بین الاقوامی ادارے اور این جی اوز مختلف ممالک میں اپنے اہداف و مقاصد کے حصول کے لیے کس طرح کام کرتی ہیں، اس سے واقفیت دینی کام کرنے والی جماعتوں اور کارکنوں بالخصوص علمائے کرام کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اور اسی غرض سے چند منتخب مضامین زیرنظر شمارہ میں قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں جو موضوع کے تمام پہلوؤں کا احاطہ تو نہیں کرتے البتہ ان سے عالم اسلام میں کام کرنے والی این جی اوز کے بنیادی اہداف اور طریق کار کے اہم پہلوؤں کا ایک ہلکا سا خاکہ ضرور سامنے آجاتا ہے ۔ اور اگر یہ کوشش دینی کارکنوں کو اس طرف توجہ دلانے میں کامیاب رہی تو ہم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوں گے کہ اپنے مقصد کی طرف سے ہم نے اہم پیش رفت کر لی ہے۔
ہم نے بین الاقوامی اداروں اور این جی اوز کے ساتھ مسیحی مشنریوں کا بھی تذکرہ کیا ہے جو اگرچہ معروف معنوں میں مذہبی تنظیمیں سمجھی جاتی ہیں اور این جی اوز کے ساتھ ان کا تذکرہ شاید بعض حلقوں کو محسوس بھی ہو لیکن ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ اپنے اہداف و مقاصد کے حوالے سے مسیحی مشنریاں بھی ان این جی اوز سے مختلف نہیں ہیں جو بین الاقوامی اداروں اور لابیوں کے سرمائے پر تعلیم اور سماجی خدمت کی آڑ میں مسلم سوسائٹیوں میں فکری انتشار، اخلاقی انارکی اور معاشی ابتری پھیلانے میں مصروف ہیں۔ اور این جی اوز کے ساتھ ان مسیحی مشنریوں کی سرگرمیوں کو ملا کر دیکھا جائے تو یہ ایک ایسا نیٹ ورک دکھائی دیتا ہے جو ایک طرف مذہب کے لبادے میں اور دوسری طرف لامذہبیت کی چھتری تلے ایک ہی مقصد کے لیے آپس کی پوری انڈراسٹینڈنگ کے ساتھ مصروف کار ہے۔
عالمی استعمار اور مغربی ادارے گزشتہ دو سو برس سے جس ’’ٹارگٹ‘‘ تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ عام مسلمان اسلام کی بنیادی تعلیمات و عقائد سے نابلد اور دینی اقدار و روایات سے منحرف ہو جائے تاکہ اسے سیکولرازم کی بھٹی میں پگھلا کر اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالا جا سکے۔ اس کام کی تکمیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ’’مولوی‘‘ اور ’’دینی درسگاہ‘‘ ہے اس لیے وہ عالمی اداروں اور مغربی میڈیا کی کردار کشی کی مہم کا سب سے بڑا ہدف ہے، جبکہ این جی اوز اور مسیحی مشنریاں اس مہم کے مورچے ہیں جن کی آڑ میں مسلم سوسائٹی کی فکری اور اخلاقی جڑیں کھوکھلی کی جا رہی ہیں۔
ترکی کی خلافت عثمانیہ کے خاتمہ سے لے کر مشرق وسطیٰ کے سینے میں اسرائیل کا ناسور پیدا کرنے اور نوآزاد مسلم ممالک کی معیشت کو عالمی مالیاتی اداروں کے شکنجے میں جکڑنے تک کے سارے عمل میں راہ ہموار کرنے کا کام انہی غیر سرکاری تنظیموں نے سرانجام دیا ہے اور اب بھی وہ اس منصوبہ بندی کے اگلے مراحل کے لیے پوری طرح سرگرم عمل ہیں۔ جبکہ مسلم ممالک کی دینی تحریکات بالخصوص پاکستان کے مذہبی حلقے ابھی تک اس صورتحال کا پوری طرح ادراک کرنے کے لیے بھی ذہنی طور پر تیار نہیں ہیں جو ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔ اور یہی وہ نقطہ ہے جہاں پہنچ کر اچھی خاصی دینی تحریکات بے پناہ قربانیوں کے باوجود بے بسی کا عبرتناک نمونہ بن کر رہ جاتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے مذہبی حلقے، دینی جماعتیں اور کارکن جذباتیت اور سطحیت کی دلدل سے نکلیں اور مسائل کی تہہ تک پہنچنے، ان کے بارے میں بھرپور واقفیت حاصل کرنے اور کسی بھی کام کے لیے مکمل غوروفکر اور گہری منصوبہ بندی جیسی بنیادی ضروریات کا احساس کریں اور دشمن کے طریق کار اور ہتھیاروں کو اچھی طرح سمجھ کر ان کا توڑ پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ یہ کسی بھی جنگ کی سب سے بنیادی ضرورت ہوتی ہے اور اسے نظر انداز کر کے کوئی جدوجہد کامیابی کی طرف آگے نہیں بڑھ سکتی۔
عالمی استعمار اور اسلامی حلقوں کے درمیان معرکہ آرائی دن بدن واضح ہوتی جا رہی ہے، فاصلے کم ہو رہے ہیں اور اہداف کے دائرے ابھر رہے ہیں۔ اس صورتحال میں بے خبری، غفلت اور بے تدبیری کا مطلب دشمن کو راستہ دینے کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے؟ اے کاش ہمارے دینی حلقے، علمی مراکز، مذہبی جماعتیں، علمائے کرام، دانشور اور کارکن حالات کی اس سنگینی کو صحیح طور پر محسوس کر سکیں۔ اے کاش! اے کاش! اے کاش!