اس سال الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں سالانہ دورۂ تفسیر کو شعبان المعظم کے دوران مکمل کرنے کا تجربہ مجموعی طور پر کامیاب رہا۔ ۲ شعبان کو افتتاحی تقریب سے جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے مہتمم مولانا حاجی محمد فیاض خان سواتی نے خطاب کیا، جبکہ ۲۷ شعبان المعظم کو اختتامی نشست ہوئی جس میں شرکاء کو اسناد دی گئیں اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے صدر ڈاکٹر محمد سعد صدیقی کے علاوہ مدرسہ انوار العلوم گوجرانوالہ کے مہتمم مولانا داؤد احمد میواتی نے خطاب کیا۔ ملک کے مختلف حصوں سے چالیس سے زائد حضرات نے شرکت کی جن میں اکثریت فضلاء کرام اور منتہی طلبہ کی تھی۔ راقم الحروف کے علاوہ مولانا فضل الہادی، مولانا ظفر فیاض، مولانا حافظ محمد یوسف، مولانا حافظ محمد رشید، حافظ محمد عمار خان ناصر، مولانا وقار احمد، ڈاکٹر جنید ہاشمی، مولانا سید متین شاہ اور دیگر اساتذہ نے پڑھایا۔ اور قرآن کریم کے مکمل ترجمہ و تفسیر کے علاوہ مختلف موضوعات پر تیس سے زائد محاضرات ہوئے۔ حسب سابق اس دفعہ بھی ایک موضوع پر اساتذہ اور طلبہ کے درمیان مذاکرہ کی خصوصی نشست کا اہتمام کیا گیا جس کا عنوان یہ تھا کہ دینی تحریکات کی کامیابی اور ناکامی کے اسباب کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اس حوالہ سے اساتذہ اور طلبہ کی تفصیلی گفتگو بہت دلچسپ تھی جو ’’الشریعہ‘‘ میں شائع ہوگی۔ البتہ راقم الحروف نے بطور تمہید جو باتیں کہیں ان کا خلاصہ درج ذیل ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ ! آج ہم سب اس عنوان پر آپ حضرات سے بات چیت کرنا چاہتے ہیں کہ مختلف دینی تحریکات میں محنت اور قربانیوں کے باوجود ہم کامیابی حاصل نہیں کر پاتے۔ تو کیا یہ کہہ کر آگے بڑھ جانا کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یونہی منظور تھا اور ہمیں نیت اور محنت کا ثواب تو مل ہی جائے گا، یا اس ناکامی کے اسباب کی نشاندہی کرنا اور ان کے ازالہ کی کوشش کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ بات درست ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یونہی منظور تھا اور یہ بات بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے کہ مقصد کے حصول میں کامیاب نہ ہونے کے باوجود خلوص نیت اور محنت و قربانی کا ثواب بہرحال ملتا ہے۔ لیکن میرے خیال میں ناکامی کے اسباب و عوامل کا تجزیہ کرنا بھی ضروری ہے اور یہ تجزیہ نہ تو ثواب کے منافی ہے اور نہ ہی تقدس اور بزرگی میں اس سے کوئی فرق آتا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے غزوہ احد اور غزوہ حنین کے موقع پر صحابہ کرامؓ کی وقتی ہزیمت کا تذکرہ کیا ہے، اس کے اسباب بیان کیے ہیں، اس کے مطابق ڈانٹ ڈپٹ بھی کی ہے، اور پھر معافی اور پورا اجر و ثواب دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔ قرآن کریم نے بتایا ہے کہ احد کے موقع پر صحابہ کرامؓ کی صفوں میں جو خلفشار پیدا ہوا، اس کا سبب پہاڑی کے درے پر ڈیوٹی دینے والوں کی جلد بازی اور باہمی اختلاف تھا۔ جبکہ حنین کے موقع پر قدم اکھڑ جانے کی وجہ اکثریت میں ہونے کی وجہ سے دلوں میں پیدا ہونے والی بے پرواہی تھی۔
اس لیے ہمیں بھی آج جس جدوجہد اور تحریک میں کامیابی نہ ملے، اس کے اسباب کا جائزہ لینا اور عوامل کی نشاندہی کر کے ان کے ازالہ کی فکر کرنا چاہیے۔ اور یہ دین کا عین تقاضہ ہے۔ مثال کے طور پر برصغیر کی ایک عظیم تحریک کا حوالہ دینا چاہوں گا جسے تحریک خلافت کہا جاتا ہے۔ یہ تحریک اب سے ایک صدی قبل پورے جنوبی ایشیا میں ترکی کی خلافت عثمانیہ کی حمایت میں بپا ہوئی تھی اور مسلمانوں کی پہلی منظم اور ہمہ گیر عوامی سیاسی تحریک تھی جس کا ہندوؤں اور دیگر برادران وطن نے بھی ساتھ دیا تھا۔ برطانیہ دیگر یورپی قوتوں کے ساتھ خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے درپے تھا اور ہم برطانیہ کی رعایا تھے۔ اس لیے ہم نے منظم سیاسی تحریک کے ذریعہ برطانیہ سے مطالبہ کیا کہ خلافت کو ختم کرنے سے گریز کیا جائے۔ اس تحریک کی قیادت مولانا محمد علی جوہرؒ ، مولانا شوکت علیؒ ، مولانا ظفر علی خانؒ ، حکیم محمد اجمل خانؒ اور دیگر قائدین نے کی تھی۔ جن کی پشت پر حضرت شیخ الہندؒ کا فکر و فلسفہ تھا۔ تحریک اس قدر پر جوش تھی کہ برصغیر کا کوئی گوشہ اس کی تگ و تاز کے دائرے سے باہر نہیں تھا۔ مگر تحریک اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکی جس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ خود ترکوں نے خلافت کے خاتمہ کے لیے یورپی قوتوں سے سمجھوتہ کر لیا تھا اور خلافت سے دستبرداری اختیار کر لی تھی۔ اس کے نتیجے میں ہماری تحریک خلافت بھی اپنے تمام تر جوش و خروش کے باوجود سرد پڑ گئی اور بظاہر ناکام ہوگئی۔
مگر اس حوالہ سے میں ایک بات عرض کرنا چاہوں گا کہ تحریک خلافت بظاہر اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی لیکن میں اسے ناکام تحریک نہیں سمجھتا۔ اس لیے کہ اس کے بعد سیاسی میدان میں آزادی کی جس قدر تحریکات منظم ہوئیں ان میں کارکنوں کی بنیادی کھیپ وہی تھی جس نے تحریک خلافت میں سیاسی جدوجہد کی تربیت حاصل کی تھی۔ اس طرح تحریک خلافت برصغیر کی آئندہ سیاسی تحریکات کے لیے کارکنوں کی نرسری ثابت ہوئی۔ کانگریس، مسلم لیگ، جمعیۃ علماء ہند اور مجلس احرار اسلام کے کارکنوں کا بڑا حصہ تحریک خلافت کے تیار کردہ لوگوں پر مشتمل تھا، بلکہ مجلس احرار اسلام تو بنیادی طور پر تحریک خلافت کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے راہ نماؤں پر ہی مشتمل تھی، جنہوں نے اپنی جدوجہد کو اسٹاپ کرنے کی بجائے مجلس احرار اسلام ہند کے نئے نام کے ساتھ میدان عمل میں سرگرم رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ ، مولانا حبیب الرحمن لدھیانویؒ ، چودھری افضل حقؒ ، مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ ، اور دیگر اکابر تحریک خلافت کے راہ نما تھے۔ جو مجلس احرار اسلام کے نام کے ساتھ آگے بڑھے تھے اور برصغیر میں سیاسی جدوجہد اور عوامی خطابت کی ایک نئی روایت کے بانی ثابت ہوئے۔ اس لیے تاریخ کے طالب علم کے طور پر میری رائے یہ ہے کہ تحریک خلافت عثمانیہ خلافت کو بچانے میں تو کامیاب نہیں ہوئی تھی لیکن جنوبی ایشیا کو پر امن اور عوامی سیاسی جدوجہد کا نیا رخ دینے اور سیاسی جمود کو توڑ کر سیاسی حوصلہ اور جرأت کا ماحول پیدا کرنے میں ضرور کامیاب ہو گئی تھی۔
اس پس منظر میں ہماری گزارش ہے کہ ہمیں اپنی دینی جدوجہد اور تحریکات کی ناکامی کے اسباب و عوامل کا ضرور جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ کیونکہ اسی طرح ہم ان تجربات سے اپنی مستقبل کی تحریکات کو بہتر بنیادوں پر استوار کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔