یکم ستمبر سے دس ستمبر تک ملک کے دینی حلقوں نے ’’عشرۂ ختم نبوت‘‘ منایا۔ اس کا مقصد سات ستمبر ۱۹۷۴ء کے اس فیصلے کی یاد تازہ کرنا تھا جس میں پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت کا دستوری درجہ دے کر گزشتہ کم و بیش ایک صدی سے چلے آنے والے مسئلے کو حل کر دیا تھا۔ اگر قادیانی گروہ بھی اس متفقہ قومی فیصلے کو قبول کر لیتا تو یہ مسئلہ فی الواقع حل ہو چکا ہوتا اور جس طرح ملک کی دوسری اقلیتیں اپنی اپنی قانونی حیثیت کے مطابق ملک کی آبادی کا حصہ اور نظم و نسق میں شریک ہیں اسی طرح قادیانی گروہ بھی قومی دھارے میں شریک ہو جاتا لیکن قادیانیوں نے اس فیصلے کو جس کی بنیاد قرآن و سنت اور اجماع امت کے ساتھ ساتھ پوری امت مسلمہ کے اجتماعی اور متفقہ موقف پر ہے قبول کرنے سے انکار کر کے اور اس کے لیے عالمی لابیوں میں منفی لابنگ جاری رکھتے ہوئے اس مسئلے اور کشمکش کو باقی رکھا ہوا ہے جس کی وجہ سے ملک کے دینی حلقوں کو اپنے اجتماعی موقف کے بار بار اظہار اور رائے عامہ کو بیدار رکھنے کے لیے مسلسل حرکت میں رہنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور یہ ’’عشرۂ ختم نبوت‘‘ اسی تسلسل کا حصہ تھا۔
اس دوران مختلف مکاتبِ فکر نے ملک کے متعدد شہروں میں اس عنوان پر اجتماعات کا انعقاد کیا، قومی اخبارات نے خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کیا اور ارباب فکر و دانش نے مختلف ذرائع سے عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ کے تقاضوں اور پاکستان کی اسلامی نظریاتی شناخت کے حوالہ سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ تحریک ختم نبوت کے ایک پرانے کارکن کے طور پر مجھے بھی بعض اجتماعات میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی جس کی مختصر رپورٹ نذرِ قارئین ہے۔
ڈسکہ ضلع سیالکوٹ نامور قادیانی راہ نما اور پاکستان کے سابق وزیرخارجہ چودھری ظفر اللہ کا شہر تھا اور ایک عرصہ تک ان کی خاندانی سیاست کی جولانگاہ رہا ہے۔ وہاں کے نوجوانوں نے ’’ختم نبوت یوتھ فورس‘‘ قائم کر رکھی ہے جس کا مقصد نوجوانوں میں تحفظ ختم نبوت کی جدوجہد کے حوالہ سے بیداری قائم رکھنا ہے۔ ۴ ستمبر کو انہوں نے ڈسکہ کے ایک شادی ہال میں ختم نبوت کانفرنس کا اہتمام کر رکھا تھا جس میں لاہور سے مولانا مفتی محمد حسن اور جناب طاہر عبد الرزاق کے علاوہ اہل حدیث عالم دین مولانا عبد الحفیظ بھی شریک تھے۔ نوجوانوں کا ہجوم اور جوش و جذبہ دیدنی تھا، مجھے اس اجتماع میں کچھ گزارشات پیش کرنے کا موقع ملا اور ’’ختم نبوت یوتھ فورس‘‘ کے ایک راہ نما کی یہ بات سن کر بہت خوشی ہوئی کہ ہم نے یہ فورم دینی مدارس اور مکاتب فکر کے دائروں سے ہٹ کر قائم کیا ہے اس لیے کہ قادیانی دعوت و تبلیغ کا اصل ہدف دینی مدارس کے طلبہ نہیں بلکہ کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ اور جدید تعلیم یافتہ حضرات ہیں۔ اس لیے ہم نے اس میدان کو اپنی محنت کے لیے منتخب کیا ہے۔ میں نے اس عزم پر انہیں مبارک باد دی اور ان کی کامیابی و استقامت کے لیے دعا کی۔ خدا کرے کہ ملک کے دوسرے شہروں کے نوجوان بھی اس طرف متوجہ ہوں۔ آمین۔
۵ ستمبر کو جامعہ اشرفیہ لاہور میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی عظیم الشان ختم نبوت کانفرنس نماز مغرب کے بعد شروع ہوئی اور رات گئے تک جاری رہی۔ حضرت مولانا خواجہ عزیز احمد آف کندیاں شریف نے صدارت کی اور مختلف مکاتب فکر کے سرکردہ راہ نماؤں کے ساتھ ساتھ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے مرکزی راہ نما مولانا اللہ وسایا نے بھی تفصیلی خطاب کیا اور مجھے بھی اس بابرکت اجتماع میں حاضری اور خطاب کا شرف حاصل ہوا۔
۷ ستمبر کو چناب نگر میں انٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کی سالانہ کانفرنس میں شریک ہونا تھا اور پروگرام کی ترتیب طے تھی کہ ۶ ستمبر کو شام مجھے اطلاع ملی کہ اس کانفرنس میں جن علماء کرام کے خطاب پر پابندی ہے اُن میں میرا نام بھی شامل ہے اور ضلعی انتظامیہ رابطہ کے باوجود اس پابندی میں کوئی نرمی اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے اس لیے بادلِ نخواستہ اس سفر کا پروگرام ملتوی کرنا پڑا۔
گزشتہ سال سرگودھا میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کانفرنس کے موقع پر اس میں شرکت کے لیے وہاں پہنچ چکا تھا کہ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے تقریر سے روک دیا گیا اور کانفرنس میں شریک ہوئے بغیر مجھے واپس آنا پڑا۔
جھنگ، سرگودھا اور چنیوٹ کے اضلاع میں سالہا سال سے میرے ساتھ یہ معاملہ ہو رہا ہے کہ عام جلسوں میں خطاب سے مجھے روک دیا جاتا ہے، اس سے قبل بھی متعدد بار وہاں پہنچ کر خطاب کیے بغیر واپس آنا پڑا ہے۔ خاص طور پر محرم کے موقع پر ضلع میں داخلہ پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ پہلے اس فہرست میں اٹک، اوکاڑہ، فیصل آباد اور ٹوبہ ٹیک سنگھ کے اضلاع بھی برسوں تک شامل رہے ہیں مگر اب کچھ عرصہ سے ان اضلاع سے داخلہ بندی کا کوئی حکم نامہ موصول نہیں ہو رہا، البتہ سرگودھا، جھنگ اور چنیوٹ کے حکام ہر سال یہ مہربانی فرماتے ہیں۔
سات ستمبر کو لاہور میں مجلس احرار اسلام پاکستان کے مرکزی دفتر میں شہدائے ختم نبوت کانفرنس کا پروگرام تھا جو مغرب کے بعد سے شروع ہو کر رات گئے تک جاری رہی اور مختلف دینی جماعتوں کے راہ نماؤں نے خطاب کیا۔ مجلس احرار ہر سال اس موقع پر یہ اجتماع منعقد کرتی ہے اور خطابات و تقاریر کے ساتھ ساتھ سرخ قمیصوں میں ملبوس احرار راہ نما اور کارکن اپنے شاندار ماضی کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ اس اجتماع میں بھی حاضری اور گزارشات پیش کرنے کی سعادت سے بہرہ ور ہوا۔
۸ کو ہم نے خود مرکزی جامع مسجد گوجرانوالہ میں جمعیۃ اہل السنۃ والجماعۃ حنفی دیوبندی کے زیر اہتمام ’’تحفظ ختم نبوت سیمینار‘‘ کا پروگرام تشکیل دے رکھا تھا۔ بحمد اللہ تعالیٰ ہمارے ہاں یہ روایت قیام پاکستان سے بھی پہلے سے چلی آرہی ہے کہ ختم نبوت کا مسئلہ ہو۔ ناموس رسالتؐ کے تحفظ کی بات ہو یا کوئی اور دینی یا قومی مسئلہ ہو ہماری دعوت پر شہر کے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام تشریف لاتے ہیں اور ہم مل جل کر باہمی ربط و تعاون کے ساتھ مشترکہ جدوجہد کی کوئی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔
یہ سیمینار بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھا اور دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث مکاتب فکر کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے راہ نماؤں نے اس میں شرکت کی بلکہ سیمینار کی صدارت بریلوی مکتب فکر کے ممتاز عالم دین مولانا خالد حسن مجددی نے کی جو دینی و قومی تحریکات میں ہمیشہ ہمارے ساتھ ہوتے ہیں اور انہوں نے اپنے خطاب میں مجھ سے شکوہ کیا کہ اس دفعہ اس نوعیت کا مشترکہ اجتماع کرنے میں میری طرف سے بہت تاخیر ہوئی ہے جس پر مجھے باقاعدہ معذرت کرنا پڑی۔
’’ختم نبوت سیمینار‘‘ سے مولانا خالد حسن مجددی، مولانا قاری زاہد سلیم، مولانا اظہر حسین فاروقی، مولانا حافظ محمد عمران عریف، مولانا مشتاق احمد چیمہ، مولانا محمد ریاض خان سواتی، مولانا سید غلام کبریا شاہ، مولانا حافظ محمد عارف اور راقم الحروف کے علاوہ بہت سے سرکردہ علماء کرام نے خطاب کیا ، جبکہ نواسہ امیر شریعت مولانا پیر سید کفیل شاہ بخاری مہمان خصوصی تھے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں تحریک ختم نبوت کے مختلف ادوار کا ذکر کیا اور کہا کہ ہر دور میں تمام مکاتب فکر کے اکابر علماء کرام تحریک ختم نبوت میں شریک رہے ہیں اور اس تحریک میں سب کا کردار نمایاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب بھی تحریک ختم نبوت اور دیگر دینی و ملی تحریکات میں مثبت پیش رفت کے لیے ضروری ہے کہ تمام مکاتب فکر کے علماء کرام اور دینی کارکن مشترکہ جدوجہد کا ماحول پیدا کریں اور ماضی کی روایات کو زندگی رکھیں۔
سیمینار میں ایک قرارداد کے ذریعہ صوبہ خیبر پختون خواہ میں ایک قادیانی وکیل کو ایڈووکیٹ جنرل مقرر کرنے کے فیصلے پر احتجاج کرتے ہوئے صوبائی حکومت سے یہ فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا۔ سیمینار میں شہر کے سینکڑوں علماء کرام اور کارکنوں نے شرکت کی جبکہ جمعیۃ اہل السنۃ کے راہ نماؤں حاجی عثمان عمر ہاشمی، چودھری بابر رضوان باجوہ اور مفتی محمد نعمان نے میزبانی کے فرائض سر انجام دیے۔