جہاد کے حوالے سے اس پہلو پر کچھ گزارشات گزشتہ کالم میں پیش کی جا چکی ہیں کہ اگر مسلمانوں کی آبادی پر کافروں کا تسلط ہو جائے اور مسلمان اقتدار اعلیٰ سے محروم ہو جائیں تو اس تسلط سے نجات کے لیے کی جانے والی جدوجہد یا جہاد کسی حکومت کی اجازت کا محتاج نہیں ہے۔ اس لیے کہ کافروں کے تسلط اور مسلمانوں کے اقتدار اعلیٰ سے محروم ہو جانے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی کوئی حکومت وہاں موجود نہیں رہی۔ اور جب کسی حکومت کا وجود ہی نہیں ہے تو اجازت کس سے حاصل کی جائے گی یا جہاد کا حکومتی اعلان کون کرے گا؟ بلکہ اس صورت میں جہاد کو حکومت کے اعلان یا اجازت کے ساتھ مشروط کرنے کا معنیٰ یہ ہوگا کہ اس سمت کوئی کوشش ہی نہ کی جائے اور معروضی صورتحال پر قناعت کرتے ہوئے حالات کی از خود تبدیلی کا انتظار کیا جائے۔
اس ضمن میں ایک پہلو پر کچھ گزارش کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کی تیرہ سالہ زندگی میں جس صبر و استقامت کے ساتھ کفار کے مظالم کا سامنا کیا اور ہتھیار اٹھائے بغیر یکطرفہ جبر و تشدد کو برداشت کرتے ہوئے دعوت و تبلیغ کا کام جاری رکھا، آج کے وہ مسلمان بھی اس طرز عمل کو اپنانے کے پابند ہیں جو کافروں کے اقتدار اعلیٰ کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں اور ان کے لیے اسوۂ نبویؐ یہی ہے کہ وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور کے حالات کو سامنے رکھیں اور اسی طرح کافروں کے ظلم و ستم کو خاموشی کے ساتھ برداشت کرتے ہوئے حالات کی تبدیلی کا انتظار کریں۔
مگر ہمیں اس سے کلیۃً اتفاق نہیں ہے، اس لیے کہ مکہ مکرمہ میں اقتدار اعلیٰ مسلمانوں سے نہیں چھینا گیا تھا، بلکہ قریش کے پاس ہی چلا آ رہا تھا اور آبادی کی اکثریت بھی مسلمانوں پر نہیں، بلکہ پہلے سے اقتدار اعلیٰ رکھنے والے کافروں پر مشتمل تھی۔ اس لیے یہ بات کافروں کی اکثریت کے ملک میں ان کے زیر اقتدار رہنے والی مسلم اقلیت کے لیے تو یقیناً اسوہ ہے کہ وہ محاذ آرائی کا راستہ اختیار نہ کریں، اور اگر کافر اکثریت ان کے ساتھ زیادتی کا رویہ بھی رکھے تو وہ جواب دینے کی بجائے صبر و استقامت کا مظاہرہ کریں اور دعوت و تبلیغ کا کام بدستور کرتے رہیں۔ لیکن جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور انہیں اقتدار اعلیٰ سے محروم کر کے طاقت کے بل پر ان پر تسلط جما لیا گیا ہے، ان پر اس اصول کا اطلاق کرنا درست معلوم نہیں ہوتا۔
پھر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکی دور میں بھی صبر و استقامت کا یہ مفہوم ہمیں سیرت کے مطالعہ میں نہیں ملتا جو آج سمجھ لیا گیا ہے کہ حالات پر قناعت کر لی جائے اور صورتحال میں تبدیلی کی کسی عملی کوشش کے بغیر خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑتے ہوئے ان کی از خود تبدیلی کا انتظار کیا جائے۔ اس لیے کہ مکہ مکرمہ کے تیرہ سالہ دور میں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں صحابہ کرامؓ کو صبر و حوصلہ کے ساتھ کافروں کے مظالم برداشت کرنے کی تلقین کی ہے اور ہتھیار اٹھائے بغیر جبر و تشدد کو خاموشی کے ساتھ سہنے کا سبق دیا ہے، وہاں سیرت نبویؐ کے تیرہ سالہ مکی دور میں ان مساعی کا ذکر بھی جا بجا ملتا ہے جو ان مظالم سے بچنے اور متبادل اختیار کرنے کے لیے کی جاتی رہی ہیں
- حبشہ کی طرف مسلمانوں کی ہجرت انہی مساعی کا ایک حصہ تھی، جس کا مقصد یہ تھا کہ اگر ۔۔۔۔۔ اور مظالم و مصائب سے محفوظ رہنے کے لیے کوئی جائے پناہ میسر آ سکتی ہے تو اسے اختیار کیا جائے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس متبادل راستہ کو اختیار کیا۔
- پھر جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طائف تشریف لے جانا بھی اسی حکمت عملی کا حصہ تھا۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کے سرداروں کو خود دعوت دی۔ اس میں صرف اسلام کی دعوت نہیں تھی، بلکہ کفارِ مکہ کے مظالم کے خلاف شکایت اور ان کے خلاف پناہ دینے کی فرمائش بھی اس میں شامل تھی۔ جو اگرچہ رد کر دی گئی، بلکہ طائف کے سرداروں کے اشارے پر وہاں کے لونڈوں نے جناب نبی اکرمؐ پر پتھروں کی بارش کر کے انہیں لہولہان کر دیا، لیکن جناب نبی اکرمؐ کے طائف تشریف لے جانے اور وہاں کے سرداروں سے بات چیت کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ مکہ مکرمہ کے حالات پر قانع نہیں تھے، بلکہ متبادل صورتوں کی تلاش میں تھے۔
- مکہ مکرمہ میں ہی یمن سے حضرت طفیل بن عمرو دوسیؓ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے تھے۔ وہ یمن کے قبیلہ دوس کے سرداروں میں سے تھے۔ بخاری شریف کی روایت کے مطابق انہوں نے جناب نبی اکرمؐ کو پیشکش کی کہ اگر آپ وہاں تشریف لے چلیں تو قبیلہ دوس کا قلعہ اور نوجوان آپ کی حفاظت کے لیے حاضر ہیں۔ جس کے جواب میں جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ وہ اس سلسلہ میں وحی الٰہی کے منتظر ہیں کہ انہیں کس سمت جانے کا حکم ہوتا ہے اور ان کی متبادل قرار گاہ کا شرف کس خطے کو حاصل ہوتا ہے۔ لیکن حضرت طفیل بن عمرو دوسیؓ کی یہ پیشکش بتاتی ہے کہ ان دنوں اس مسئلہ پر سنجیدگی کے ساتھ غور ہو رہا تھا کہ مکہ مکرمہ کے کفار کے مظالم کو برداشت کرنا ہمیشہ کے لیے مسلمانوں کا مقدر نہیں ہے، بلکہ اس کی کوئی متبادل صورت اختیار کرنا بھی ضروری ہے۔
- مدینہ منورہ کی طرف جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت بھی کوئی اچانک بات نہیں تھی، بلکہ مسلسل دو سال تک یثرب کے قبائل اوس اور خزرج کے ساتھ جناب نبی اکرمؐ کی گفتگو چلتی رہی اور ان دونوں قبیلوں کے نمائندوں نے رسول اکرمؐ کے دست اقدس پر اسلام کی بیعت کے ساتھ ساتھ یہ عہد بھی کیا کہ یثرب کی طرف جناب نبی اکرمؐ کے معاون و مددگار ہوں گے، اور کفار قریش کے ساتھ مقابلہ میں ان کا ساتھ دیں گے، اور اسی معاہدہ کے تحت جناب نبی اکرمؐ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی۔
ہمارے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کے تیرہ سالہ دور میں محاذ آرائی سے ضرور گریز کیا، اور کفار کے مظالم کے جواب میں ہتھیار اٹھانے کی اجازت نہیں دی، لیکن اس کے ساتھ حالات پر قناعت کر کے خاموشی کے ساتھ ان کے از خود تبدیل ہو جانے کا انتظار بھی نہیں کیا، بلکہ حالات کو تبدیل کرنے کی مسلسل کوشش جاری رکھی، اور اس کی جو صورت بھی اس وقت کے حالات کے تناظر میں سامنے آئی، اسے اختیار کرنے سے گریز نہیں کیا۔
اس لیے جو دوست موجودہ حالات میں کافروں کے نرغہ میں گھرے ہوئے مسلمانوں اور عالمی استعمار کے شکنجے میں جکڑی ہوئی امت مسلمہ کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ وہ ہتھیار ڈال دے، صبر و رضا کے ساتھ کافروں کے تسلط کو تقدیر الٰہی سمجھ کر قبول کر لے، اور کوئی ایسی عسکری یا غیر عسکری صورت اختیار نہ کرے جس سے قابض و مسلط لوگوں کی پیشانی پر بل پڑتا ہو اور ان کے غصے میں اضافہ ہوتا ہو۔ ہمارے خیال میں وہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تیرہ سالہ مکی دور کے اسوہ کا غلط مطلب سمجھ رہے ہیں اور ان کا یہ استدلال اسوۂ نبویؐ سے مطابقت نہیں رکھتا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ کافروں کے ہاتھوں اقتدار اعلیٰ اور گلزاروں سے محروم ہو جانے والی مسلم اقوام کے لیے مکی دور کی بجائے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کے آخری ایام کا وہ اسوۂ حسنہ حالات سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے جب یمن میں بعینہٖ وہی صورتحال پیش آئی تھی جس کا آج کی مظلوم مسلم اقوام کو سامنا ہے۔ یمن جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں پوری اسلامی سلطنت میں شامل ہو چکا تھا، وہاں مسلمانوں کا اقتدار اعلیٰ قائم ہو گیا تھا اور جناب نبی اکرمؐ کے مقرر کردہ گورنر شہر بن بازانؓ کی قیادت میں اسلامی حکومت قائم تھی۔ جبکہ حضرت معاذ بن جبلؓ، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ اور حضرت علیؓ جیسے بزرگ وہاں مختلف علاقوں میں انتظامی و عدالتی خدمات پر مامور ہو چکے تھے، مگر اسود عنسی نامی ایک سردار نے نبوت کا دعویٰ کیا اور اچھی خاصی جمعیت اکٹھی کر کے دارالحکومت صنعاء پر دھاوا بول دیا۔ جناب نبی اکرمؐ کے مقرر کردہ گورنر شہر بن بازانؓ کو شہید کر دیا، ان کی بیوی ازاد کو زبردستی اپنے حرم میں شامل کر لیا، قلعہ پر قبضہ کر کے یمن پر اپنی حکومت کا اعلان کر دیا اور جناب نبی اکرمؐ کے مقرر کردہ بہت سے عمّال کو یمن سے نکال دیا۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپؐ نے یمن ہی سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کو اس صورتحال سے نمٹنے کی ذمہ داری سونپی۔ مختلف گروہ میدان عمل میں آئے، ان میں سے حضرت فیروز دیلمیؓ نے ایک چھاپہ مار دستے کے ہمراہ گوریلا کارروائی کر کے اسود عنسی کو اس کے قلعہ میں رات کی تاریکی میں قتل کر دیا اور قلعہ پر قبضہ کر کے صنعاء پر مسلمانوں کے اقتدار اعلیٰ کی دوبارہ بحالی کا اہتمام کیا۔ اس کارروائی کے لیے مدینہ منورہ کی طرف سے جہاد کا کوئی اعلان نہیں ہوا تھا اور نہ ہی فوج کشی کی گئی تھی، بلکہ اسی خطہ کے لوگوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اپنے حالات کی روشنی میں اس صورتحال سے نمٹیں۔ چنانچہ حضرت فیروزؓ نے جو شہید گورنر شہربن بازانؓ کی بیوہ ازاد کے کزن تھے، اسی خاتون کے ساتھ معروف معنوں میں سازباز کر کے گوریلا کارروائی کی اور ایک اسلامی خطے پر کافروں کے تسلط کا خاتمہ کر دیا۔
حضرت فیروز دیلمیؓ جب اس کامیابی کی خبر لے کر مدینہ منورہ پہنچے تو جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو چکا تھا، اس لیے وہ براہ راست یہ خوشخبری جناب نبی اکرمؐ تک نہ پہنچا سکے، مگر روایات کے مطابق جناب نبی اکرمؐ تک یہ خبر وحی کے ذریعے پہنچ گئی تھی اور وہ صحابہ کرامؓ کو بھی ’’فاز فیروز فاز فیروز فاز فیروز‘‘ (فیروز اپنے مشن میں کامیاب ہو گیا ہے) تین بار فرما کہ یہ خوشخبری سنا چکے تھے۔ یہ جناب نبی اکرمؐ کی حیات مبارکہ کے بالکل آخری ایام کی بات ہے، اس لیے اس بات کا شبہ بھی نہیں ہو سکتا کہ شاید اس کے بعد اس حوالے سے کوئی اور حکم آ گیا ہو جس نے اس کو منسوخ کر دیا ہو۔
اس پس منظر میں محترم دانشوروں سے ہماری مؤدبانہ گزارش ہے کہ وہ پرجوش نوجوانوں کو ہوش و تدبر سے کام لینے کا مشورہ ضرور دیں، اور حکمت عملی اور فہم و عقل کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین ضرور فرمائیں، اس میں ہم بھی ان کے ساتھ ہیں، لیکن یہ حکمت عملی کے حوالے سے ہو اور معروضی حالات کے تناظر میں بہتر راستہ اور صورتحال اختیار کرنے کے لیے ہو۔ اس کے لیے قرآن و سنت کی کوئی نئی تعبیر کرنے کی ضرورت نہیں ہے، جس سے جہاد کا وہ شرعی اسٹرکچر ہی تبدیل ہو جائے جو ہر دور میں اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کی علامت رہا ہے اور آئندہ بھی اس نے اسلام اور مسلمانوں کی سربلندی کا ذریعہ بننا ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔