گزشتہ اتوار کو لاہور میں ملی مجلس شرعی کے زیر اہتمام مختلف مکاتب فکر اور طبقات کے راہنماؤں کا ایک مشترکہ اجلاس منعقد ہوا جو اس لحاظ سے بھرپور اور نمائندہ تھا کہ تمام مکاتب فکر کے ذمہ دار علماء کرام نے اس میں شرکت کی اور ریٹائرڈ جنرل حمید گل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل راجہ ذوالقرنین اور صحافی برادری کی دو سرکردہ شخصیات چودھری اصغر علی وڑائچ اور جناب سلمان غنی بھی شریک ہوئے۔ اجلاس کی صدارت ملی مجلس شرعی کے سربراہ مولانا مفتی محمد خان قادری نے کی جبکہ سرکردہ علماء کرام میں مولانا عبد الرؤف فاروقی، مولانا عبد الرؤف ملک، مولانا حافظ عبد الرحمان مدنی، مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، مولانا قاری زوار بہادر، جناب فرید پراچہ، مولانا محمد حسین اکبر، مولانا قاری جمیل الرحمان اختر، مولانا احمد علی قصوری، حافظ عاکف سعید، مولانا خلیل الرحمان قادری اور مولانا مہدی حسن بطور خاص قابل ذکر ہیں۔
ملی مجلس شرعی کے رابطہ سیکرٹری پروفیسر ڈاکٹر محمد امین نے مہمانوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے اجلاس کی غرض و غایت سے انہیں آگاہ کیا جبکہ راقم الحروف نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے عرض کیا کہ ملی مجلس شرعی کے قیام کا مقصد بنیادی طور پر یہ ہے کہ ملک و ملت کو درپیش اجتماعی مسائل کے بارے میں مختلف مکاتب فکر کے اجتماعی موقف کے اظہار کا کوئی ایسا فورم موجود ہونا چاہیے جو سیاسی کشمکش سے الگ رہ کر خالصتاً علمی و فکری بنیادوں پر رائے عامہ کی رہنمائی کرے اور اس کے لیے ہم گزشتہ تین برس سے اس مشترکہ فورم کو منظم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ ملی مجلس شرعی کے فورم پر ہم سب کی مشترکہ رائے یہ ہے کہ اس وقت ہمارا سب سے بڑا قومی مسئلہ قومی خودمختاری کا تحفظ ہے، جسے میں تحفظ کی بجائے بحالی سے تعبیر کرتا ہوں اور ہم سب سمجھتے ہیں کہ جب تک ہم اپنے فیصلے خود کرنے کی پوزیشن میں نہیں آجاتے اور غیر ملکی مداخلت سے نجات حاصل نہیں کر لیتے اس وقت تک ہم اپنا کوئی بھی مسئلہ حل نہیں کر سکتے۔ اس لیے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ ملک کی تمام سیاسی و دینی جماعتوں اور تمام طبقات کو اس ضرورت کا احساس دلاتے ہوئے بیدار کیا جائے اور اس مقصد کے لیے عوامی تحریک کی راہ ہموار کی جائے۔
اجلاس میں درجن بھر مقررین نے اس مسئلہ پر اظہار خیال کیا اور سب نے اس بات پر زور دیا کہ ’’غیر ملکی مداخلت کا سدباب اور قومی خودمختاری کا تحفظ‘‘ کے ایک نکاتی ایجنڈے پر رائے عامہ کو بیدار اور منظم کرنے کے لیے عملی پیشرفت کی جائے۔ اجلاس میں شرکاء کے جذبات اس حوالہ سے ایک دوسرے سے بڑھ کر تھے اور سب نے اس عزم کا اظہار کیا کہ عوامی تحریک کو منظم کرنے اور اسے آگے بڑھانے میں وہ مسلکی ترجیحات سے بالاتر ہو کر کام کریں گے اور کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ شرکاء اجلاس نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اس تحریک کے لیے دینی و سیاسی جماعتوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے تمام طبقات کو بھی متحرک کرنے کی کوشش کی جائے اور وسیع تر رابطہ کا اہتمام کیا جائے۔ اجلاس میں متفقہ موقف کے اظہار کے لیے مندرجہ ذیل اعلامیہ کی منظوری دی گئی:
’’ہم مختلف تنظیموں، اداروں اور افراد نے ملی مجلس شرعی کی دعوت پر آج اس امر پر غور کیا کہ قومی خودمختاری کا تحفظ کیسے کیا جائے؟ بحث و مناقشے کے بعد ہم متفقہ طور پر اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ پاکستان اس وقت بحرانی کیفیت میں ہے، عوام قتل و غارتگری اور مصائب و مشکلات کا شکار ہیں اور قومی سلامتی خطرے میں ہے۔ ان حالات کا بنیادی سبب امریکہ ہے جس نے پہلے عراق کو تباہ و برباد کیا، پھر افغانستان کی اسلامی حکومت کو ختم کیا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجائی اور اب اس جنگ کو پاکستان پر مسلط کر رہا ہے۔ پاکستان کے بعض ہوائی اڈے اس کے تصرف میں ہیں، اس کے جنگی جہاز آئے روز شمالی علاقوں میں بمباری کرتے ہیں، بلیک واٹر جیسی امریکی تنظیمیں پاکستان دشمن سرگرمیوں میں فعال ہیں، بلوچستان میں آزادی کے نعرے لگوائے جا رہے ہیں اور پاکستانی شہروں میں دہشت گردانہ حملے معمول بن چکے ہیں۔ امریکہ یہ ساری کارروائیاں اپنے یورپین حلیفوں، بھارت، اسرائیل، افغانستان اور دیگر مخالفینِ پاکستان کے ساتھ مل کر کر رہا ہے تاکہ (خدانخواستہ) پاکستان کمزور ہو کر ٹوٹ جائے اور اس کے ایٹمی اثاثوں پر حفاظت کے نام پر قبضہ کر لیا جائے۔ پاکستان میں نفوذ کی پر امن سرگرمیاں اس پر مستزاد ہیں جیسے قرضوں کی معیشت اور مہنگائی کا فروغ، میڈیا اور نظام تعلیم میں مداخلت، فحاشی و عریانی میں اضافہ تاکہ اسلامی اقدار کمزور ہوں اور پاکستانی معاشرے پر مغربی فکر و تہذیب مسلط کر دی جائے۔ ان امریکی اقدامات کے محرکات اسلام اور مسلم دشمنی، اپنے مفادات کا تحفظ اور عالم اسلام پر مغربی فکر و تہذیب کے غلبہ کا حصول ہے۔
بلاشبہ پرویز مشرف اور اس کے بعد موجودہ حکومت بھی اس صورتحال کی ذمہ دار ہے جس نے اپنے گروہی مفادات کے لیے امریکی آلہ کار بننا قبول کر لیا اور اب رفتہ رفتہ پوری قوم کو امریکی مفادات اور ان کے مکروہ عزائم کی بھینٹ چڑھانے کے درپے ہے۔
اس صورتحال کے ذمہ دار خودساختہ طالبان اور دوسری شدت پسند تنظیموں کے بعض عناصر بھی ہیں جنہوں نے نفاذ شریعت کے معاملے میں پہلے پاکستان کے غیر صالح حکمرانوں سے مایوس ہو کر اس کام کو قوت سے کرنا چاہا اور اب وہ دانستہ یا نادانستہ اس جدوجہد میں امریکیوں اور بھارتیوں کے آلہ کار بن چکے ہیں۔
اب ان حالات سے نکلنے، غیر ملکی اثرات کے خاتمے اور اسلام اور نظریہ پاکستان کے استحکام کی اس کے سوا کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں، دینی تنظیمیں، سول سوسائٹی، وکلاء، طلباء، اساتذہ، اہل صحافت، ادباء، پروفیسرز، ڈاکٹرز، انجینئرز متحدہ ہو کر جدوجہد کریں۔ چنانچہ ہم ’’قومی خود مختاری کا تحفظ‘‘ کے ایک نکاتی ایجنڈے پر پراَمن عوامی تحریک کی راہ ہموار کرنے کا اعلان کرتے ہیں اور قوم سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اٹھ کھڑی ہو اور ہمارا ساتھ دے۔ ہم نے تحریک کے سلسلہ میں رابطوں کے لیے ان افراد پر مشتمل ایک اسٹیئرنگ کمیٹی تشکیل دے دی ہے:(۱) مولانا مفتی محمد خان قادری (۲) جنرل حمید گل (۳) راجہ ذوالقرنین (۴) مولانا حافظ عبد الرحمان مدنی (۵) مولانا عبد الرؤف فاروقی (۶) مولانا قاری زوار بہادر (۷) مولانا احمد علی قصوری۔ یہ کمیٹی تحریک کا لائحہ عمل، تنظیمی ڈھانچہ اور پروگرام طے کرے گی۔ ہم اللہ تعالیٰ سے نصرت اور کامیابی کی دعا کرتے ہیں کہ پاکستانی عوام کے مسائل حل ہوں اور پاکستان ایک مستحکم اسلامی مملکت کے طور پر اپنا کردار باوقار طریقے سے انجام دے سکے۔‘‘
اجلاس میں اظہار خیال کرنے والے تمام زعماء کی گفتگو صورتحال کی سنگینی اور حالات کی نزاکت کی غمازی کر رہی تھی مگر جنرل (ر) حمید گل اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سیکرٹری جنرل راجہ ذوالقرنین کی گفتگو سب سے زیادہ اہمیت کی حامل تھی جس نے نہ صرف شرکاء اجلاس کو حوصلہ دلایا بلکہ ان امکانات کی بھی نشاندہی کی جو قومی خودمختاری کی بحالی کی تحریک کے سلسلہ میں اب واضح طور نظر آرہے ہیں۔
راجہ ذوالقرنین نے سپریم کورٹ کی خودمختاری کی بحالی کے لیے وکلاء کی تاریخی جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہم نے اس وقت ہی یہ محسوس کر لیا تھا کہ ہماری اصل جنگ ملک کی اسٹیبلشمنٹ سے نہیں بلکہ عالمی استعمار سے ہے اور استعماری قوتیں ہی ملک میں عدلیہ سمیت تمام قومی اداروں کو ناکام اور غیر مؤثر بنانے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان پر امریکہ اور دیگر استعماری قوتوں نے حملہ کر رکھا ہے اور ہم اس وقت حالتِ جنگ میں ہیں۔ یہ حملہ صرف پاکستان پر نہیں بلکہ پورے عالم اسلام پر ہے اور ہم سب کو پوری طرح متحد ہو کر یہ جنگ لڑنی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملی مجلس شرعی نے جو قدم اٹھایا ہے وکلاء برادری اس کا خیرمقدم کرتی ہے اور قومی خودمختاری کی بحالی کی جدوجہد میں ہم وکلاء بھی آپ کے ساتھ ہیں۔
جنرل حمید گل نے اپنے خطاب میں دینی قوتوں پر زور دیا کہ وہ موجودہ حالات کے ساتھ مستقبل کے امکانات پر بھی نظر رکھیں کیونکہ افغانستان سے امریکہ کا جانا ٹھہر گیا ہے، جہاں اس کے بعد اسلامی حکومت قائم ہوگی اور شریعت اسلامیہ پھر سے نافذ ہوگی۔ پاکستان کے دینی حلقوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ افغانستان میں صحیح خطوط پر نفاذ اسلام کے لیے رہنمائی کریں اور پاکستان میں پر امن جمہوری ذرائع سے اسلامی نظام کے نفاذ کی منزل حاصل کرنے کے لیے حوصلہ و تدبر اور جرأت و استقامت کے ساتھ آگے بڑھیں۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ عالمی نظام ناکام ہو چکا ہے اور اسلام کے سوا اور کوئی نظام دنیا میں موجود نہیں ہے جو اس کی جگہ لے سکے اور دنیا کی قیادت کر سکے، لیکن اسلام اب عوامی رائے کے ساتھ اور پر امن جدوجہد کے ذریعے آئے گا اور اس حقیقت کا ادراک رکھنے والے علماء اور دینی قوتیں ہی اس سلسلہ میں کردار ادا کر سکیں گے۔
جنرل حمید گل نے کہا کہ ہمارے قبائلی علاقوں میں جان بوجھ کر اشتعال پیدا کیا گیا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ لال مسجد کا المناک سانحہ اسی سازش کا حصہ تھا کہ اشتعال پیدا کر کے قبائلی عوام کو فوج کے مقابلہ میں لایا جائے لیکن ہمارے بہت سے دوست اس سازش کو نہیں سمجھ پاتے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے ان مشتعل دوستوں کو سمجھائیں اور انہیں یقین دلائیں کہ وہ اگر تشدد کا راستہ ترک کر دیں تو نفاذ شریعت کی پر امن جدوجہد اور عوامی تحریک میں پوری قوم ان کے ساتھ ہوگی۔