اقلیتوں کے حقوق: چند ضروری گزارشات

   
۲۴ مارچ ۲۰۰۲ء

چرچ کے حوالے سے اس ہفتے تین خبریں سامنے آئیں۔ ایک یہ کہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب نے مسیحی رہنماؤں کو مسجد میں آنے کی دعوت دی اور انہیں مسجد میں اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کا موقع فراہم کیا۔ دوسری خبر یہ کہ اسلام آباد کے ایک انٹرنیشنل چرچ میں اتوار کے روز عبادت میں مصروف افراد پر دستی بموں سے حملہ کیا گیا، جس سے متعدد افراد جاں بحق اور زخمی ہو گئے۔ اور تیسری خبر یہ کہ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر جناب قاضی حسین احمد نے مسیحی رہنما جے سالک سے ملاقات کر کے ان سے اسلام آباد کے مذکورہ سانحہ پر اظہارِ تعزیت کیا اور ان سے کہا کہ وہ پنجرے سے باہر نکل کر عوام میں آئیں اور اپنی کمیونٹی کی خدمت کریں۔

ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب نے مسجد میں مسیحی رہنماؤں کو عبادت کا موقع دے کر جس خیرسگالی کا مظاہرہ کیا ہے اس کے لیے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ کا حوالہ دیا جا رہا ہے کہ جب نجران کے عیسائی رہنماؤں کا ایک وفد جناب نبی اکرمؐ سے ملاقات و گفتگو کے لیے مدینہ منورہ آیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی میزبانی کی اور انہیں مسجد نبویؐ کے صحن میں ٹھہرانے کے علاوہ مسجد میں اپنے مذہب کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت بھی مرحمت فرمائی۔ ڈاکٹر صاحب کا خیال ہے کہ اس طرح ایک سنت نبویؐ پر عمل کے ساتھ ساتھ مسلمانوں اور مسیحی کمیونٹی کے درمیان خیرسگالی میں بھی اضافہ ہو گا۔

ہمیں اس سے انکار نہیں ہے، مگر یہ عرض کرنا بھی شاید نامناسب نہ ہو کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اعزاز و اکرام اور مسجد میں عبادت کی اجازت دینے تک معاملہ کو محدود نہیں رکھا تھا، بلکہ اسی موقع پر پہلے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی، اور اس بات کو قبول نہ کرنے پر مسیحی رہنماؤں کو اسلام اور مسیحیت کے درمیان مشترک اقدار پر مل جانے کی پیشکش فرمائی تھی جس کا ذکر قرآن کریم کی سورۃ آل عمران کی آیت ۲۴ میں اس طرح کیا گیا ہے۔

’’اے محمد (ﷺ)! ان سے کہہ دیجیے کہ اے اہل کتاب! آؤ ہم اس بات پر اکٹھے ہو جائیں جو ہمارے اور تمہارے درمیان قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہے کہ ہم (۱) اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں۔ (۲) اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ (۳) ہم میں سے کوئی دوسرے کو اللہ تعالیٰ کے سوا اپنا رب نہ بنائے۔ پس اگر وہ اس بات کو قبول نہ کریں تو آپ کہہ دیں کہ ہم تو حکم کو ماننے والے ہیں۔‘‘

گویا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں اور مسیحیوں میں خیرسگالی اور مفاہمت کی فضا قائم کرنے کے لیے توحید باری تعالیٰ کے اقرار، شرک کی نفی، اور انسان پر انسان کی خدائی سے انکار کو قدر مشترک کے طور پر آخری نکات قرار دیا ہے۔ اور ان کے قبول نہ کیے جانے کی صورت میں مفاہمت اور خیرسگالی کے عمل سے لاتعلقی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔

عرب کے معروف سخی حاتم طائیؒ کے بیٹے حضرت عدی بن حاتمؓ صحابی رسولؐ تھے اور اسلام قبول کرنے سے قبل عیسائی رہ چکے تھے۔ انہوں نے اس آیت کے حوالے سے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ! ہم تو آپس میں کسی کو اپنا رب تسلیم نہیں کرتے تھے۔ اس پر نبی اکرمؐ نے دریافت کیا کہ کیا تم نے اپنے علماء اور راہنماؤں کو حلال و حرام کے اختيارات تفویض نہیں کر رکھے تھے؟ انہوں نے جواب اثبات میں دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان پر انسان کی خدائی سے یہی مراد ہے۔

اس پس منظر میں دیکھا جائے تو آج مسیحی رہنماؤں کے ساتھ خیرسگالی اور مفاہمت کے اظہار کے لیے بنیادی شرط شرک سے بیزاری کا اظہار اور خدا کی حاکمیت مطلقہ تسلیم کر کے انسان پر انسان کی حکمرانی (سیکولرازم) کی نفی قرار پائے گی، اور اس کے بغیر مسیحیت کے مذہبی رہنماؤں کے ساتھ کسی قسم کی خیرسگالی کے اظہار کو سنت نبویؐ قرار دینا درست نہیں ہو گا۔ ہمیں مسیحی رہنماؤں کے ساتھ ہم آہنگی اور خیرسگالی کی ضرورت و اہمیت سے انکار نہیں، بلکہ ہم تو اس بات کے داعی ہیں کہ مسلمانوں اور مسیحی امت کی مذہبی قیادت آسمانی تعلیمات کی بالادستی کے قیام، خدا کی حاکمیت کے اعلان، اور انسانی سوسائٹی پر انسانوں ہی کے کسی گروہ کی حکمرانی کی نفی کے لیے متحد ہو کر کام کرے، لیکن اس کے لیے مسیحی مذہبی رہنماؤں کو اپنے اس طرزعمل پر نظرثانی کرنا ہو گی کہ وہ بات تو مذہب کی کرتے ہیں لیکن ان کی عملی سرگرمیاں لامذہبیت کے فروغ کا باعث بن رہی ہیں۔ اس لیے ہم ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب سے گزارش کریں گے کہ وہ اس کارِخیر کا سلسلہ ضرور آگے بڑھائیں لیکن اسے ادھورا چھوڑنے کی بجائے جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق مکمل کرنے کی کوشش بھی فرمائیں۔

جہاں تک اسلام آباد کے چرچ پر دستی بموں کے حملہ کا تعلق ہے اس کی ہر باشعور شخص نے مذمت کی ہے اور اس کی جس قدر بھی صفائیاں پیش کی جائیں کہ اصل ہدف صرف امریکی تھے اور چرچ کو بطور چرچ نشانہ نہیں بنایا گیا، لیکن اس کے باوجود یہ عمل قابلِ مذمت ہے۔

  • اس حوالے سے بھی کہ یہ حملہ ایک عبادت گاہ پر کیا گیا ہے، جبکہ اسلام ہمیں اپنی ریاست میں موجود غیرمسلموں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کا حکم دیتا ہے اور عبادت گاہ کی حدود کے اندر غیرمسلموں کو عبادت کا مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔
  • یہ حملہ اس لیے بھی قابل مذمت ہے کہ اگر صرف امریکیوں کو نشانہ بنانا بھی مقصود ہو مگر اس حملہ میں بہت سے غیر متعلق لوگ زد میں آئے ہیں اور انسانی خون کو اس طرح ناحق بہانے کی اسلام کسی طور بھی اجازت نہیں دیتا۔
  • پھر موجودہ عالمی اور علاقائی حالات میں اس حوالے سے اس حملہ کی سنگینی میں اور زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کے وحشیانہ قتل عام کے خلاف جو صدائے احتجاج منظم ہو رہی ہے اور عالمی رائے عامہ کو اس طرف توجہ دلانے کے لیے کام جاری ہے، اس حملہ نے اس مہم کو کمزور کر دیا ہے اور عالمی رائے عامہ کی توجہ بھارت کے مظلوم مسلمانوں کے قتل عام سے ہٹ کر اسلام آباد میں مسیحی عبادت گزاروں کے قتل کی طرف مبذول ہو گئی ہے۔

اس لیے ہم نہیں سمجھتے کہ یہ حرکت اسلام اور پاکستان کے کسی بھی طبقہ نے کی ہو گی اور نتائج کے حوالے سے اسے پاکستان اور اسلام کے خلاف کام کرنے والی بین الاقوامی ایجنسیوں کی کارستانی ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔

باقی رہی بات امریکیوں کو ہدف بنانے کی، تو ہم اس بات کو بھی درست نہیں سمجھتے کہ سب امریکیوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جائے اور حکمرانوں کے جرائم کی سزا عام شہریوں کو دی جائے۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ امریکی عوام کو یہ بات سمجھائی جائے کہ تمہارے حکمرانوں نے یہودی سازشوں کے نتیجے میں عالمِ اسلام بالخصوص فلسطین، افغانستان، کشمیر اور دیگر مظلوم مسلم خطوں کے بارے میں جو طرزعمل اختیار کر رکھا ہے وہ خود امریکی عوام کے مفاد میں نہیں ہے۔ اور امریکی عوام اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں کھڑا کرنے کی پالیسیاں امریکی عوام کے اپنے مستقبل کو مخدوش بنا دیں گی۔ مگر اس کی بجائے اگر وہ کچھ ہو گا جو اسلام آباد میں ہوا ہے تو اس سے امریکی عوام کے ساتھ بات کرنے کے امکانات مزید مخدوش ہو جائیں گے، اور وہی کچھ ہو جائے گا جو بین الاقوامی یہودی سازشی گروہ مسلمانوں اور مسیحیوں کو ایک دوسرے کے مقابل لانے اور گتھم گتھا کر دینے کے لیے کرنا چاہ رہا ہے۔

عام امریکی شہریوں کو نشانہ بنانے کی مذمت اور اسے قطعی طور پر ناجائز اور ظلم قرار دینے کے باوجود امریکی حکمرانوں سے ہم یہ ضرور عرض کرنا چاہیں گے کہ یہ سب کچھ ان کی اپنی پالیسیوں کا منطقی نتیجہ ہے۔ اور انہیں اپنے شہریوں کے قتل پر افسوس اور غصہ کا اظہار کرتے وقت ان ہزاروں بلکہ لاکھوں مقتولین کی لاشوں کا تصور بھی ذہنوں میں تازہ کر لینا چاہیے جو دنیا کے مختلف خطوں میں ان کے حملوں سے جاں بحق ہوئے ہیں، جبکہ ان کا امریکہ کے خلاف کسی جنگ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا۔ اگر امریکہ اپنے اہداف کو نشانہ بناتے ہوئے غیر متعلقہ شہریوں اور عمارتوں کو حملوں کی زد میں لانے کو مجبوری قرار دے کر اسے اپنا حق قرار دیتا ہے، تو اسے ان حملوں کا نشانہ بننے والوں سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ وہ اپنے ردعمل کا اظہار کرتے وقت اصل ہدف اور غیر متعلقہ افراد کے درمیان کوئی فرق قائم کر سکیں گے۔ اس لیے اپنے شہریوں کو اس قسم کے حملوں سے بچانے کی ذمہ داری خود امریکی حکمرانوں پر ہے کہ وہ ایسے کسی عمل سے گریز کریں جس کے ردعمل سے ان کے عوام کو بچانا مشکل ہو جائے، کیونکہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بلکہ دو ہاتھوں سے بجتی ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter