافی ہوگی کہ:
’’اسٹیٹ بنک آف پاکستان اور ڈی ایف آئی ڈی کے تعاون سے ہونے والی ایک منفرد تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں اسلامی بینکاری کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے اور ۹۵ فیصد عوام کا مطالبہ ہے کہ سود پر پابندی ہونی چاہیے اور ساتھ ہی سود کے موجودہ سسٹم کو بھی ختم ہونا چاہیے۔ تحقیق میں اعتراف کیا گیا ہے کہ ملک میں اسلامی بینکاری کے موجودہ حجم سے ملک کی گھریلو اور کاروباری ضروریات پوری نہیں ہو سکتیں۔ رپورٹ میں اسٹیٹ بنک آف پاکستان سے کہا گیا ہے کہ وہ ایسی حکمت عملی مرتب کرے جس سے اسلامی بینکاری کی صنعت میں وسعت لائی جائے تاکہ اسلامی بینکاری سے متعلق مصنوعات میں اضافہ ہو سکے۔‘‘
سردست ہمیں اس سے بحث نہیں کہ یہ اسلامی بینکاری جو اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے انتظام کے تحت چلائی جا رہی ہے، کس حد تک اسلامی ہے اور اسے مکمل اسلامی بینکاری کی منزل تک لے جانے کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے، مگر یہ بات سب لوگوں کے لیے قابل توجہ ہے کہ ملک کے ۹۵ فیصد عوام سودی نظام سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ سود کی لعنت سے نجات حاصل کر کے ملک میں اسلامی بنیادوں پر معیشت کا نظام استوار کیا جائے۔ اسی سے باقی امور پر بھی عوامی خواہشات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور یہ واضح ہوتا ہے کہ عوام کی غالب اکثریت ملک کے نظام میں اس تبدیلی کی خواہش مند ہے جو دستورِ پاکستان کے اسلامی تشخص کی تکمیل کے لیے ہو اور قرآن و سنت کے احکام و قوانین کی مؤثر عمل داری کے لیے ہو۔
اس پس منظر میں ہم جناب سراج الحق کے اس اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں، مگر ہماری خواہش ہے کہ یہ نعرہ صرف ایک پارٹی کے سلوگن کے طور پر آگے نہ بڑھے، بلکہ ملک کی دینی اور سیاسی جماعتوں کو اعتماد میں لے کر ان تین اہداف کے لیے مشترکہ جدوجہد کا اہتمام کیا جائے۔ خاص طور پر جمعیت علمائے اسلام، جماعت اسلامی، جمعیت علمائے پاکستان اور مرکزی جمعیت اہل حدیث کے لیے تو ہم اسے بھولا ہوا سبق سمجھتے ہیں اور ان سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ ان مقاصد کے لیے تحریک ختم نبوت، تحریک تحفظ ناموس رسالت اور تحریک نظام مصطفی کی طرز پر قوم کو اجتماعی قیادت فراہم کریں تاکہ ملک کو فرسودہ نو آبادیاتی نظام سے نجات دلائی جا سکے اور قوم اپنی حقیقی منزل کی طرف پیشرفت کر سکے۔