افغانستان کے عدالتی اور تعلیمی نظام پر ایک نظر

   
تاریخ : 
۲۷ اگست ۲۰۰۰ء

کابل میں دو روزہ قیام کے دوران جن اہم شخصیات سے ہماری ملاقاتیں ہوئیں ان میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مولانا نور محمد ثاقب اور کابل یونیورسٹی کے چانسلر مولانا پیر محمد روحانی بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ان ملاقاتوں میں مولانا محمد الیاس چنیوٹی بھی ہمراہ تھے۔

مولانا نور محمد ثاقب نوجوان علماء میں سے ہیں، دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے فاضل ہیں، انہوں نے دورۂ حدیث کے امتحان میں دارالعلوم حقانیہ اور وفاق المدارس العربیہ پاکستان دونوں میں اول پوزیشنیں حاصل کی تھیں۔ ملاقات ہوئی تو بڑے احترام سے ملے اور کہنے لگے کہ میں آپ کا شاگرد ہوں، دورۂ حدیث سے پہلے موقوف علیہ کے درجہ میں ایک سال میں نے مدرسہ انوار العلوم مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں تعلیم حاصل کی تھی جہاں مشکوٰۃ شریف اور ہدایہ حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خان سے اور جلالین شریف آپ سے پڑھی تھی۔ یہ معلوم کر کے بے حد خوشی ہوئی اور دل میں اطمینان کی لہر دوڑ گئی کہ ہم دینی مدارس میں جو تھوڑی بہت تعلیمی خدمات سر انجام دیتے ہیں اس کے نتائج کسی نہ کسی جگہ تو مسلمانوں کی عملی اور اجتماعی زندگی میں نظر آنے لگے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انہیں نظر بد سے محفوظ رکھیں اور وہ دن لائیں کہ ہم پاکستان کی اجتماعی اور قومی زندگی میں بھی دینی مدارس کی تعلیمی خدمات کے اثرات و نتائج کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکیں، آمین یا رب العالمین۔

مولانا نور محمد ثاقب سے افغانستان کے عدالتی نظام کے بارے میں چند پہلوؤں پر گفتگو ہوئی، انہوں نے بتایا کہ افغانستان میں عدالتی سطح پر شرعی نظام پہلے سے چلا آرہا تھا جو صرف کمیونسٹ دور میں کچھ عرصہ معطل رہا۔ اس کے بعد ہم نے دوبارہ اسے شروع کر دیا ہے اور چونکہ عدالتی سسٹم، قواعد و اصول اور ڈھانچہ پہلے عملاً موجود رہا ہے اس لیے کوئی دقت پیش نہیں آئی اور ہم پورے اعتماد اور نظم و ضبط کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ انہوں نے میری فرمائش پر عدالتی اصول و ضوابط کی ایک مطبوعہ کاپی بھی مجھے مرحمت فرمائی جو ۲۶۴ دفعات پر مشتمل ہے اور پشتو اور فارسی دو زبانوں میں ہے۔ یہ اصول و ضوابط ظاہر شاہ کے دور میں جمادی الثانی ۱۳۷۸ھ میں نافذ کیے گئے تھے۔ یعنی اب سے کوئی چوالیس برس قبل ان کا نفاذ عمل میں آیا تھا اور اب نیا نظام بھی انہی اصولوں کی روشنی میں چلایا جا رہا ہے۔ ان اصول و ضوابط کی رو سے افغانستان کے عدالتی نظام کی بنیاد فقہ حنفی پر ہے اور قاضی حضرات قرآن و سنت کی اسی تعبیر کے مطابق فیصلہ کرنے کے پابند ہیں جو فقہ حنفی کی صورت میں کتابوں میں موجود ہے، اور جو عظیم مسلم سلطنتوں خلافت عثمانیہ اور مغل سلطنت میں صدیوں تک نافذ العمل رہی ہے۔

افغان چیف جسٹس نے بتایا کہ ہمارے ہاں ابتدائی عدالت دو ماہ میں کسی بھی کیس کا فیصلہ کر دینے کی پابند ہے۔ جبکہ ہائی کورٹ میں اپیل کی سماعت ایک ماہ میں اور سپریم کورٹ میں بیس دن کے اندر مکمل ہونا ضروری ہے۔ اگر کوئی قاضی مقررہ مدت کے اندر فیصلہ نہیں کر پاتا تو اسے تاخیر کی وجوہ کی وضاحت کرنا پڑتی ہے جو قابل قبول نہ ہونے کی صورت میں قاضی کے خلاف تادیبی کارروائی کا باعث بھی بن سکتی ہے۔ چنانچہ اس سلسلہ میں مذکورہ عدالتی اصول نامہ کی دفعہ ۱۰ میں بھی لکھا گیا ہے کہ اگر قاضی کسی معقول عذر کے بغیر تاخیر کرے گا تو اسے معزولی کے علاوہ دیگر تعزیری سزا کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

مولانا پیر محمد روحانی ان مجاہد علماء میں سے ہیں جنہوں نے جہاد افغانستان میں عملی حصہ لیا اور سالہا سال تک روسی فوجوں کے خلاف میدان جنگ میں نبرد آزما رہے۔ وہ فاتح خوست مولانا جلال الدین حقانی کے قریبی رفقاء میں شمار ہوتے ہیں اور تعلیمی کام کا وسیع تجربہ رکھنے کے باعث انہیں کابل یونیورسٹی کے چانسلر کی حیثیت سے ذمہ داریاں سونپی گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ کابل یونیورسٹی کے کم و بیش تمام شعبے دوبارہ شروع ہوگئے ہیں اور ان سب فیکلٹیز میں مجموعی طور پر اس وقت ساڑھے چھ ہزار سے زائد طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں جن میں تین ہزار کے لگ بھگ طلبہ ہاسٹل میں مقیم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ہم نے طب، سائنس، انجینئرنگ اور دیگر شعبوں کے نصاب میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔ البتہ ہر فیکلٹی میں ’’ثقافت اسلامی‘‘ کے نام سے ضروریات دین کے نصاب کا اضافہ کر دیا ہے جس میں عقائد، عبادات، معاملات، حقوق، اخلاق، اور دیگر ضروریات کے بارے میں قرآن و سنت اور فقہ کی ضروری تعلیمات کو سمو دیا گیا ہے۔ تاکہ مختلف شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے والے دینی لحاظ سے بھی اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے آگاہ ہوں اور ایک دیندار مسلمان کے طور پر اپنے اپنے شعبہ میں ملی و قومی خدمات سر انجام دے سکیں۔

انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی کے مختلف شعبوں میں ساڑھے پانچ سو کے قریب اساتذہ کام کر رہے ہیں جبکہ ثقافت اسلامی کے نصاب کی تعلیم کے لیے ساٹھ ستر اساتذہ کا اضافہ کیا گیا ہے جن کے لیے مستند عالم دین ہونا شرط ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس اسلامی جذبات سے سرشار نظریاتی اساتذہ کام کر رہے ہیں جن کی تنخواہیں بہت معمولی ہیں اور ایک پروفیسر کی تنخواہ پاکستانی کرنسی کے حساب سے پندرہ سو روپے سے زیادہ نہیں بنتی۔ لیکن وہ اس کے باوجود ملی خدمت کے جذبہ سے تعلیمی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے اساتذہ کو غیر ملکی این جی اوز کی طرف سے پندرہ ہزار روپے تک کی تنخواہ پر ملازمت کی پیشکش کی گئی ہے مگر انہوں نے اسے قبول نہیں کیا بلکہ بعض اساتذہ تو ایسے ہیں کہ شام کو پارٹ ٹائم پرائیویٹ ملازمت کر کے اپنے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ مگر چونکہ تعلیم کے ساتھ ان کا نظریاتی اور شعوری تعلق ہے اس لیے وہ اس سے وابستگی ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

لڑکیوں کی تعلیم کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ کابل میں طالبان کی حکومت قائم ہونے تک سکولوں میں وہی پرانا سیکولر نصاب تعلیم رائج تھا اور مخلوط تعلیم کا نظام بدستور چلا آرہا تھا۔ اور یہ دونوں باتیں ہمارے لیے قطعی طور پر قابل قبول نہیں تھیں اس لیے ہمیں مجبورًا لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ مکمل طور پر بند کرنا پڑا جسے اب ابتدائی سطح پر دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے اور ہزاروں بچیاں پرائمری سطح کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ جبکہ نیا نصاب تعلیم مرتب کرنے کا کام جاری ہے اور اس کے ساتھ لڑکیوں کے لیے جداگانہ سکولوں کی تعمیر اور انہیں گھروں سے باپردہ لانے لے جانے کا انتظام فراہم ہوتے ہی اوپر کی سطحوں پر بھی زنانہ تعلیم کا سلسلہ بتدریج آگے بڑھایا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کے لیے اقوام متحدہ کے نمائندے نے بھی ان سے اس مسئلہ پر تفصیلی گفتگو کی ہے اور انہیں یونیورسٹی کا دورہ کرا کے یہ بتایا گیا ہے کہ ہماری موجودہ تعمیرات اور انتظامات طلبہ کے لیے بھی ناکافی ہیں اور ہمیں مزید تعمیرات کی ضرورت ہے جن کے لیے ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں۔ اس لیے اگر ہمارے معترضین لڑکیوں کی تعلیم کے لیے الگ عمارت کی تعمیر اور آمد و رفت کے باپردہ انتظامات کے لیے تعاون کریں اور ضروری فنڈز فراہم کر دیں تو ہم کسی تاخیر کے بغیر ہائی سکول اور کالج و یونیورسٹی کی سطح پر بھی لڑکیوں کی تعلیم کا سلسلہ شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔

مولانا پیر محمد روحانی نے بتایا کہ نیا نصاب تعلیم مرتب کرنے کا کام جاری ہے اور ہم انٹرمیڈیٹ تک ضروریات دین اور ضروری عصری علوم کا مشترکہ نصاب مرتب کر رہے ہیں جو سب طلبہ اور طالبات کے لیے لازمی ہوگا اور اس کے بعد طلبہ کے ذوق و صلاحیت اور ملکی ضروریات کے پیش نظر الگ الگ شعبوں کی تعلیم کا نظام وضع کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ ہم نے زیرو پوائنٹ سے کام شروع کیا ہے اور دھیرے دھیرے بتدریج آگے بڑھ رہے ہیں اس لیے بہت سا خلاء دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن جب ہم آگے بڑھیں گے اور یہ نظام تکمیل تک پہنچے گا تو سب لوگ مطمئن ہو جائیں گے۔

   
2016ء سے
Flag Counter