گوجرانوالہ کی میراتھن ریس اور ردعمل

   
مئی ۲۰۰۵ء

گوجرانوالہ میں میراتھن ریس کے موقع پر دینی مدارس کے طلبہ اور متحدہ مجلس عمل کے کارکنوں نے مولانا قاضی حمید اللہ خان ایم این اے کی قیادت میں جس جرأت کا مظاہرہ کیا ہے اس کی صدائے بازگشت پورے ملک میں بلکہ عالمی سطح پر محسوس کی جا رہی ہے اور ملک بھر کے دینی حلقوں کو نئے سرے سے یہ حوصلہ ملا ہے کہ وہ اگر معاشرہ میں منکرات کی روک تھام کے لیے منظم منصوبہ بندی کے ساتھ جرأت مندانہ موقف اور کردار کا مظاہرہ کریں تو یہ راستہ کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔میراتھن ریس کے نام پر اس سے قبل لاہور میں نوجوان لڑکیوں کی دوڑ ہو چکی تھی جس سے اسلامی اقدار و روایات پر یقین رکھنے والے مسلمان پریشان تھے، انہیں نظر آرہا تھا کہ بین الاقوامی ایجنڈے کے مطابق نوجوان مسلمان لڑکیوں کو سڑکوں پر لانے اور حجاب و حیا سے محروم کرنے کے لیے ایک نیا کھیل کھیلا جا رہا ہے اور وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ اگر اس کا راستہ مضبوطی کے ساتھ نہ روکا گیا تو یہ سیلاب ہماری معاشرتی قدروں اور اسلامی روایات کو اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔

چنانچہ گوجرانوالہ کے شہریوں کے منتخب عوامی نمائندہ مولانا قاضی حمید اللہ خان ممبر قومی اسمبلی اور متحدہ مجلس عمل کی مقامی قیادت نے اس سلسلہ میں پیشرفت کا فیصلہ کیا اور ۳ اپریل کو جناح سٹیڈیم گوجرانوالہ میں ہونے والی میراتھن ریس کے موقع پر جی ٹی روڈ پر نوجوان لڑکیوں کی تین کلو میٹر لمبی روڈ کو روکنے کا پروگرام بنا لیا۔ انہوں نے ضلعی انتظامیہ کے ذمہ دار حضرات ڈی سی او اور ڈی پی او کو دو روز قبل خود مل کر آگاہ کیا کہ گوجرانوالہ جیسے مذہبی شہر میں نوجوان لڑکیوں کی جی ٹی روڈ پر دوڑ کو برداشت نہیں کیا جائے گا، مگر ضلعی انتظامیہ نے اس انتباہ کو سنجیدہ توجہ کا مستحق نہ سمجھا اور اس پر کان دھرنے کی بجائے طاقت کے زور پر اپنے ایجنڈے کو پورا کرنے کا فیصلہ کیا۔ ضلعی انتظامیہ نے میراتھن ریس سے دو روز قبل یکم اپریل کو شہر کے دینی مدارس کے ساٹھ لگ بھگ طلبہ کو گرفتار کرکے تین ماہ قبل کے درج کیسوں میں شریک جرم بنا لیا ،ان میں مدرسہ نصرۃ العلوم کے چھ اور الشریعہ اکادمی کے تین طلبہ بھی شامل تھے، مگر اس کے باوجود ۳ اپریل کو میراتھن ریس میں نوجوان لڑکیوں کی دوڑ کو روکنے کا پروگرام متاثر نہ ہوا اور مولانا قاضی حمید اللہ خان متحدہ مجلس عمل کی مقامی قیادت اور سینکڑوں دینی کارکنوں کے ہمراہ عین اس وقت جب لڑکیوں کی جی ٹی روڈ پر تین کلو میٹر لمبی دوڑ کا آغاز ہوا، جناح سٹیڈیم کے مین گیٹ پر جا پہنچے اور احتجاج شروع کر دیا۔

ضلعی انتظامیہ نے اس موقع پر بھی دانشمندی کا مظاہرہ کرنے اور مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کو نمٹانے کی بجائے قوت آزمائی کا راستہ اختیار کیا جس پر مزاحمت اور تصادم کی صورتحال پیدا ہوئی۔ ضلعی انتظامیہ کو لڑکیوں کی دوڑ ختم کرنے کا جو فیصلہ اس سے قبل کر لینا چاہئے تھا وہی فیصلہ اس نے اس خرابی بسیار کے بعد کیا، تصادم میں مولانا قاضی حمید اللہ خان اور ان کے بیٹے قاضی کفایت اللہ سمیت متعدد افراد زخمی ہوئے، جامعہ محمدیہ اہلحدیث گوجرانوالہ کے طالب علم ابوبکر کو جسے ایک پولیس مین نے خود متعدد افراد کے سامنے گولی ماری اور کسی کو اسے سنبھالنے کے لیے قریب آنے کی اجازت نہیں دی، اس کی ٹانگ کٹ چکی ہے، قاضی صاحب سمیت بہت سے کارکن اور طلبہ گرفتار کر لیے گئے اور شہر میں کشیدگی کی ایک نئی صورتحال پیدا ہوگئی۔ مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک بھر میں دینی کارکن بیدار ہوئے اور گوجرانوالہ شہر کے مختلف طبقات اور حلقوں نے متحد ہو کر میراتھن ریس کے متنازعہ پروگراموں اور مولانا قاضی حمید اللہ خان اور ان کے سینکڑوں رفقاء کی گرفتاریوں کے خلاف شدید احتجاج کیا، مرکزی جامع مسجد میں راقم الحروف کی دعوت پر تمام مکاتب فکر کے علماء کرام اور دینی جماعتوں کے راہنماؤں کے متعدد اجتماعات ہوئے، ۸ اپریل کو جی ٹی روڈ پر پرہجوم عوامی مظاہرہ ہوا، ملک بھر سے بیانات آئے، مختلف مقامات سے احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں اور بالآخر صوبائی حکومت کو عوامی جذبات کے احترام میں یہ اعلان کرنا پڑا کہ آئندہ پنجاب میں کسی جگہ بھی میراتھن ریس یا کسی اور نام پر نوجوان لڑکیوں کی برسرعام دوڑ نہیں ہوگی اور اگر کہیں ایسا ہوا تو چار دیواری کے اندر ہوگا۔ مولانا قاضی حمید اللہ خان اور ان کے بہت سے رفقاء رہا ہوچکے ہیں جبکہ بقیہ گرفتار شدگان کی رہائی چند روز تک عمل میں آنے والی ہے۔

ہم اس موقع پر محترم قاضی صاحب، متحدہ مجلس عمل گوجرانوالہ کی قیادت اور اس پروگرام میں شریک ہونے والے دینی کارکنوں، عوامی راہنماؤں اور طلبہ کو اس کامیاب پیشرفت پر مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ ان کی قربانیاں رنگ لائیں، وہ ایک منکر کو نہ صرف اپنے شہر میں بلکہ ملک بھر میں روکنے میں کامیاب ہوگئے اور ان کی جدوجہد اور قربانیوں نے پورے ملک کے دینی کارکنوں کو نئے حوصلہ اور جذبہ سے سرشار کیا۔ اس کے ساتھ ہی ہم حکومت سے عرض کرنا چاہتے ہیں کہ انہیں یہ بات اب بھی سمجھ لینی چاہیے کہ پاکستان بہرحال ایک مسلمان ملک ہے اور اس کے رہنے والے عوام اسلامی اقدار اور معاشرتی روایات کے ساتھ وابستگی رکھتے ہیں، انہیں محض مغرب کی طاقت اور میڈیا کے زور پر مغربی ثقافت کا خوگر نہیں بنایا جا سکتا۔ اس سے قبل بھی طاقت اور میڈیا کے زور پر پاکستانی معاشرہ میں مغربی ثقافت کے فروغ اور اسلامی اقدار و روایات کو کمزور کرنے کی مسلسل کوشش ہوتی رہی ہے جو ایک مخصوص مغرب زدہ حلقے کے سوا عوام میں کہیں بھی اپنی جگہ نہیں بنا سکی۔ اس لیے ہمارے طبقات اور گروہوں کے لیے عقل و دانش کا راستہ یہی ہے کہ وہ مغربی حکمرانوں کے ہر ایجنڈے پر آنکھیں بند کرکے عمل کرتے چلے جانے کی بجائے اپنے ملک کے عوام کے جذبات اور اسلامی اقدار و روایات کی نمائندگی کا راستہ اختیار کریں اور مغربی حکمرانوں پر واضح کریں کہ پاکستانی معاشرہ میں اسلامی روایات و اقدار کو کمزور کرنے اور مغربی ثقافت و کلچر کو عوامی سطح پر فروغ دینے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی ، اس لیے وہ ہم پر اپنی تہذیب جبراً مسلط کرنے میں وقت ضائع نہ کریں اور ہمیں اپنے ملک میں اپنے عقائد اور دینی روایات کے مطابق زندگی بسر کرنے دیں۔

   
2016ء سے
Flag Counter