ماضی کے عوامی مظاہروں کی چند جھلکیاں

   
۲۳ اکتوبر ۲۰۱۹ء

جوں جوں ۲۷ اکتوبر قریب آ رہی ہے ’’آزادی مارچ‘‘ پر بحث و مباحثہ کا دائرہ پھیلتا جا رہا ہے اور مختلف نوع کی سرگرمیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے یہ بڑا ہدف تو حاصل کر لیا ہے کہ پوری اپوزیشن کو اپنے ساتھ کھڑا کر کے حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کے بارے میں فیصلہ اس کے کھاتے میں ڈال دیا ہے۔ چنانچہ اب بات حکومت اور مولانا فضل الرحمان کے حوالے سے کم، اور حکومت اور اپوزیشن کے عنوان سے زیادہ ہونے لگی ہے اور اپوزیشن کی ’’رہبر کمیٹی‘‘ کے موقف اور فیصلے پر مذاکرات کا دارومدار دکھائی دے رہا ہے۔

مگر ہم ایک اور حوالہ سے آج کچھ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان یا اپوزیشن تو ’’آزادی مارچ‘‘ کے لیے اسلام آباد کا رخ کرنا چاہ رہے ہیں مگر کچھ ’’پالیسی ساز‘‘ مہربانوں کو یہ عوامی مظاہرہ شاید ایک جگہ پر ہوتا اچھا نہیں لگ رہا اور ملک بھر میں رکاوٹوں، گرفتاریوں، دھمکیوں اور کردارکشی کی مختلف کاروائیوں کے ذریعے یہ ماحول بنایا جا رہا ہے کہ یہ مظاہرہ ایک جگہ ہونے کی بجائے سینکڑوں نہیں تو بیسیوں علاقوں میں ضرور تقسیم ہو جائے۔ کیونکہ جس طرح کارکنوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، گرفتاریوں اور مقدمات کا سلسلہ پھیلایا جا رہا ہے اور خاص طور پر دینی مدارس کے اساتذہ، منتظمین اور طلبہ کی فہرستیں اور کوائف جمع کیے جا رہے ہیں، اس کا منطقی نتیجہ تو یہی ہوگا کہ عوامی مظاہرہ ایک مرکز پر مجتمع رہنے کی بجائے ملک بھر میں تقسیم ہو جائے، لیکن شاید پالیسی سازوں کو اس کے نتائج و اثرات کا صحیح طور پر اندازہ نہیں ہے ، اور اگر اندازہ ہے تو پھر ممکن ہے کہ یہ بھی کسی اور پروگرام کا پیش خیمہ ہو۔ بہرحال جو ہوگا اگلے ہفتہ عشرہ میں سب سامنے آجائے گا، البتہ اس حوالہ سے ماضی کی بہت سی یادیں ذہن کی اسکرین پر بار بار ابھر رہی ہیں اور جی چاہتا ہے کہ ان میں سے کچھ یادوں میں قارئین کو شریک کیا جائے۔

مجھے گزشتہ نصف صدی کے دوران چھوٹی بڑی بہت سی تحریکات میں متحرک کردار ادا کرنے کا موقع ملا ہے جن میں ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت، ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفٰیؐ، اور ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت کے دوران میں گوجرانوالہ شہر کی ’’آل پارٹیز ختم نبوت ایکشن کمیٹی‘‘ کا سیکرٹری جنرل تھا، ۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفٰی کے موقع پر نو جماعتی متحدہ سیاسی محاذ ’’پاکستان قومی اتحاد‘‘ کا صوبائی سیکرٹری جنرل تھا، جبکہ ۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت میں کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کا مرکزی سیکرٹری اطلاعات تھا۔ ان تحریکوں کی یادداشتیں جمع کرنے کا موقع مل جائے تو ایک ضخیم کتاب بن سکتی ہے مگر نمونہ کے طور پر پر چند جھلکیاں قارئین کی نذر کی جا رہی ہیں۔

۱۹۷۷ء کی تحریک نظام مصطفٰی میں دو جگہ یہ واقعہ پیش آیا کہ عوامی تحریک کو کچلنے کے لیے قائم کی جانے والی فیڈرل سکیورٹی فورس (ایف ایس ایف) نے عوامی مظاہرہ کو آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے روڈ پر سرخ لکیر کھینچ کر اعلان کر دیا کہ اس لکیر کو عبور کرنے والے شخص کو گولی مار دی جائے گی اور اس کے ساتھ ہی اس کے جوانوں نے فائرنگ کے لیے پوزیشنیں سنبھال لیں۔ مگر کراچی میں جمعیۃ علماء اسلام کے راہنما مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ تعالٰی نے کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے وہ لائن کراس کی مگر کسی کو گولی مارنے کا حوصلہ نہیں ہوا۔ جبکہ گکھڑ ضلع گوجرانوالہ میں اسی قسم کی لائن عبور کرنے والے بزرگ میرے والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ تھے جو اس وقت جمعیۃ علماء اسلام ضلع گوجرانوالہ کے امیر تھے اور عوامی مظاہرہ کی قیادت کر رہے تھے۔ انہوں نے اپنے دو رفقاء استاذ محترم قاری محمد انورؒ اور جمعیۃ علماء پاکستان کے راہنما حاجی سید احمد ڈار مرحوم کے ہمراہ کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے سرخ لائن عبور کی تو رائفلوں کی سنگینیں اس منظر کی تاب نہ لاتے ہوئے زمین کی طرف جھک گئیں اور فضا تکبیر کے نعروں سے گونجنے لگی۔

اسی تحریک میں ایک بار ایسا ہوا کہ جمعہ کے روز ملک گیر ہڑتال تھی اور سڑکیں سنسان پڑی تھیں، میری رہائش ان دنوں گکھڑ میں تھی اور میں وہاں سے جمعہ پڑھانے کے لیے گوجرانوالہ آیا کرتا تھا۔ سڑک پر سواری نامی کوئی چیز نظر نہ آئی تو اپنے ایک دوست پہلوان عبد اللطیف بٹ مرحوم کے ہمراہ پیدل گوجرانوالہ کی طرف چل پڑا اور سولہ کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے نہ صرف مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں جمعہ پڑھایا بلکہ جمعہ کے بعد ایک عوامی مارچ کی قیادت بھی کی۔

۱۹۸۴ء کی تحریک ختم نبوت میں ایک بار ہم نے ملک بھر سے کارکنوں کو اسلام آباد میں جمعہ کے روز جمع ہونے اور نماز جمعہ لال مسجد میں پڑھنے کی کال دے دی۔ میں ایک روز پہلے راولپنڈی پہنچ گیا اور جمعہ کے روز مختلف راستوں سے بھیس بدل بدل کر اسلام آباد میں داخل ہونے کی کوشش کرتا رہا مگر ناکہ بندی اتنی سخت تھی کہ میں اس کوشش میں کامیاب نہ ہو سکا اور جمعہ واپس آ کر راجہ بازار دارالعلوم تعلیم القرآن میں پڑھا اور جمعہ کے اجتماع سے خطاب بھی کیا۔

اسی تحریک میں گوجرانوالہ کے کچھ دوست جن میں قاری محمد یوسف عثمانی، عبد المتین چوہان مرحوم اور خطاط امان اللہ قادری بطور خاص قابل ذکر ہیں، راولپنڈی کی طرف روانہ ہوئے تو جہلم میں انہیں بس سے اتار دیا گیا، دوسری بس میں سوار ہوئے تو دینہ میں اتار دیے گئے، بالآخر انہوں نے ایک بس کے کنڈیکٹر سے سودا کر کے خود کو بس کی چھت پر لدی ہوئی بوریوں کے اندر بندھوایا اور مظاہرہ میں شامل ہونے میں کامیاب ہوئے۔ مختصر یہ کہ حکومت نے اسلام آباد میں اکثر مظاہرین کو داخل تو نہ ہونے دیا مگر اسی شام وزیراعظم محمد خان جونیجو کو تحریک کے مطالبات منظور کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔

اس دور کی طرح آج کی ’’ایف ایس ایف‘‘ بھی خوب متحرک دکھائی دے رہی ہے، اس فرق کے ساتھ کہ وہ بہرحال کسی قاعدہ قانون کی پابند نظر آتی تھی جبکہ آج ’’فری اسٹائل ریسلنگ‘‘ کا ماحول پیدا ہوتا نظر آرہا ہے جس کے نتائج کا اندازہ کرنا کچھ زیادہ مشکل نہیں ہے۔ اللہ تعالٰی ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter