تحریک شیخ الہند سے رہنمائی لینے کی ضرورت

   
جلال بابا آڈیٹوریم، ایبٹ آباد
۱۳ جون ۲۰۱۲ء

۱۳ جون کو جلال بابا آڈیٹوریم ایبٹ آباد میں جمعیۃ علمائے اسلام ضلع ایبٹ آباد کے زیراہتمام شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی یاد میں سیمینار کا اہتمام کیا گیا جس سے مولانا گل نصیب خان، مولانا حبیب الرحمان قریشی، مولانا فضل الہادی، مولانا شکیل احمد اور دیگر علماء نے خطاب کیا۔ جبکہ مختلف تعلیمی اداروں کے طلبہ کے درمیان حضرت شیخ الہندؒ کی جدوجہد اور خدمات کے حوالہ سے تقریری مقابلہ کے لیے بھی ایک نشست منعقد ہوئی جس میں اول، دوم اور سوم آنے والے مقررین کو انعامات دیے گئے۔ راقم الحروف نے بھی اس سیمینار میں کچھ گزارشات پیش کیں جن کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے:

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ شیخ الہندؒ حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی خدمات اور جدوجہد کے تذکرہ کے لیے اس تقریب کا اہتمام کرنے پر ایبٹ آباد کی جے یو آئی مبارک باد اور شکریہ کی مستحق ہے۔ یہ آج کی ایک اہم ضرورت ہے کہ ہم اپنے اسلاف اور بزرگوں کی یاد کو تازہ رکھیں اور ان میں حضرت شیخ الہندؒ کی ذات ایک مرکزی اور اہم شخصیت کی حامل ہے۔ شیخ الہندؒ دارالعلوم دیوبند کے پہلے طالب علم تھے اور پھر دارالعلوم کے صدر مدرس اور استاذ الاساتذہ کے منصب تک پہنچے اور اپنے دور میں علمائے کرام اور اہل دین کے مرجع کی حیثیت حاصل کی۔ ان کی یاد میں بزرگوں کا تذکرہ بھی ہے، ماضی کے ساتھ تعلق کی تازگی بھی ہے اور آج کے حالات میں فکری، علمی اور سیاسی راہنمائی کا سامان بھی ہے کہ ہم آج ایسے دور سے گزر رہے ہیں کہ میری طالب علمانہ رائے میں حضرت شیخ الہندؒ کی تعلیمات و افکار اور حکمت عملی ہی ہماری سب سے بڑی راہنما ثابت ہو سکتی ہے۔ مگر اس سے قبل ابھی ایک دوست نے جو نظم پڑھی ہے اس کے بارے میں ایک واقعہ یاد آگیا ہے اس کا تذکرہ مناسب سمجھتا ہوں، اس نظم میں کہا گیا ہے کہ:

اے مرے ہم نشیں چل کہیں اور چل اس چمن میں ہمارا گزارا نہیں
بات پھولوں کی ہوتی تو سہہ لیتے ہم اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں

۱۹۷۷ء کے دوران پاکستان قومی اتحاد کی تحریک نظامِ مصطفٰیؐ کے جلسوں میں یہ نظم اکثر جگہ پڑھی جاتی تھی۔ یہ عوامی تحریک تھی، ہر طرف عوام سڑکوں پر تھے، جلسوں جلوسوں اور مظاہروں کا ماحول تھا، لاٹھی چارج، گرفتاریاں فائرنگ روز کا معمول تھا، ہزاروں علماء اور کارکن گرفتار ہوئے سینکڑوں نوجوان سڑکوں پر شہید ہوئے۔ اس دوران سیاسی دینی کارکن اس نظم کے ذریعے اپنے احساسات و جذبات کا عوامی جلسوں میں اظہار کیا کرتے تھے، خود میں بھی اکثر اسے گنگنایا کرتا تھا۔ اس دوران گوجرانوالہ میں ایک جلسہ کے دوران یہ نظم کسی نوجوان نے پڑھی جس سے پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ حضرت مولانا مفتی محمودؒ نے خطاب کرنا تھا۔ مفتی صاحبؒ نے اپنے خطاب سے پہلے پڑھی جانے والی یہ نظم سنی اور اپنے خطاب کا آغاز اسی پر تبصرہ سے کیا کہ اس نظم میں کارکنوں کے احساسات و جذبات کی ترجمانی کی گئی ہے لیکن ’’چل کہیں اور چل‘‘ کے پیغام سے مجھے اتفاق نہیں ہے، یہ ہمارا ملک ہے، ہمارا وطن ہے اور اس میں ظالمانہ نظام کے خلاف ہماری جنگ ہے جو کامیابی تک جاری رہے گی، ہم یہیں رہیں گے اور یہاں سے کہیں اور نہیں جائیں گے بلکہ یہاں سے ظالموں کو اور ظالمانہ نظام کو بھگائیں گے، یہ ’’چل کہیں اور چل‘‘ فرار کا پیغام ہے اور حق کی جدوجہد کرنے والوں کے شایانِ شان نہیں ہے۔ حضرت مفتی صاحبؒ کے اس ارشاد کا حوالہ دینے کے ساتھ میں بھی یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہماری جنگ عالمی استعمار کے خلاف ہے اور جس طرح کی یہ جنگ ہے ہمیں اپنا حوصلہ بھی اسی کے مطابق بلند رکھنا ہوگا۔ بہرحال اس دوست سے یہ نظم ایک طویل عرصہ کے بعد سننے کی وجہ سے یہ واقعہ مجھے یاد آگیا جو میں نے عرض کر دیا ہے۔

حضرت شیخ الہندؒ کی تحریک جسے ہم ’’تحریک ریشمی رومال‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں، برطانوی سی آئی ڈی کی رپورٹوں میں اسے ’’ریشمی خطوط سازش کیس‘‘ کے عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے جبکہ جرمنی کے خفیہ اداروں کی رپورٹوں میں یہ ’’جرمن پلان‘‘ کہلاتی ہے۔ اس کے بارے میں پنجاب میں برطانوی گورنر سرمائیکل اوڈوائر کی یادداشتوں کے حوالہ سے کچھ تفصیلات روزنامہ اسلام کے ایک کالم میں پیش کر چکا ہوں جو اکثر دوستوں نے پڑھ لیا ہوگا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت شیخ الہندؒ نے آزادیٔ وطن کے لیے اپنے شاگردوں کے ایک حلقہ کو تیار کیا، ان کی ذہن سازی کی، ان کی فکری و علمی تربیت کی اور ایک منظم منصوبہ تیار کیا۔ اس وقت کا عالمی منظر یہ تھا کہ برطانوی اتحاد اور جرمنی آمنے سامنے تھے، جاپان اور خلافت عثمانیہ بھی برطانوی اتحاد کے مخالف تھے اور خلافت عثمانیہ اگرچہ کمزور ہو چکی تھی لیکن موجود تھی۔ افغانستان میں امیر حبیب اللہ خان مرحوم کی آزاد حکومت تھی اور حجاز مقدس خلافتِ عثمانیہ کا ایک صوبہ تھا۔ مکہ مکرمہ میں شریف مکہ کے عنوان سے ایک ہاشمی سردار سید حسین خلافتِ عثمانیہ کی طرف سے گورنر تھے۔ یہ گورنر جنہیں شریف مکہ حسین کہا جاتا ہے، اردن کے موجودہ بادشاہ عبد اللہ کے پردادا تھے اور اردن کا نام اسی نسبت سے ’’المملکۃ الاردنیۃ الہاشمیۃ‘‘ رکھا گیا ہے۔

اس تناظر میں شیخ الہندؒ اور ان کے رفقاء نے یہ منصوبہ تیار کیا کہ اگر برطانیہ کے بین الاقوامی مخالفین سے رابطہ قائم کر کے تعاون حاصل کیا جائے، خلافت عثمانیہ اور افغانستان کی اسلامی حکومتوں سے پشت پناہی کی درخواست کی جائے اور اندرون ملک مجاہدین کی کھیپ تیار کر کے برطانوی حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا جائے تو متحدہ ہندوستان کی آزادی کی منزل حاصل کی جا سکتی ہے۔ حضرت شیخ الہندؒ کا ارشاد یہ تھا جو درست ثابت ہوا کہ عالم اسلام کے جو ممالک اس وقت غلام ہیں ان کی آزادی صرف اس صورت میں ہوگی جب متحدہ ہندوستان برطانیہ کی غلامی سے آزاد ہوگا کیونکہ جب تک جنوبی ایشیا برطانوی استعمار کے زیر تسلط ہے مسلم ممالک کی آزادی کے خواب کی تعبیر ممکن نہیں ہے، اس لیے سب مسلمان ممالک کو مل کر آزادیٔ ہند کی جدوجہد کو کامیاب بنانا چاہیے تاکہ عالم اسلام کی آزادی کی راہ ہموار ہو۔ چنانچہ اس خطہ کی آزادی کے بعد عالم اسلام کے ممالک کی لگاتار آزادی نے حضرت شیخ الہندؒ کے اس موقف کو درست ثابت کیا اور ان کی فراست و بصیرت پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔

اس منصوبہ کے مطابق جرمنی اور جاپان کے ساتھ ساتھ خلافتِ عثمانیہ اور افغانستان کے ساتھ رابطہ کر کے انہیں قائل کیا گیا اور ان سب میں اس منصوبہ پر اصولی اتفاق ہوگیا جس کی کچھ تفصیلات ریشمی کپڑے پر خفیہ انداز میں تحریر کی گئیں جو حضرت شیخ الہندؒ کو مکہ مکرمہ پہنچائی جانی تھیں، وہ اس منصوبہ کے آخری مرحلہ کی تکمیل کے لیے مکہ مکرمہ میں مقیم تھے اور خلافتِ عثمانیہ کے وزیر جنگ سے ملاقات کر چکے تھے۔ پنجاب کے انگریز گورنر لیفٹیننٹ سر مائیکل اوڈوائر کا کہنا ہے کہ یہ ریشمی خطوط کسی ذریعے سے اس کے ہاتھ لگ گئے جس سے منصوبہ کا راز فاش ہوگیا اور اس تحریک کو کچل دیا گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ ہر لحاظ سے مکمل اور قابل عمل تھا اور اس دور میں منصوبہ بندی کی کامیابی کے لیے جو ممکنہ ذرائع اختیار کیے جا سکتے تھے وہ سب اس کا حصہ تھے لیکن یہ ہماری خوش نصیبی تھی کہ منصوبہ ہمارے ہاتھ لگ گیا اور ہم اسے ناکام بنانے میں کامیاب ہوگئے۔

اسی دوران شریف مکہ حسین نے ترکوں کے خلاف بغاوت کر دی اور خلافتِ عثمانیہ کو ختم کرنے کی سازش پر عمل درآمد شروع ہوگیا اور یہ بھی تحریک ریشمی رومال کی ناکامی کا ایک اہم سبب ثابت ہوا۔ یوں حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ اور ان کے رفقاء کو حجاز سے گرفتار کر کے برطانوی حکومت کے حوالہ کر دیا گیا۔ ان پر قاہرہ میں بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا اور مالٹا کے جزیرے میں نظر بند کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ متحدہ ہندوستان کے مختلف حصوں میں چھاپے مار کر مجاہدین کے اسلحہ کے ذخائر پر قبضہ کر لیا گیا اور بہت سی گرفتاریاں عمل میں آئیں اور یہ منصوبہ مکمل طور پر ناکام ہوگیا۔

جزیرہ مالٹا کی اسارت سے رہائی کے بعد شیخ الہندؒ وطن واپس لوٹے تو وہ ضعیف اور مضمحل ہو چکے تھے لیکن انہوں نے ’’ریٹائرمنٹ‘‘ اختیار نہیں کی بلکہ ایک نئے انداز سے پھر سے متحرک ہوگئے۔ انہوں نے عسکری جدوجہد کی حکمت عملی ترک کر کے عدم تشدد اور پر امن سیاسی تحریک کو اپنی جدوجہد کا ذریعہ بنایا اور تحریک آزادی کا رخ موڑ دیا۔ چنانچہ برصغیر میں اب تک کی سیاسی تحریکات اسی رخ پر چل رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں ایک دوست میرے پاس تشریف لائے اور اس مسئلہ پر تفصیلی بات کی کہ حضرت شیخ الہندؒ نے عسکری جدوجہد کے طریق کار کو ترک کر کے پرامن اور عدم تشدد کی حکمت عملی اپنے دور کے تقاضوں کے مطابق اختیار کی تھی جو اس دور کی ضرورت تھی لیکن آج کے دور کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر کیا اس پر نظرثانی نہیں کی جا سکتی؟ میں نے عرض کیا کہ حکمت عملی اور طریق کار پر نظر ثانی ہر دور میں کی جا سکتی ہے لیکن صرف یہ فرق ذہن میں رکھا جائے کہ یہ نظر ثانی اگر مسلمہ علمی و سیاسی قیادت کی طرف سے باہمی مشاورت کے ساتھ ہوگی تو مؤثر اور کارآمد ہوگی لیکن اگر علاقائی، مقامی یا گروہی سطح پر الگ الگ نظرثانی کی جائے گی تو خلفشار اور افراتفری کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا اور فائدہ کی بجائے نقصان ہو جائے گا۔

اس کے ساتھ حضرت شیخ الہندؒ کی حکمت عملی اور طریق کار کے حوالہ سے چند باتوں کی طرف اشارہ کرنا چاہوں گا جو آج کے حالات میں ہمارے لیے مشعلِ راہ ہو سکتے ہیں اور ہمیں ان سے ضرور راہنمائی حاصل کرنی چاہیے کیونکہ حضرت شیخ الہندؒ کا فکر و فلسفہ اسی کے گرد گھومتا ہے:

  • انہوں نے اپنی جدوجہد کے لیے مدرسہ کو مورچہ نہیں بنایا اور دارالعلوم دیوبند سے الگ ہو کر اس کے دائرہ سے باہر اپنی سرگرمیوں کو منظم کیا۔ اور ہمارے اکابر کی یہ پالیسی رہی ہے کہ انہوں نے کسی بھی تحریک میں مدرسہ کو مورچہ کی شکل نہیں دی، ہماری تحریکات میں دینی مدارس نرسری ضرور ہیں لیکن مورچہ کبھی نہیں بنے لیکن آج ہم نے اس حکمت عملی کو نظر انداز کر رکھا ہے۔ ہم اس بنیادی بات کو بھول گئے ہیں کہ عوامی تحریکات کی بنیاد حزبیت پر نہیں بلکہ اجتماعیت پر ہوتی ہے۔ ہم نے عوامی تحریکات کے لیے بھی یہ ضروری قرار دے لیا ہے کہ ساتھ دینے والے سب لوگ ہمارے معتقدین ہوں اور ان میں ہمارے ساتھ اختلاف کرنے والا کوئی نہ ہو۔
  • انہوں نے اپنے کارکنوں کو صرف جذباتیت تک محدود نہیں رکھا کہ محض ان کے جذبات اور جوش و خروش سے استفادہ کیا جاتا رہے بلکہ ان کی علمی و فکری تربیت اور مسلسل ذہن سازی کا بھی اہتمام کیا۔ اس لیے کہ تحریکیں جذبات کی بنیاد پر ابھرتی ضرور ہیں لیکن انہیں دوام اور نتائج علم و فکر اور تربیت و استقامت کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتے ہیں۔

میں نے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسنؒ کے حوالے سے چند گزارشات پیش کی ہیں اور میں اس موقع پر اپنی یہ بات بھی دہرانا چاہتا ہوں کہ شیخ الہندؒ دارالعلوم دیوبند کی مکمل طور پر نمائندہ شخصیت ہیں اور اگر دیوبندیت کا تعارف کسی ایک شخصیت کی صورت میں پیش کیا جا سکتا ہو تو اس کے لیے واحد شخصیت شیخ الہندؒ مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کی ہے۔ اس لیے علمائے کرام اور دینی کارکنوں کو حضرت شیخ الہندؒ کے حالات اور جدوجہد کا اہتمام کے ساتھ مطالعہ کرنا چاہیے اور اس سے اپنی عملی زندگی میں راہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔

(روزنامہ اسلام، لاہور ۔ ۱۵ جون ۲۰۱۲ء)
2016ء سے
Flag Counter