کوئی نئی بات کرنے سے پہلے گزشتہ کالم کی ایک بات کی تصحیح ضروری سمجھتا ہوں کہ غالباً کاپی جوڑتے ہوئے دو تین سطریں درمیان سے رہ جانے کی وجہ سے اس کا مفہوم بالکل الٹ ہو کر رہ گیا ہے۔ گیلپ انٹرنیشنل کے ایک سروے کے حوالے سے عبارت یوں درج ہوگئی ہے کہ
’’۶۷ فیصد عوام کا کہنا ہے کہ اسلامی نظام کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
حالانکہ گیلپ انٹرنیشنل کا سروے یہ بتاتا ہےکہ
’’اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ۶۷ فیصد عوام نے اسلامی نظام کے نفاذ کی خواہش کا اظہار کیا ہے، ۲۰ فیصد نے خاموشی اختیار کی ہے اور ۱۳ فیصد نے کہا ہے کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
اس تصحیح اور وضاحت کے بعد گزارش ہے کہ فیصل آباد کے ہمارے ایک دوست قاری خالد رشید صاحب نے، جو اکثر بیرونی سفر کرتے رہتے ہیں، مجھ سے کئی بار کہا ہے کہ پی آئی اے کے ذریعے سفر سے پکی توبہ کر لوں مگر بار بار کے تلخ تجربے کے باوجود ابھی تک دل اس بات کو قبول نہیں کر رہا اور پی آئی اے کے ذریعے سفر اب بھی میری ترجیحات میں شامل ہے۔
اس سلسلہ میں دو دلچسپ حالیہ تجربات قارئین کے علم میں لانا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اپریل کے وسط کی بات ہے مجھے پی آئی اے پر بلاٹکٹ سفر کرنے کا تجربہ ہوا جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے کہ جامعہ اسلامیہ کلفٹن کراچی کی دعوت پر ان کے ’’علماء تربیتی کورس‘‘ میں لیکچرز کے لیے حاضری ہوئی اور دو تین دن قیام رہا۔ انہوں نے مجھے لاہور سے کراچی اور کراچی سے لاہور کے سفر کے لیے پی آئی اے کا ٹکٹ بھجوایا جس پر میں نے لاہور سے کراچی کا سفر کیا۔ مگر انہوں نے کراچی سے لاہور واپسی کا ٹکٹ اپنی انتظامی سہولت کی وجہ سے کینسل کرا دیا جس کی وہ مجھے اطلاع نہ کر سکے۔ میرے پاس ای ٹکٹ پر دونوں طرف کی سیٹیں کنفرم تھیں مگر وہ حضرات میری واپسی کے لیے پی آئی اے کی سیٹ کینسل کرا کے دو تین گھنٹے بعد کی کسی دوسری ایئرلائن سے سیٹ کنفرم کرا چکے تھے جس سے میں بے خبر تھا۔ چنانچہ میں پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق ایئرپورٹ پہنچ گیا جہاں پی آئی اے کی فلائٹ کا وقت قریب تھا مگر کمپیوٹر سسٹم کے کام نہ کرنے کی وجہ سے افراتفری کی سی کیفیت تھی۔ اسی افراتفری میں ایک کاؤنٹر پر گیا تو وہاں ایک خاتون نے میرا ٹکٹ دیکھا اور اس پر سیٹ کنفرم دیکھ کر مجھے بورڈنگ کارڈ جاری کر دیا جو ہاتھ سے پر کیا گیا تھا۔
میں ساری صورتحال سے بے خبر معمول کے مطابق جہاز پر سوار ہوا اور لاہور پہنچ گیا۔ اگلے روز دس بجے کے لگ بھگ جب میں گوجرانوالہ میں اپنے گھر میں تھا کہ جامعہ اسلامیہ کراچی سے جمیل فاروقی صاحب نے فون کیا کہ آپ واپس کس ذریعے سے گئے ہیں؟ میں نے بتایا کہ پی آئی اے سے آیا ہوں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ سیٹ تو ہم نے کینسل کرا کے دوسری ایئرلائن سے سیٹ بک کرا دی تھی۔ میں نے گزارش کی کہ مجھے تو نہ آپ حضرات نے بتایا نہ دوسری ٹکٹ دی۔ جبکہ ان کا خیال تھا کہ وہ دوسرا ٹکٹ میرے حوالے کر چکے ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ پی آئی اے والوں نے آپ کو سوار کیسے کر لیا؟ میں نے بتایا کہ ان کا کمپیوٹر سسٹم کام نہیں کر رہا تھا، میرے ٹکٹ پر انہوں نے سیٹ کنفرم دیکھ کر بورڈنگ کارڈ جاری کیا اور میں لاہور کے لیے جہاز پر سوار ہوگیا۔ انہوں نے بتایا کہ پی آئی اے والوں نے ہمارے ٹریول ایجنٹ سے ابھی رابطہ کیا ہے کہ آپ کا مسافر بلاٹکٹ لاہور چلا گیا ہے، میں نے عرض کیا کہ اس کا حساب کتاب آپ حضرات ان سے کر لیں میں تو بہرحال اپنے شیڈول کے مطابق گھر واپس آگیا ہوں۔
دوسرا تجربہ لاہور سے نیویارک آتے ہوئے ہوا اور اب میں نیویارک میں بیٹھا اس کی تفصیل قلمبند کر رہا ہوں۔ مجھے ۷ جولائی کو پی آئی اے کے ذریعے لاہور سے نیویارک کا سفر کرنا تھا، فلائٹ کا وقت صبح ۶ بجے تھا اور میں معمول کے مطابق تین گھنٹے پہلے ایئرپورٹ پہنچ کر بورڈنگ کارڈ لینے کے بعد خود کو پی آئی اے کی تحویل میں دے چکا تھا۔ فلائٹ فنی خرابی کی وجہ سے لیٹ ہوگئی اور ۶ بجے کی بجائے ۸ بجے کے لگ بھگ مانچسٹر کے لیے روانہ ہوئی جہاں اسٹاپ کر کے اس نے نیویارک کی طرف پرواز کرنا تھی۔ کم و بیش ۸ گھنٹے کی پرواز کے بعد ہم مانچسٹر اترے، اس دوران مسافروں کو ایک ناشتہ دیا گیا جو معقول تھا مگر اس کے بعد مانچسٹر اترنے سے کچھ دیر قبل ایک برگر اور سموسے کے ہمراہ مشروبات سے ان کی تواضع کی گئی۔ ۵ گھنٹے ایئرپورٹ پر اور ۸ گھنٹے فلائٹ میں گزرنے والے ۱۳ گھنٹے کے اس دورانیے میں مجھے یہ بہرحال مناسب نہیں لگا۔ کیونکہ مسافروں کو باقاعدہ کھانا مانچسٹر میں ڈیڑھ دو گھنٹے اسٹاپ کے بعد نیویارک کے لیے پرواز کر چکنے کے بعد دیا گیا جو اصولاً انہیں پاکستانی وقت کے مطابق دو تین بجے کے دوران لاہور سے مانچسٹر پرواز کے دوران دیا جانا چاہیے تھا۔
پھر یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مسافروں کو جو برگر اور سموسہ پیش کیا گیا وہ بالکل ٹھنڈا فریج میں لگا ہوا محسوس ہوتا تھا جو میرے جیسے بوڑھے اور بیمار شخص کے معدے کے لیے بہرحال ’’رسک‘‘ ہی تھا۔ البتہ ایک ریفریشمنٹ نیویارک اترنے سے پہلے دی گئی جو مناسب تھی۔ اس کے علاوہ ایک اور بات بھی محسوس ہوئی کہ اتنی لمبی پرواز میں مسافروں کا زیادہ تر وقت سوتے، جاگتے اور اونگھتے گزرتا ہے۔ بین الاقوامی پروازوں میں گرم پانی سے تر تولیے پیش کیے جاتے ہیں جو ہاتھ منہ صاف کرنے میں ان کے کام آجاتے ہیں۔ کیونکہ ہر شخص کے لیے واش روم میں جا کر منہ ہاتھ دھونا ممکن نہیں ہوتا مگر اس پرواز میں اس کا تکلف نہیں کیا گیا جس پر خود مجھے بھی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔
میں پاکستانی وقت کے مطابق صبح ۳ بجے سے پی آئی اے کے ساتھ تھا اور مانچسٹر سے سات گھنٹے کی پرواز کے بعد جب طیارہ نیویارک کے جے ایف کے ایئرپورٹ پر اترنے کی تیاری کر رہا تھا تو اس وقت پاکستان میں رات دو بجے کا وقت ہوگا۔ اتنے میں طیارے کے پائلٹ نے اعلان کیا کہ نیویارک کا موسم بہت خراب ہے او رہمارے پاس فیول کم ہے اس لیے ہم چکر لگانے کی بجائے بوسٹن ایئرپورٹ کی طرف جا رہے ہیں، وہاں سے فیول لے کر موسم ٹھیک ہونے پر واپس نیویارک واپس آجائیں گے۔ بوسٹن ایئرپورٹ پر کم و بیش ۲ گھنٹے ہم جہاز میں ہی رہے۔ وہاں سے فیول لے کر نیویارک ایئرپورٹ پہنچے تو نیویارک میں رات کے ۹ بج چکے تھے جبکہ پاکستان کی گھڑیاں صبح کے ۶ بجا رہی ہوں گی۔
مجھے اس سے آگے کا بھی خوف لاحق تھا کہ میرے جیسے باریش اور اپنے نام میں ’’محمد‘‘ یا ’’خان‘‘ کا لاحقہ رکھنے والوں کو امیگریشن میں تین چار گھنٹے تفتیش کے مرحلے میں بھی گزارنا پڑتے ہیں۔ گزشتہ سال مجھے پانچ گھنٹے اس مرحلہ سے دوچار رہنا پڑا تھا۔ مگر خدا بھلا کرے امیگریشن آفیسر کا کہ اس دفعہ اس نے دو تین منٹ سے زیادہ وقت نہیں لیا اور ایک دو سوالوں کے بعد انٹری کی مہر لگا کر فارغ کر دیا جس پر میں نے اطمینان کا سانس لیا لیکن جب باہر پہنچا تو میرے میزبانوں میں پریشانی و اضطراب کی عجیب کیفیت تھی کہ انہوں نے جب فلائٹ کے نیویارک پہنچنے کے اصل وقت (دن کے اڑھائی بجے) سے کچھ دیر قبل پی آئی اے کی ویب سائیٹ پر دیکھا تو وہاں سے معلوم ہوا کہ فلائٹ وقت پر آرہی ہے۔ وہ سخت پریشان تھے کہ فلائٹ تو اڑھائی بجے پہنچ چکی ہوگی اور اب رات کے نو بج رہے ہیں، اتنی دیر تک میں امیگریشن سے فارغ کیوں نہیں ہوا؟ جبکہ فلائٹ رات سوا نو بجے کے لگ بھگ نیویارک ایئرپورٹ پر اتری۔ بہرحال جب میں جب دس بجے کے قریب انہیں آزاد فضا میں دکھائی دیا تو ان کی جان میں جان آئی اور میں ان کے ساتھ اپنی قیام گاہ میں پہنچ گیا۔
قارئین اسے میری آپ بیتی کا ایک حصہ سمجھ لیں یا پی آئی اے سے شکایت نامہ تصور کر لیں مگر اس ساری صورتحال کی تھوڑی سی وجہ علم میں آنے پر کلفت میں بہرحال کچھ کمی محسوس ہوئی۔ وہ اس طرح کہ اسی پرواز کے ایک مسافر نے گفتگو کے دوران بے تکلفی سے یہ بتا دیا کہ وہ پی آئی اے کے ملازم ہیں اور ٹکٹ کے صرف دس فیصد کی ادائیگی پر وہ یہ سفر کر رہے ہیں کیونکہ پی آئی اے کے ملازمین کو یہ رعایت حاصل ہے کہ وہ کوئی بھی بین الاقوامی سفر صرف دس فیصد کی ادائیگی کے ساتھ کر سکتے ہیں۔ یہ سن کر میں نے دل کو سمجھانے کی کوشش کی کہ جب پی آئی اے کے اپنے ملازمین صرف دس فیصد پر سفر کریں گے تو باقی مسافروں کے ساتھ اس سے بہتر سلوک آخر اور کیا ہو سکتا ہے؟