’’علماء دیوبند اور مطالعہ مسیحیت‘‘
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے کلیہ اصول الدین کے استاذ جناب ڈاکٹر سفیر اختر تاریخ و سیاست کے فاضل محقق ہیں اور برصغیر میں مسلم فکر وتہذیب کا ارتقا اور اور اس کے مختلف علمی و عملی پہلو ان کی دلچسپی کا خاص دائرہ ہے۔ ان کا تالیف کردہ زیر نظر کتابچہ دو اہم مضامین پر مشتمل ہے جن میں برصغیر میں مطالعہ مسیحیت کے حوالے سے علماء دیوبند کی علمی و تحقیقی کاوشوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی گئی ہے۔
’’علماء دیوبند اور مطالعہ مسیحیت’’ کے عنوان سے پہلے مضمون میں مطالعہ مسیحیت کے حوالے سے جہاں واضح اور مخصوص دیوبندی شناخت رکھنے والے بزرگوں، مثلاً مولانا محمد قاسم نانوتوی، حافظ غلام محمد راندیری، مولانا شرف الحق دہلوی، مفتی کفایت اللہ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی اور مولانا محمد ادریس کاندھلوی کا تذکرہ کیا گیا ہے، وہاں اکابر دیوبند کے ساتھ تلمذ یا استفادہ کا تعلق رکھنے والے بعض حضرات مثلاً مولانا عبد الحق حقانی اور مولانا ثناء اللہ امرتسری کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ ماضی و حال کے اہل علم کا استقصا تو مولف کے پیش نظر یقیناً نہیں ہے، تاہم اس میدان کی بعض اہم شخصیات مثلاً مولانا عبد الماجد دریابادی اور سید سلیمان ندوی کا نام بآسانی شامل کیا جا سکتا تھا۔ اسی طرح مضمون کا دائرہ تھوڑا سا پھیلا کر حال کے بعض اصحاب قلم، مثلاً مولانا امین صفدر اوکاڑوی، محمد اسلم رانا اور مولانا عبد اللطیف مسعود کا ذکر، سرسری طور پر ہی سہی، کر دیا جاتا تو بہتر تھا۔
دوسرا مضمون ’’میرٹھ ڈویژن میں مسیحی مشن اور مسلمانوں کا رویہ‘‘ کے زیر عنوان سید محبوب احمد رضوی کا تحریر کردہ ہے جسے فاضل مولف نے اردو کا جامہ پہنایا ہے۔ اس مضمون میں مسیحی مشنریوں کی ان تبلیغی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی گئی ہے جن کے مقابلے کے لیے برصغیر کے اہل علم میں مطالعہ مسیحیت کی تحریک پیدا ہوئی۔ یہ مضمون چونکہ مطالعہ مسیحیت کی اس تحریک کے لیے پس منظر فراہم کرتا ہے، اس لیے ہمارے خیال میں ترتیب کے لحاظ سے اس کو سابقہ مضمون سے پہلے جگہ ملنی چاہیے تھی۔
کتابچہ کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ برصغیر کے دوسرے علمی حلقوں کی طرح علماء دیوبند کے ہاں بھی مطالعہ مسیحیت سے اعتنا اصلاً کسی علمی یا تحقیقی غرض سے نہیں بلکہ انگریزی دور اقتدار میں مسیحی مشنریوں کی مساعی کے رد عمل میں پیدا ہوا۔ یہ پس منظر کم از کم تین اہم حوالوں سے ابھی تک اس میدان میں کی جانے والی کاوشوں پر اثر انداز ہو رہا ہے:
ایک یہ کہ علماء کی دلچسپی مطالعہ مسیحیت کے حوالے سے بنیادی طور پر مناظرانہ نوعیت کے امور تک محدود ہے اور وسیع تر تاریخی و مذہبی تناظر میں مطالعہ مذاہب کی جدید علمی روایت کو ابھی تک ان کے ہاں پذیرائی حاصل نہیں ہو سکی۔
دوسری یہ کہ اس محدود مناظرانہ دائرے میں بھی ان کا زیادہ تر انحصار انیسویں صدی کے محققین کے فراہم کردہ مواد اور ذخیرے پر ہے۔ مولانا تقی عثمانی کی ’’عیسائیت کیا ہے؟’’، ڈاکٹر خالد محمود کے مقدمہ ’’کتاب الاستفسار’’ اور اس نوعیت کی چند دیگر تحریروں کے استثنا کے ساتھ اس سارے ذخیرے میں اسلوب یا مواد کے لحاظ سے کوئی جدت تلاش کرنا غالباً ناممکن ہوگا۔
تیسری یہ کہ یہ مساعی دعوت و ابلاغ، افہام و تفہیم اور تحقیق و تنقیح کے جذبے کے بجائے بیشتر ’’ابطال باطل‘‘ کے اسلوب اور لہجے میں کی جا رہی ہیں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ صرف مسیحی مسلم تعلقات میں حالات و زمانہ کے تغیر اور مسیحی دنیا کے زاویہ فکر میں تبدیلی سے پیدا ہونے والی جہتوں سے طبقہ علماء نابلد ہے بلکہ مسلم مسیحی مذہبی تصورات میں اشتراک کے وہ پہلو بھی جن کو قرآن مجید میں نہایت اہتمام کے ساتھ نمایاں کیا گیا ہے، اس فضا میں بالکل اوجھل ہو گئے ہیں۔
توقع کی جانی چاہیے کہ ہمارے اہل علم، بالخصوص فرزندان دیوبند اس صورت حال کے مضمرات پر غور کرنے کی ضرورت محسوس کریں گے۔
۴۰ صفحات پر مشتمل یہ کتابچہ، جس کی قیمت غالباً سہواً ۵۰ روپے درج کر دی گئی ہے، دار المعارف، لوہسر شرفو، واہ کینٹ سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
’’قواعد ترتیل القرآن فی تشریح جمال القرآن‘‘
قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے صحت تلفظ اور حسن ادائیگی کے لیے جن اصولوں اور قواعد کا لحاظ ضروری ہے، ان سے ’’علم تجوید‘‘ میں بحث کی جاتی ہے۔ مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ کی تصنیف کردہ ’’جمال القرآن‘‘ اسی فن کی ایک معروف اور متداول کتاب ہے جو دینی مدارس کے نصاب میں بھی داخل ہے۔ زیر نظر کتابچہ میں اس کتاب کے مندرجات کی تشریح و تفصیل کے حوالے سے ماضی قریب کے نامور ماہر فن قاری اظہار احمد صاحب تھانویؒ کے افادات کو ان کے تلمیذ رشید قاری مومن شاہ خٹک صاحب نے مرتب کر کے طلبہ و اساتذہ کی خدمت میں پیش کیا ہے۔ کتاب خوب صورت کتابت وطباعت کے ساتھ شائع کی گئی ہے اور علم تجوید سے اشتغال رکھنے والوں کے لیے ایک تحفہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
صفحات: ۱۰۶۔ قیمت درج نہیں۔ ناشر: ایچ ایم اقبال اینڈ سنز، حق سٹریٹ، اردو بازار، لاہور۔