اسلام آباد میں مبینہ طور پر غیر قانونی مساجد میں سے چند مساجد کو مسمار کرنے اور دیگر مساجد کو گرانے کا نوٹس دیے جانے سے جو صورتحال پیدا ہوئی ہے، وہ ایک نئے بحران کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے اور دینی جماعتوں کا احتجاج اس سلسلے میں منظم ہوتا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ مساجد اور کچھ مدارس اجازت کے بغیر تعمیر ہوئے ہیں جو غیر قانونی ہیں اور قانون کے مطابق انہیں مسمار کرنا ضروری ہے۔ سرکاری حلقوں کی طرف سے یہ اعلان سامنے آیا ہے کہ غیر قانونی طور پر تعمیر کی گئی تمام مساجد اور مدارس کو شہید کر دیا جائے گا۔ جبکہ دوسری طرف اسلام آباد اور راولپنڈی کی ’’جمعیۃ اہل سنت‘‘ اور ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ پاکستان‘‘ نے اس پر شدید احتجاج کیا ہے اور اعلان کیا ہے کہ مزید مساجد کو شہید نہیں کرنے دیا جائے گا بلکہ مسمار کی جانے والی مساجد کو دوبارہ تعمیر کیا جائے گا۔ ان حضرات کا موقف یہ ہے کہ جہاں ایک بار مسجد تعمیر ہو جائے، وہ قیامت تک مسجد ہوتی ہے اور اسے کسی صورت میں نہیں گرایا جا سکتا۔ اس مہم میں سب سے زیادہ فعال کردار حضرت مولانا محمد عبد اللہ شہیدؒ کے قائم کردہ مدرسہ جامعہ حفصہ للبنات کی طالبات ادا کر رہی ہیں جنہوں نے جامعہ حفصہ کے قریب ایک سرکاری لائبریری پر احتجاج طور پر قبضہ کر رکھا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ جب تک حکومت مساجد و مدارس کو گرانے کا نوٹس واپس نہیں لیتی، تب تک وہ اس قبضہ سے دستبردار نہیں ہوں گی۔
سرکاری حلقوں کی طرف سے اخبارات میں ایک موقف یہ بھی سامنے آیا ہے کہ جو مدارس و مساجد اسلام آباد کے انٹرنیشنل ایئر پورٹ کے مین راستے میں ہیں اور وفاقی دارالحکومت میں آنے والے معزز غیر ملکی مہمانوں کی گزرگاہ میں ہیں، وہ ان کے نزدیک سکیورٹی رسک ہیں جہاں سے کسی بھی وقت کسی بھی قسم کی کارروائی ہو سکتی ہے، اس لیے سکیورٹی کے نقطۂ نظر سے بھی ان مدارس و مساجد کا راستے سے ہٹایا جانا ضروری ہے۔ جامعہ حفصہ للبنات کی طالبات نے کچھ عرصہ قبل پولیس کی مداخلت کے خلاف مزاحمت کا جو مظاہرہ کیا تھا اور پولیس کو ان طالبات کے مقابلے میں ملیوڈی تک پسپا ہونا پڑا تھا، وہ بات ابھی تک سرکاری ذہنوں میں تازہ ہے اور ہمارے خیال میں اسی کے ردعمل میں جامعہ حفصہ اور مختلف مساجد و مدارس کو حکومت کی نئی پالیسی کا ہدف قرار دے دیا گیا ہے۔
اس پر ملک بھر کے دینی مدارس کے تمام مکاتب فکر کے وفاقوں پر مشتمل مشترکہ فورم ’’اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ“ نے مضبوط موقف اختیار کیا ہے اور نہ صرف یہ کہ مدارس کے نظام کے حوالے سے وفاقی وزیر مذہبی امور جناب اعجاز الحق کے ساتھ اپنے پہلے سے طے شدہ مذاکرات میں شریک ہونے سے انکار کر دیا ہے بلکہ مساجد و مدارس کے تحفظ کے لیے ایک نئی مہم کا بھی آغاز کر دیا ہے، اور حسب سابق اس سلسلے میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے سیکرٹری جنرل مولانا قاری محمد حنیف جالندھری اور تنظیم المدارس العربیہ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر سرفراز احمد نعیمی سب سے زیادہ متحرک اور سرگرم عمل ہیں اور اس مہم کو آگے بڑھانے کے لیے مسلسل کوشاں ہیں۔
جہاں تک متعدد مساجد و مدارس کے غیر قانونی ہونے کا تعلق ہے، یہ بات بہرحال بحث طلب ہے۔ اس پر اس سے پہلے قومی سطح پر کئی بار بحث ہو چکی ہے اور حکومتی حلقوں کا کہنا ہے کہ کسی جگہ پر جگہ کے مالک کی اجازت کے بغیر تعمیر کی جانے والی مسجد چونکہ شرعاً مسجد نہیں ہوتی، اس لیے حکومت کو ایسی مساجد کو گرانے کا حق حاصل ہے، چنانچہ مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی کے چیئرمین مولانا مفتی منیب الرحمن نے بھی ایک حالیہ انٹرویو میں اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ کسی شخص کی ذاتی یا حکومت کی سرکاری زمین پر بغیر اجازت بنائی جانے والی مسجد غیر قانونی اور غیر شرعی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اصل بات یہ ہے کہ جب سرکاری زمین پر مسجد بنائی جاتی ہے تو متعلقہ محکمے اور اہل کار خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور جب کئی برس تک وہاں نمازیں ادا ہونے کے بعد اسے گرانے کی بات ہوتی ہے تو ایک طرح کی جذباتی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے۔ گویا مفتی منیب الرحمن صاحب ان مساجد کے غیر قانونی اور غیر شرعی ہونے میں حکومت کے ساتھ متفق ہیں، البتہ انہیں جذباتی ماحول کی وجہ سے ان کے گرائے جانے پر اشکال ہے، مگر ہمیں مفتی منیب الرحمن صاحب کے اس موقف سے اتفاق نہیں ہے اور اس کے بارے میں ہم کچھ معروضات پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
جہاں تک کسی شخص کی ذاتی ملکیت میں اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر مسجد یا مدرسہ تعمیر کیے جانے کا تعلق ہے، ہم اس موقف سے متفق ہیں کہ وہ مسجد اور مدرسہ صرف غیر قانونی ہی نہیں بلکہ غیر شرعی بھی ہے اور زمین کے مالک کو حق حاصل ہے کہ وہ اس زمین کو واپس حاصل کرنے کے لیے کوئی بھی معروف قانونی طریقہ اختیار کر کے اپنی زمین کا قبضہ حاصل کرے، کیونکہ اس کی زمین غصب کی گئی ہے اور غاصب کو اپنی مغصوب چیز واپس لینے کا ہر وقت حق حاصل ہوتا ہے۔ لیکن کیا سرکاری زمین کا حکم بھی یہی ہے؟ اس میں ہمیں کلام ہے، اس لیے کہ ایک اسلامی ریاست میں لوگوں کی ضروریات کے لیے مساجد کا تعمیر کرنا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ اگر کسی علاقے میں مسجد کی ضرورت ہے، لیکن حکومت وہاں مسجد کی تعمیر کے لیے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی اور وہاں کے مسلمان باہمی تعاون کے ساتھ کسی موزوں سرکاری جگہ پر مسجد تعمیر کر لیتے ہیں تو ہماری طالب علمانہ رائے میں وہ اس دینی ضرورت کو پورا کرنے میں حکومت ہی کی نمائندگی کرتے ہیں اور وہ مسجد شرعاً مسجد بن جاتی ہے۔
پھر ایک اور حوالے سے بھی دیکھ لیا جائے کہ ایک ہے اجازت اور ایک ہے رضامندی۔ دونوں میں تھوڑا سا فرق ہے اور اس فرق کو ملحوظ رکھنا فقہی طور پر ضروری ہے۔ اجازت یہ ہے کہ اس جگہ مسجد تعمیر کرنے کے لیے باقاعدہ درخواست دی جائے اور اجازت ملنے کے بعد وہاں تعمیر کر لی جائے، اور رضامندی یہ ہے کہ مسجد تعمیر کر لی گئی ہے اور متعلقہ محکموں اور مجاز اتھارٹی نے اس پر خاموشی اختیار کر کے اسے عملاً قبول کر لیا ہے۔ مولانا مفتی منیب الرحمٰن صاحب کو میں ایک فقہی جزئیہ کی طرف متوجہ کرنا چاہوں گا جسے ہمارے فقہاء نے ’’نکاح فضولی‘‘ کے عنوان سے ذکر کیا ہے کہ ایک شخص نے اپنے کسی دوست سے پوچھے اور اس کے علم میں لائے بغیر اس کی طرف سے نمائندہ بن کر اس کا نکاح کسی خاتون سے کرا دیا ہے۔ جب نکاح ہو رہا ہے تو جس کا نکاح کیا جا رہا ہے، اسے سرے سے اس کی کوئی خبر ہی نہیں ہے، لیکن اس کا کوئی دوست اس کی اجازت اور مرضی معلوم کیے بغیر اس کا نکاح کرا رہا ہے۔ فقہاء کرام لکھتے ہیں کہ یہ نکاح اگر متعلقہ شخص نے بعد میں قبول کر لیا ہے اور اس عورت کے ساتھ میاں بیوی کا تعلق اختیار کر لیا ہے تو شرعاً یہ نکاح منعقد ہو جائے گا، وہ دونوں میاں بیوی متصور ہوں گے اور نکاح وغیرہ کے تمام شرعی احکام ان پر لاگو ہوں گے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر کسی محلہ کے مسلمانوں نے مسجد کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے کسی موزوں اور مناسب سرکاری زمین پر مسجد تعمیر کر لی ہے اور مجاز اتھارٹی نے اس پر خاموشی اختیار کر لی ہے تو یہ ’’رضامندی‘‘ کے مترادف ہے اور اس عملی رضامندی کے بغیر حکومت کو وہ مسجد گرانے کا حق حاصل نہیں ہے۔ پھر اس رضامندی کا مدار صرف خاموشی پر نہیں ہے بلکہ سالہا سال تک وہاں نمازیں ادا کی جاتی رہی ہیں جبکہ بجلی، پانی، گیس اور دیگر ضروری چیزوں کے کنکشنز کی منظوری اور متعلقہ محکموں اور مجاز اتھارٹی کے لوگوں کا اس مسجد میں نمازیں ادا کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ سالہا سال تک بطور مسجد ڈیل کرنا ’’خاموش رضامندی‘‘ سے بہت آگے کے امور ہیں جو صرف رضامندی نہیں بلکہ عملاً اجازت کے مترادف ہیں۔
علاوہ ازیں ان مساجد و مدارس کو مسمار کرنے کی اس کارروائی کو اس موقع پر قانونی اور شرعی حیثیت کے حوالے سے پیش کرنا ہمارے نزدیک فریب کاری سے کم نہیں ہے، اس لیے کہ اگر بات صرف قانون کی عملداری یا شرعی حیثیت کی پاسداری کی ہوتی تو اس کا نشانہ صرف مساجد نہ بنتیں بلکہ اسلام آباد میں غیر قانونی قبضوں کی باقی صورتوں بھی اس میں شامل ہوتیں، اور کسی بھی عنوان سے سرکاری اراضی پر بغیر اجازت تعمیر کی جانے والی تمام عمارتوں کے خلاف اجتماعی آپریشن کا فیصلہ ہوتا۔ باقی تمام غیر قانونی قبضوں کو نظر انداز کر کے صرف مساجد کے خلاف آپریشن اس امر کی واضح دلیل ہے کہ اصل ہدف ’’لاقانونیت‘‘ نہیں بلکہ ’’مسجد‘‘ ہے اور اسلام آباد کے حکمران دنیا کو اپنے سیکولر ہونے کا یقین دلانے کے لیے مساجد کے خلاف آپریشن کرنا چاہ رہے ہیں۔
اس صورت میں یہ مسئلہ مساجد کے قانونی یا غیر قانونی ہونے کا نہیں رہتا بلکہ مساجد کے تقدس اور ان کے معاشرتی کردار کے تحفظ کا بن جاتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اتحاد تنظیمات مدارس دینیہ اور جمعیۃ اہل سنت اسلام آباد نے اس سلسلے میں جو موقف اختیار کیا ہے، وہ معروضی تناظر میں صحیح موقف ہے جس کی تمام اہل دین کو حمایت کرنی چاہیے۔