۹ اکتوبر کو شاہدرہ لاہور میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام ’’ختم نبوت کانفرنس‘‘ سے خطاب، جسے شیراز نوید شیخ نے مرتب کیا ہے، نظرثانی کے بعد قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ حضراتِ علماء کرام اور قابل صد احترام شرکاء محفل! عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت پاکستان کا شکریہ ادا کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ عقیدۂ ختم نبوت، تحفظ ناموس رسالتؐ اور جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ محبت اور عقیدت کے اظہار کے اس محاذ پر عالمی مجلس کی کوششوں سے سرگرمیاں مسلسل جاری رہتی ہیں، اللہ تعالیٰ ترقیات اور برکات نصیب فرمائے۔ دو تین باتیں آپ سے عرض کرنا چاہوں گا۔
- قادیانیوں کے حوالے سے گفتگو ہو رہی ہے، دیگر علماء کرام تفصیل سے گفتگو کریں گے۔ سن ۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ نے دستور میں ترمیم کر کے قادیانیوں کو غیرمسلم اقلیت قرار دیا تھا جو دستور کا فیصلہ تھا، پارلیمنٹ کا فیصلہ تھا، قوم کا فیصلہ تھا، جناب ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا فیصلہ تھا اور ملک کی تمام پارٹیوں کا مشترکہ فیصلہ تھا۔ قادیانیوں نے وہ فیصلہ تسلیم نہیں کیا اور ابھی تک وہ انکاری ہیں۔ سن ۱۹۸۴ء میں اسی فیصلہ پر عملدرآمد کے لیے جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے امتناعِ قادیانیت آرڈیننس نافذ کیا جو قادیانیوں کے انکار کی وجہ سے تھا۔ اگر قادیانی ۱۹۷۴ء کے دستوری فیصلے سے انکار کر کے دس سال محاذ آرائی نہ کرتے تو اس صدارتی آرڈیننس کی کوئی ضرورت نہیں تھی، ان کے انکار اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے ۱۹۸۴ء کا آرڈیننس آیا جو اگرچہ جنرل محمد ضیاء الحق کا تھا لیکن منتخب پارلیمنٹ نے اس کی منظوری دی تھی اس طرح وہ بھی دستوری اور قانونی فیصلہ تھا۔ اس کو بھی انہوں نے تسلیم نہیں کیا اور ابھی تک انکاری ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پوری قوم دستور کی وفادار ہے، ہم بھی دستور کے وفادار ہیں اور دستورِ پاکستان کو مانتے ہیں، لیکن جو لوگ دستور کی وفاداری کا حلف اٹھا کر منصب سنبھالے ہوئے ہیں، جو سیٹوں پر یہ عہد کر کے بیٹھے ہیں کہ دستور کے وفادار رہیں گے، دستور کی پاسداری کریں گے، دستور کی عملداری قائم کریں گے، ان سب سے سوال ہے کہ کیا یہ ساری صورتحال ان کے علم میں نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے تو یہ ان کی اہلیت کا سوال ہے انہیں اپنی اہلیت چیک کروانی چاہیے۔ اور اگر سب کچھ ان کے علم میں ہے تو پھر وہ لوگ جو بالکل خاموش بیٹھے ہیں اور کچھ نہیں کر رہے، کیا وہ جرم میں شریک نہیں ہیں؟ یہ سوال ان اسٹیک ہولڈرز اور متعلقہ عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگوں سے ہے جو دستور کی وفاداری و پاسداری اور دستور کی عملداری کا حلف اٹھا کر اپنے اختیارات استعمال کر رہے ہیں۔ اگر قادیانیوں کی ۴۷ سالہ دستوری بغاوت ان کے علم میں نہیں ہے تو وہ اپنی نا اہلی چیک کروائیں، اور اگر علم میں ہے تو پھر یہ دیکھیں کہ وہ اس جرم میں کس درجے میں شریک ہیں؟
- کچھ عرصے سے ہم نے یہ وطیرہ اختیار کر رکھا ہے کہ ملک میں قانون سازی کرتے ہیں جس کے لیے ہم خود قانون نہیں بناتے بلکہ بنے بنائے قانون جو باہر سے آتے ہیں ہم ان کو نافذ کر دیتے ہیں۔ اوقاف کا قانون ہم نے فیٹف (FATF) کے کہنے پر نافذ کیا ہے، گھریلو تشدد کے نام پر خاندانی نظام کا قانونی طور پر جو بیڑا غرق کیا ہے وہ سیڈا (CEDAW) کے کہنے پر کیا ہے، اسٹیٹ بینک کی جو حیثیت تبدیل کی ہے وہ آئی ایم ایف (IMF) کے کہنے پر کی ہے، اور قادیانیوں اور ناموس رسالتؐ کے بارے ہم ہم تجویزیں کر رہے ہیں وہ یورپی یونین (European Union) کی طرف سے کہی جا رہی ہیں۔ ہمارے قومی اور دینی و تہذیبی معاملات میں فیٹف، سیڈا، آئی ایم ایف اور یورپی یونین کھلم کھلا مداخلت کر رہے ہیں تو کیا ہم ان کی مداخلت پر No کہہ رہے ہیں یا Yes کہہ رہے ہیں؟ میرا یہ سب سے سوال ہے کہ کیا ملک میں کوئی دستور ہے؟ ان قوانین میں تو کہیں دستور نظر نہیں آرہا۔ اوقاف کے قوانین میں دستور نہیں ہے، گھریلو تشدد کے قانون میں دستور نہیں ہے، یہ جو اسلام قبول کرنے پر شرائط لگائی ہیں یہ دستور نہیں ہے، یہ جو یورپی یونین کے مطالبات کی بات کر رہے ہیں اس میں دستور نہیں ہے۔ میرا سوال دستور کی وفاداری کا حلف اٹھانے والوں سے ہے کہ دستور کہاں ہے؟ کیا دستور معطل کر دیا گیا ہے؟ جنرل ضیاء الحق نے بھی کچھ عرصہ معطل کیا تھا، جنرل پرویز مشرف نے بھی کیا تھا۔ کیا اب بھی دستور معطل ہے؟ کس نے کیا ہے؟ اور اگر دستور معطل نہیں ہے تو دستور پر عمل کیوں نہیں ہو رہا؟ اور دستور کو کراس کر کے قانون سازی کیوں ہو رہی ہے؟ عدالتِ عظمی بھی خاموش ہے سب کچھ دیکھ کر۔ میرا دوسرا سوال یہ ہے دستور کہاں ہے؟ دستور تلاش کیجیے، نکالیے اور دیکھیے کہ ہم دستور کے ساتھ کیا حشر کر رہے ہیں؟
- ہم نے اب سے بیس سال پہلے ایک جنگ شروع کی تھی ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف امریکہ کی قیادت میں اس کے اتحادی کے طور پر۔ وہ جنگ ختم ہو گئی ہے، امریکی اتحاد اپنی ناکامی کا اعتراف کر کے واپس چلا گیا ہے اور یورپی پارلیمنٹ نے بھی اپنی ناکامی تسلیم کی ہے۔ طالبان یہ کھلم کھلا کہہ رہے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ ہماری لڑائی حالتِ جنگ میں تھی، اب کوئی لڑائی نہیں ہے، اب نیا ماحول ہے، لڑائی ختم ہو گئی۔ سوال یہ ہے اسلحے کی لڑائی تو ختم ہو چکی، اِدھر سے بھی ختم ہو گئی اُدھر سے بھی ختم ہو گئی۔ البتہ تہذیب کی، ثقافت کی، عقیدے کی اور نظریے کی جنگ بدستور جاری ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی، افغانیوں کو ان کی تہذیب و ثقافت اور عقیدہ سے دستبردار کروانا چاہتے ہیں۔ سوال یہ ہے کیا ہم اس جنگ میں بھی امریکہ کے اتحادی ہیں؟ جس جنگ میں ہم نے معاہدہ کیا تھا وہ ختم ہو چکی، اب کس بات کا اتحاد ہے؟ میرا ملک کے اسٹیک ہولڈرز سے سوال ہے کہ ہتھیاروں کی جس جنگ میں ہم امریکہ کے اتحادی تھے وہ جنگ ختم ہو گئی۔ اب جنگ عقیدہ و نظریہ، تہذیب و ثقافت اور افغان روایات کی ہے، کیا اس جنگ میں بھی ہم امریکہ کے اتحادی ہیں؟ میں یہ واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہم بحیثیت قوم اس تہذیبی جنگ میں امریکہ کے اتحادی نہیں ہیں بلکہ عقیدہ و مذہب اور تہذیب و نظریہ میں ہم افغان قوم کے ساتھ تھے، ساتھ ہیں اور ساتھ رہیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
حکمرانوں سے گزارش ہے کہ پالیسیوں پر نظرثانی کرو، اپنی پوزیشن واضح کرو اور قوم کا فیصلہ میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ ہتھیاروں کی جنگ میں فیصلہ کرنا آپ کا کام تھا لیکن عقیدے کی جنگ تمہاری نہیں ہماری ہے۔ یہ جنگ ہم لڑیں گے، ثقافت کی جنگ ہم لڑیں گے، نظریے اور عقیدے کی جنگ ہم لڑیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔