مغربی دنیا میں مذہب کا معاشرتی کردار

   
۷ جون ۲۰۱۴ء

سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی کے ۱۹ مئی ۲۰۱۴ء کے شمارے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے کہا ہے کہ برطانیہ ایک عیسائی ملک ہے اور یہ کہتے ہوئے کسی کو جھجھک محسوس نہیں کرنی چاہیے۔ جبکہ انگلستان کے سابق مذہبی پیشوا آرچ بشپ آف کنٹربری لارڈ ولیمز کا کہنا ہے کہ برطانیہ اب پختہ عیسائی عقیدہ رکھنے والا ملک نہیں رہا بلکہ در حقیقت برطانیہ اب ’’بعد از عیسائیت‘‘ ملک ہے جہاں عقیدہ بڑی تیزی سے زوال پذیر ہے۔

مغربی دنیا کی مذہب کے معاشرتی کردار سے دستبرداری کو دو صدیاں بیت گئی ہیں، اٹھارہویں صدی کے آخر میں انقلاب فرانس سے اس کا آغاز ہوا تھا مگر کئی نسلیں گزر جانے کے بعد بھی مذہب وہاں کے اعلیٰ حلقوں میں گفتگو کا موضوع ہے اور مذہب کی اہمیت و ضرورت کا احساس ابھی تک دلوں اور دماغوں سے کھرچا نہیں جا سکا۔ گزشتہ دنوں امریکہ کی سپریم کورٹ میں یہ کیس آیا کہ دعا مذہب کی علامت ہے اس لیے ریاستی اداروں کے اجلاسوں کا آغاز یا اختتام دعا پر نہیں ہونا چاہیے۔ اس پر سپریم کورٹ نے جو ریمارکس دیے وہ قابل توجہ ہیں۔ ان میں کہا گیا ہے کہ ریاستی ادارے مذہب کی بالاتری سے آزاد نہیں ہیں اور امریکی قوم دستور کے نفاذ سے پہلے بھی دعا مانگا کرتی تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دستور سے الگ اور اس سے بالا کسی قوت کا بھی خود کو تابع سمجھتی ہے۔ اس لیے دعا مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اس کے ساتھ چند ہفتے قبل لندن کی ایک کانفرنس میں وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے اس اعلان کو بھی شامل کر لیجئے کہ وہ لندن کو غیر سودی بینکاری کا مرکز بنانے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ اور سہ روزہ ’’دعوت‘‘ کی مذکورہ رپورٹ کے اس حصہ پر بھی نظر ڈال لی جائے جس میں برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر نے اس کرب و اضطراب کا اظہار کیا ہے جس کے ذریعہ وہ عالم اسلام میں ’’اسلامیت‘‘ کے فروغ بلکہ اس کے غلبہ کے امکانات کے خطرہ سے دنیا کو آگاہ کر رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ٹونی بلیئر نے لندن میں نیویارک کے میئر بلوم برگ کی کمپنیوں کے مرکز میں ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اسلامزم‘‘ دنیا کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے اور مشرق میں پاکستان اور افغانستان سے لے کر مغرب میں شمالی افریقہ تک پورا علاقہ شدید بحران کا شکار ہے جہاں مذہب کی بنیاد پر کشمکش ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار چکی ہے۔ ٹونی بلیئر نے کہا ہے کہ شدت پسند اسلام کا خطرہ برابر بڑھ رہا ہے جو پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے رہا ہے اور عالمگیریت کے اس دور میں پر امن بقائے باہمی کی بیخ کنی کر رہا ہے۔

مغرب کا المیہ یہ ہے کہ اسے عالم اسلام میں اسلام کے معاشرتی کردار سے مسلمانوں کے دستبردار ہونے کے امکانات معدوم ہوتے دکھائی دے رہے ہیں، جس کے لیے مغرب نے دو صدیوں تک اپنے تمام تر وسائل اور صلاحیتوں کے ساتھ محنت کی ہے۔ اور صرف مغرب نہیں بلکہ عالم اسلام میں اس کے فکری و ثقافتی نمائندوں نے بھی اپنا پورا زور صرف کر دیا ہے۔ جس کا نتیجہ صرف یہ نکلا ہے کہ عالم اسلام کے بعض مقتدر طبقوں اور حکومتوں کو تو وہ اسلام کے معاشرتی کردار سے استفادہ کرنے سے باز رکھنے میں ضرور کامیاب ہوئے ہیں لیکن مسلمانوں کی رائے عامہ اور اجتماعی دھارے کو وہ کہیں بھی اس کے لیے تیار نہیں کر پائے۔ کیونکہ دنیا کے ہر مسلمان ملک میں عامۃ المسلمین اب بھی قرآن و سنت کے قوانین کے نفاذ اور اسلامی اقدار و روایات کے فروغ کی نہ صرف خواہش رکھتے ہیں بلکہ اس کے لیے مختلف حوالوں سے جدوجہد بھی جاری ہے۔ حتیٰ کہ اس نے کچھ مقامات پر عسکریت پسندی کا رخ بھی اختیار کر لیا ہے۔

مسٹر ٹونی بلیئر جس کو ’’شدت پسند اسلام‘‘ قرار دے رہے ہیں وہ یہی ہے کہ مسلم سوسائٹی کے احکام و ضوابط اور اقدار و روایات کی بنیاد اسلام پر ہو، اور اسلام صرف عقیدہ و اخلاقیات کے دائرے میں محدود نہ رہے بلکہ اجتماعی زندگی کے مختلف شعبوں میں بھی اپنا کردار ادا کرے۔ اگر اسلام صرف عقیدہ، عبادت، اور ذاتی اخلاقیات تک محدود رہے اور اس کا اظہار مسجد کی چار دیواری سے باہر نظر نہ آئے تو یہ مغرب کے نزدیک اعتدال پسند اسلام ہے اور رواداری کا مذہب ہے۔ لیکن اگر حکومت، معیشت، سیاست، تجارت، عدالت اور معاشرت میں اسلامی اصولوں کی عملداری کی بات کی جائے تو یہ ’’شدت پسند اسلام‘‘ ہے جس کے فروغ و نفوذ کے خطرے سے مسٹر ٹونی بلیئر دنیا کو خبردار کر رہے ہیں۔ لیکن یہ صورت حال اسلام کی صداقت کا اظہار اور ’’جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے‘‘ کا مصداق ہے کہ سابق وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے جانشین مسٹر ڈیوڈ کیمرون اسی برطانیہ میں اسلام کے معاشی اصولوں کے مطابق غیر سودی بینکاری کے فروغ اور لندن کو اس کا مرکز بنانے کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں۔

اس سلسلہ میں دلچسپ بات یہ ہے کہ مغرب کی قیادت کو ’’شدت پسند اسلام‘‘ کے فروغ کا خطرہ لاحق ہونے کے ساتھ ساتھ خود اپنے معاشرے میں اس مذہب کے رجحانات کی واپسی کے خطرہ کا بھی سامنا کرنا پڑ گیا ہے۔ جس سے دو صدیاں قبل دستبرداری اختیار کر کے اسے معاشرتی زندگی سے بے دخل کر دیا گیا تھا۔ امریکی سپریم کورٹ کے ریمارکس اور وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے ساتھ سابق آرچ پشپ آف کنٹر بری لارڈ ولیمز کا مذکورہ مکالمہ معاشرہ میں مذہب کی واپسی کے اسی رجحان کی غمازی کر رہا ہے۔ اور مذہب کے ہمارے جیسے شعوری کارکن اس منظر کو انجوائے کرتے ہوئے زیر لب گنگنا رہے ہیں کہ:

ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

چند سال قبل مجھ سے واشنگٹن کی ایک مجلس میں کچھ دوستوں نے سوال کیا تھا کہ مغربی معاشرہ میں بھی مذہب کی طرف واپسی کا رجحان فروغ پاتا دکھائی دے رہا ہے اور یہاں کے دانشوروں کو یہ خدشہ لاحق ہے کہ مذہب کہیں معاشرے کے اجتماعی معاملات میں دوبارہ دخل اندازی تو شروع نہیں دے گا؟ انہوں نے اس سلسلہ میں میرا نقطہ نظر معلوم کرنا چاہا تو میں نے عرض کیا کہ اگر تو وہ فی الواقع مذہب ہے تو سوسائٹی کے اجتماعی معاملات میں ضرور دخل انداز ہوگا۔ اس لیے کہ انبیاء کرام علیہم السلام کی تعلیمات اور وحی الٰہی پر مبنی مذہب صرف فرد کی راہ نمائی کے لیے نہیں آتا بلکہ وہ سوسائٹی کی راہ نمائی کا کردار بھی ادا کرتا ہے۔

   
2016ء سے
Flag Counter