بیت المال کا جب لفظ بولتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں ایک تصور ہوتا ہے کہ کوئی کمرہ تھا اس میں گندم اور جو وغیرہ رکھ دیتے تھے، اور وہ بیت المال ہوتا تھا۔ یہی تصور آتا ہے نا؟ کوئی سونا چاندی کوئی زیورات وغیرہ جو آتے تھے وہ کمرے میں بند کر کے تالا لگا دیتے تھے، اس کو بیت المال کہتے ہیں۔ نہیں، بیت المال سسٹم کا نام ہے، ایک نظام تھا پورا۔ دو واقعات آج بیان کروں گا حضورؐ کے زمانے کے، کہ ماحول کیا بنایا تھا حضورؐ نے۔
یہ ماحول بن گیا تھا کہ کسی کو کسی چیز کی ضرورت ہے اور میسر نہیں ہے، سیدھا حضورؐ کے پاس آتا تھا، مل جاتی تھی۔ کسی کو غلے کی ضرورت ہے، کسی کو سواری کی ضرورت ہے، کسی کو کسی اور چیز کی ضرورت ہے، جس چیز کی ضرورت ہے وہ مل نہیں رہی، یا حاصل کرنے کی سکت نہیں ہے، ہمت نہیں ہے،تو وہ چیز کہاں سے ملتی تھی؟ حضورؐ کے پاس آتے تھے، مل جاتی تھی۔
ایک واقعہ، جو لطیفہ بھی ہے واقعہ بھی ہے۔ حضورؐ تشریف فرما ہیں، ایک آدمی آیا، مسافر تھا۔ یا رسول اللہ! میں مسافر ہوں، فلاں جگہ سے آرہا تھا، فلاں جگہ جا رہا ہوں، اونٹ مر گیا ہے۔ سواری میری مر گئی ہے، آگے گھر جانے کے لیے سواری نہیں ہے، ایک سواری دے دیں۔ اس زمانے میں سب سے قیمتی چیز اونٹ ہوا کرتی تھی۔ حضورؐ خوش طبعی کے موڈ میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اچھا ٹھیک ہے بیٹھو، میں تمہیں ابھی اونٹنی کا بچہ دوں گا۔ وہ پریشان ہو گیا کہ مجھے سواری کے لیے اونٹ چاہیے اور یہ بچہ دے رہے ہیں مجھے، میں کیا کروں گا، میں اس پر سوار ہوں گا یا وہ مجھ پر سوار ہوگا۔ بیٹھ تو گیا پیچارہ۔ حضورؐ خوش طبعی کے موڈ میں تھے۔ اور میں کہا کرتا ہوں کہ حضورؐ خشک مزاج بزرگ نہیں تھے، بڑے خوش طبع بزرگ تھے۔ ہلکی پھلکی دل لگی کیا بھی کرتے تھے، سہتے بھی تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المال سے اونٹ منگوایا۔ اس کی مہار اُس کو کو پکڑائی، فرمایا، یہ بھی کسی اونٹنی کا بچہ ہی ہے۔ ماحول سمجھ میں آیا؟
حضرت ابو موسٰی اشعریؓ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ہم گھر والوں نے، برادری کے کچھ لوگوں نے کسی سفر پر جانا تھا، کوئی چار پانچ سواریاں چاہئیں تھیں۔ ایک نہیں، چار پانچ اونٹ چاہیے تھے۔ مشورہ ہوا کہ جا کر درخواست کرتے ہیں یا رسول اللہ! اونٹ چاہئیں تین چار۔ میری ڈیوٹی لگی کہ جاؤ جا کر سوال کرو۔ ابو موسٰی کہتے ہیں کہ میں گیا۔ لیکن میں نے اندازہ نہیں کیا کہ جا کر کسی مجلس میں بات کرتے ہوئے پہلے مجلس کا ماحول دیکھنا چاہیے کہیں کوئی غصے سے تو نہیں بیٹھے ہوئے، ناراض تو نہیں بیٹھے ہوئے، اندر پہلے سے کوئی مسئلہ تو نہیں کھڑا ہوا۔ میں نے ماحول نہیں دیکھا، حضورؐ کسی وجہ سے ناراض بیٹھے ہوئے تھے، کوئی وجہ تھی۔ میں نے جاتے ہی کہا یا رسول اللہ چار پانچ اونٹ چاہئیں۔ فرمایا، نہیں ہیں لیس عندی۔ یا رسول اللہ، ہم نے سفر پر جانا ہے۔ بھئی، نہیں ہیں، نہیں دوں گا۔ اب میں اصرار کر رہا ہوں، حضورؐ کا غصہ بڑھ رہا ہے۔ میں نے تیسرا سوال کیا تو حضورؐ نے فرمایا واللہ لا احملکم شیئًا خدا کی قسم کوئی سواری نہیں دوں گا تمہیں، جاؤ۔ ابو موسٰی کہتے ہیں کہ میں منہ لٹکائے واپس،گھر والوں سے کہا کہ یار یہ ہو گیا ہے،حضورؐ نے کہا نہیں ہیں، پھر کہا نہیں دوں گا، پھر قسم اٹھا لی خدا کی قسم نہیں دوں گا۔ اب کیا کریں؟ میں، کہتے ہیں ابھی رپورٹ دے رہا ہوں اپنے خاندان والوں کو ، پیچھے سے کسی نے آواز دی، عبد اللہ۔ ان کا نام عبد اللہ تھا۔ عبد اللہ! حضورؐ بلا رہے ہیں۔ میں گیا واپس۔ دو جوڑیاں اونٹوں کی کھڑی تھیں۔ چار اونٹ۔ حضورؐ نے فرمایا یہ لے جاؤ۔ اچھا، خود کہہ رہے ہیں کہ دوسری غلطی مجھ سے یہ ہوئی، میں نے اونٹ پکڑے چل پڑا، مل گئے شکر ہے۔ راستے میں جاتے ہوئے کسی نے مجھ سے کہا یا مجھے خود احساس ہوا کہ ابو موسٰی یہ کیا کیا تم نے۔ حضورؐ نے کہا تھا نہیں ہیں، پھر قسم اٹھائی تھی نہیں دوں گا۔ قسم کا پوچھا ہے حضورؐ سے؟ اونٹ لے کر چل پڑے ہو۔ مجھے احساس ہوا کہ میں نے دوہری غلطی کر لی ہے۔ میں واپس گیا۔ یا رسول اللہ، آپ نے فرمایا تھا میرے پاس نہیں ہیں۔ فرمایا، نہیں تھے، یہ میں نے قیس کے باڑے سے منگوائے ہیں۔ قیس بن سعد بن عبادہؓ۔ مدینہ منورہ میں سب سے بڑا باڑہ اونٹوں کا سعد بن عبادہ کا تھا، سردار بھی بڑے تھے، بنو خزرج کے سردار تھے۔ ان کا اونٹوں کا بہت بڑا باڑہ تھا۔ یا رسول اللہ! آپ نے قسم اٹھائی تھی؟ فرمایا، ہاں یاد ہے مجھے، لیکن میرا معمول یہ ہے، اگر کوئی قسم اٹھا لوں، بعد میں خیال ہو کہ یہ قسم خیر کے کام میں رکاوٹ بن رہی ہے، تو میں قسم کی پروا نہیں کرتا، قسم توڑ دیتا ہوں، خیر کا کام نہیں روکتا، کفارہ دے دیتا ہوں۔ اصول بھی یہی ہے۔ ویسے قسم پوری کرنے کا حکم ہے، لیکن وہ قسم جو کسی خیر کے کام میں رکاوٹ نہ بن رہی ہو۔ فرمایا، تم لے جاؤ، میں جانوں، قسم جانے، کفارہ جانے، تم جاؤ۔
یہ دو واقعات عرض کیے ہیں، دونوں بخاری شریف میں ہیں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا مــن ترک کلًّا او ضیــاعًــا فالــیّ وعلـیّ بوجھ جس کے ذمے ہے اور وہ پورا نہیں کر سکتا، بے سہارا اور ضرورتمند ہے کوئی، وہ میرے پاس آئے گا اور میرے ذمے ہو گا۔ حضورؐ نے ماحول ایسا پیدا کر دیا تھا کہ جس کی ضرورت ہے وہ آتا تھا اور وہاں سے ضرورت پوری ہو جاتی تھی۔ یہ ویلفیئر اسٹیٹ کا آغاز تھا۔