پاکستان میں ۸ اکتوبر کو جو خوف ناک زلزلہ آیا ہے اور جس کے جھٹکوں کا تسلسل ابھی تک جاری ہے، اس کی تباہ کاریوں نے پوری دنیا کو ملول اور افسردہ خاطر کر دیا ہے۔ پاکستانی قوم اور اس کی بہی خواہ اقوام زلزلہ سے متاثر ہونے والوں تک پہنچنے اور باقی بچ جانے والوں کو دوبارہ آباد کرنے کے لیے امدادی سرگرمیوں میں مسلسل مصروف ہیں۔ پاکستانی فوج اور دیگر سرکاری ادارے سرگرم عمل ہیں جبکہ ان کے ساتھ دینی، سیاسی وسماجی تنظیمیں اور عوام کے مختلف گروپ بھی امدادی کاموں میں شریک ہیں مگر ابھی تک نہ تو زلزلہ میں ہونے والے جانی نقصانات کا صحیح طور پر اندازہ کیا جا سکا ہے اور نہ ہی زلزلہ کی زد میں آنے والی تمام بستیوں اور انسانوں تک رسائی ممکن ہو سکی ہے۔ یہ قدرت کی مخفی قوتوں کے سامنے انسان کی بے بسی اور کمزوری کا ایک ایسا اظہار ہے جس کی کیفیت وکمیت میں سائنسی ترقی اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی۔
قرآن کریم نے گزشتہ اقوام کے حوالے سے زلزلہ، طوفان اورسیلاب جیسی قدرتی آفات کا تذکرہ قوموں کی اجتماعی بد اعمالیوں پر سزا اور عذاب کے طور پر کیا ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت سے پہلے انسانی سوسائٹی میں عام ہونے والی بد اعمالیوں پر تنبیہ اور عذاب کے طور پر ایسی قدرتی آفات کے رونما ہونے کی متعدد احادیث نبویہ میں پیش گوئی فرمائی ہے۔ اس لیے زلزلہ اور اس کے نقصانات کا ظاہری اسباب کے حوالے سے جائزہ لینے اور ایسے اسباب کو روکنے کی تدابیر اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں ایسی آفات کے روحانی اور باطنی اسباب اور عوامل پر بھی نظر رکھنی چاہیے اور قرآن وسنت کے ساتھ ساتھ گزشتہ اقوام کی تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے ان روحانی اسباب وعوامل کو تلاش کرنا اور ان کا تعین کرنا کوئی مشکل امر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا ادراک اور احساس عطا فرمائیں، آمین۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ یہ تھی کہ ایسے مواقع پر وہ اللہ تعالیٰ کے حضور پریشانی کا اظہار فرماتے اور کثرت سے استغفار کرتے تھے، اس لیے ہمارے لیے بھی اسوۂ نبوی یہی ہے کہ توبہ واستغفار کا اہتمام کریں اور اپنے اعمال وکردار پر نگاہ کرتے ہوئے ان کی اصلاح کی کوشش کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ اور استغفار کو اجتماعی طور پر اپنا معمول بنائیں۔
زلزلہ سے متاثر ہونے والے بھائیوں کی مدد ہماری دینی، اخلاقی اور قومی ذمہ داری ہے جس کے لیے ہمیں تمام ممکن ذرائع اختیار کرنے چاہییں اور ان کی بحالی وآبادی کے لیے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرنا چاہیے۔ اس زلزلہ کی تباہ کاریوں نے ہماری بہت سی کمزوریوں اور کوتاہیوں کو بے نقاب کر دیا ہے جن کو دور کرنے کے لیے خصوصی توجہ اور محنت کی ضرورت ہے، لیکن پاکستانی قوم نے جس یک جہتی، ہم آہنگی اور ایثار وقربانی کے ساتھ اپنے متاثرہ بھائیوں کی امداد وبحالی کی طرف پیش رفت کی ہے، اس نے اطمینان کا یہ پہلو بھی اجاگر کر دیا ہے کہ پاکستان کے شہریوں اور اس ملک کے مسلمانوں میں خیر کا جذبہ بحمد اللہ تعالیٰ ابھی تک موجود ہے جسے صحیح راہنمائی اور قیادت میسر آ جائے تو وہ دنیا بھر کے لیے خیر کی نمائندہ اور علامت بن سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ جاں بحق ہونے والوں کی مغفرت فرمائیں، بے آباد ہونے والوں کو دوبارہ پہلے سے بہتر آبادی نصیب کریں، پوری قوم کو صبر وحوصلہ کے ساتھ اس صدمہ سے عہدہ برآ ہونے کی توفیق دیں اور قوم میں خیر کا جو اجتماعی جذبہ ایک بار پھر ابھر کر سامنے آیا ہے، اسے ہماری اجتماعی صلاح اور خیر کے دوسرے پہلووں کی طرف پیش رفت کا ذریعہ بنائیں، آمین۔
اس سال عید الفطر اس ماحول میں آ رہی ہے کہ ہم ابھی تک شہدا کی لاشوں کی تلاش، زخمیوں کے علاج اور بے گھر ہونے والے ہزاروں خاندانوں کی آباد کاری میں مصروف ہیں، اس لیے اس موقع پر سادگی کا اہتمام زیادہ ضروری ہے۔ ہم عید کے موقع پر معمول سے زیادہ جو اخراجات کرتے ہیں، ان کے مستحق ہمارے وہ بھائی بہنیں اور بچے ہم سے زیادہ ہیں جو کھلے آسمان کے نیچے بے بسی کے ساتھ سخت سردی کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کے غم واندوہ میں کمی کرنے کی کوئی بھی کوشش ہمارے لیے عید کی ان مصنوعی خوشیوں سے زیادہ اطمینان بخش ہونی چاہیے جن کا ہم ہر سال بھرپور تکلف کے ساتھ اہتمام کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔