(گجرات پریس کلب میں ۴ جولائی ۲۰۲۲ء کو جمعیۃ علماء اسلام کے زیر اہتمام ’’علماءکنونشن‘‘ سے خطاب)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ جمعیۃ علماء اسلام گجرات بالخصوص چوہدری عبد الرشید وڑائچ کا شکرگزار ہوں کہ آپ دوستوں کے ساتھ ملاقات اور گفتگو کا موقع فراہم کیا، اللہ تعالٰی جزائے خیر سے نوازیں، آمین۔ اس موقع پر دو تین گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔
ایک تو یہ ہے کہ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہم قومی اور دینی حوالے سے کس مقام پر کھڑے ہیں اور ہمارے اردگرد کیا ہو رہا ہے؟ فقہاء کرام کا ایک ارشاد بار بار دہرایا جاتا ہے کہ ’’من لم یعرف اہل زمانہ فہو جاہل‘‘ یعنی جو اپنے زمانے کے لوگوں کو نہیں پہچانتا وہ عالم نہیں ہے۔ یہ ارشاد ہمیں بار بار توجہ دلا رہا ہے کہ اپنا جائزہ لیں کہ ہم اپنے زمانہ سے اور زمانہ کے لوگوں کو کتنا پہچانتے ہیں؟ اس لیے کہ اس کے بغیر دینی و ملی حوالے سے کوئی ذمہ داری طے کرنا اور ادا کرنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہو گا۔
میں تاریخ اور سیاست کے طالب علم کے طور پر خود کو اس زمانہ میں محسوس کر رہا ہوں جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال، میسور اور دیگر علاقوں پر قبضہ کے بعد دہلی کی طرف پیش قدمی شروع کی تو مغل بادشاہت کا منصب شاہ عالم ثانی کے پاس تھا۔ اور مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے شاہ عالم ثانی نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ یہ معاہدہ کر لیا تھا کہ بادشاہت کا ٹائٹل تو اسی کے پاس رہے گا مگر متحدہ ہندوستان کے تمام تر مالیاتی معاملات کا کنٹرول ایسٹ انڈیا کمپنی کے اختیار میں چلا جائے گا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، بادشاہ کا ٹائٹل اور پروٹوکول شاہ عالم ثانی اور مغل خاندان کے پاس رہا جبکہ تمام تر مالیاتی امور ایسٹ انڈیا کمپنی نے سنبھال لیے۔
ہم آج بھی اسی وقت اور دورانیے سے گزر رہے ہیں کہ حکمرانی کا ٹائٹل اور پروٹوکول ہماری سیاسی جماعتوں کے پاس ہے جو باری باری اس کے مزے لے رہی ہیں، جبکہ ملک کا مالیاتی کنٹرول آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی اداروں کے پاس ہے کہ ہم کوئی فیصلہ بھی ان کی مرضی سے ہٹ کر نہیں کر پا رہے۔ حتٰی کہ ہماری قومی قانون سازی کا کنٹرول بھی ان کے پاس ہے اور ان کی تجویز پر نہیں بلکہ ڈکٹیشن پر پارلیمنٹ میں مسلسل قانون سازی ہو رہی ہے۔ سیاسی پارٹیوں کی حکومتوں کے دوران کبھی کبھی دوسرے ادارے بھی ان کا ہاتھ بٹانے کے لیے آ جاتے ہیں مگر حکمرانی کا حقیقی اختیار اور کنٹرول بین الاقوامی اداروں ہی کے زیراستعمال ہے، جس میں اسٹیبلشمنٹ مجموعی طور پر ان کے بہترین نمائندہ کا کردار ادا کر رہی ہے۔
یہ بات سمجھنے میں اب کوئی دقت نہیں رہی کہ ہمارے مقتدر حلقے جو بھی ہیں اپنے لیے شاہ عالم ثانی کے کردار پر راضی ہو چکے ہیں اور پورے اطمینان کے ساتھ آج کی ایسٹ انڈیا کمپنی کو اپنے ایجنڈے پر عملدرآمد کی سہولت اور مواقع فراہم کرنے میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ چنانچہ اس پس منظر میں ہمارے نزدیک آج کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم قومی خودمختاری اور دستور کی بالادستی کا ماحول کیسے بحال کر سکتے ہیں؟ باقی سب معاملات ثانوی ہیں، اصل بات قومی آزادی اور خودمختاری کی ہے جس کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں کر پا رہے اور مستقبل میں بھی کچھ کر سکنے کی پوزیشن میں نہیں دکھائی دےرہے۔
دوسری بات جو آپ حضرات سے عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ اس صورتحال میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ اسے میں دو حصوں میں تقسیم کروں گا۔ ایک یہ کہ عمومی دینی و قومی جدوجہد میں علماء کرام اور دینی کارکنوں کو کیا کرنا چاہیے؟ اور دوسرا یہ کہ جمعیۃ علماء اسلام اور اس کے کارکنوں کو کیا کرنا چاہیے؟
عمومی دینی و ملی جدوجہد کے تقاضوں پر ایک بات جو عرصہ سے مسلسل کہتا آ رہا ہوں اسے پھر دہرانا چاہتا ہوں کہ کسی عالم دین کا دینی جدوجہد سے بالکل لاتعلق ہو جانا اور اپنے معمول کے کاموں میں ہی مگن رہنا میرے نزدیک کبیرہ گناہ بلکہ اس سے کوئی بڑی چیز ہے اور ہم عند اللہ اس کے بارے میں مسئول و ماخوذ ہوں گے۔
اس کے بعد ہر عالم دین اور دینی کارکن کو محنت اور جدوجہد اسی دائرے میں کرنی چاہیے جس کا وہ ذوق رکھتا ہے۔ نفاذ شریعت، ختم نبوت، تحفظ ناموس رسالتؐ، تحفظ ناموس صحابہؓ، دعوت و تبلیغ، تدریس و تعلیم، اور اصلاح و تزکیہ کے سب دائرے دینی ہیں۔ یہ سب ہمارے کرنے کے کام ہیں اور ان میں سے ہر دائرے میں محنت اس طرح ضروری ہے کہ ہر عالم اور دینی کارکن کو ان میں سے کسی شعبے کے ساتھ ہر حالت میں وابستہ رہنا چاہیے اور دینی جدوجہد سے بالکل لاتعلق اور بے پروا نہیں ہونا چاہیے، جس کے لیے سب سے ہلکا لفظ بے حمیتی ہی ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد یہ بھی ضروری ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں کام کرتے ہوئے دین کے دوسرے شعبوں اور دینی جدوجہد کے دوسرے دائروں کی نفی اور تحقیر سے مکمل گریز کیا جائے۔ ہم جب اپنے اپنے کاموں کی ترجیح بیان کرتے ہوئے دیگر شعبوں کی نفی کرتے ہیں اور تحقیر و استہزا کے لہجے میں ان کا ذکر کرتے ہیں تو خود اپنی محنت پر بھی پانی پھیر دیتے ہیں، اس سے بہرصورت گریز کرنا چاہیے۔
اس سلسلہ کی آخری بات یہ ہے کہ اپنے دائرہ میں محنت کرتے ہوئے دینی جدوجہد کے دوسرے دائروں کے ساتھ تعاون کی کوشش بھی ضروری ہے۔ بالخصوص مشترکہ ملی و قومی مسائل میں تمام مکاتب فکر اور طبقات کی مشترکہ محنت کا ماحول ہماری روایت چلا آ رہا ہے اور آج بھی ہماری سب سے بڑی ضرورت وہی ہے۔ تحریک خلافت، تحریک پاکستان، تحریک آزادی، تحریک ختم نبوت، تحریک نظام مصطفٰیؐ، اور دیگر دینی و ملی تحریکات میں مشترکہ محنت کا ماحول پھر سے بحال کرنا ضروری ہے اور ہماری ذمہ داری ہے۔
آج کی صورتحال یہ ہے کہ ہم سودی نظام کے خاتمہ کی جدوجہد میں مصروف ہیں جبکہ اس کے ساتھ ہمیں فیٹف کی ہدایت پر منظور کیے جانے والے اوقاف کے قانون، سیڈا کی طرف سے بھیجا جانے والا خاندانی نظام کا غیر شرعی قانون، اور آئی ایم ایف کے حکم پر اسٹیٹ بینک پر اس کی نگرانی کا قانون بھی ہماری جدوجہد کے ناگزیر دائرے ہیں۔ ہمیں ان سب کے لیے مشترکہ محنت کا ماحول قائم کرنا ہو گا اور مذکورہ بالا تحریکات کی طرز کی قومی جدوجہد کا اہتمام کرنا ہو گا۔
تیسرے نمبر پر میں آپ حضرات یعنی جمعیۃ علماء اسلام کے علماء اور کارکنوں سے یہ عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ لوگ یہ بات کبھی نہ بھولیں کہ برصغیر کی ملی و دینی تحریکات میں ہمیشہ مرکزی کردار آپ کا رہا ہے، اور یہ عزم رکھیں کہ یہ کردار آپ کا ہی رہے گا، ان شاء اللہ تعالٰی۔ کوئی بھی جدوجہد آپ منظم کریں گے تو ہو گی ورنہ نہیں ہو گی۔ یہ ایک تاریخی اور سماجی حقیقت ہے جسے کسی صورت میں بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ آپ حضرات کو اپنی یہ حیثیت اور پوزیشن سامنے رکھتے ہوئے اپنا کردار طے کرنا ہو گا، آپ کوئی روایتی جماعت نہیں ہیں بلکہ دینی تحریکات کا ہراول دستہ ہیں۔ اس لیے جمعیۃ علماء اسلام سے وابستہ علماء کرام اور کارکنوں کو دوسروں سے کہیں زیادہ چوکنا، مستعد اور متحرک رہنا ہو گا اور اپنے قائد کی آواز اور پوزیشن کو مضبوط کرنے اور رکھنے کے لیے سنجیدہ اور مسلسل کردار ادا کرنا ہو گا۔
میرے نزدیک قومی سیاست کی اعلٰی سطح پر مولانا فضل الرحمٰن دینی حلقوں کی واحد مؤثر آواز رہ گئے ہیں۔ ضروری نہیں کہ مجھے ان کے ہر موقف اور طرزعمل سے اتفاق ہو، میں اختلاف کا حق رکھتا بھی ہوں اور ضرورت کے وقت بلاجھجھک استعمال بھی کرتا ہوں۔ مگر پوری دیانتداری اور شرح صدر کے ساتھ سمجھتا ہوں کہ جس سطح پر اور جس ماحول اور لہجے میں مولانا فضل الرحمٰن اس وقت اہلِ دین اور اہلِ حق کی نمائندگی کر رہے ہیں وہاں کوئی ان کا متبادل دکھائی نہیں دے رہا۔ اگر خدانخواستہ خدانخواستہ پھر خدانخواستہ یہ آواز کمزور ہو گئی تو وہ ماحول اور سطح آپ لوگوں بلکہ پورے اہل دین کی نمائندگی سے خالی ہو جائے گی، جو میرے نزدیک ہمارے بارے میں استعماری قوتوں کا بنیادی مقصد اور ایجنڈا ہے۔
اس لیے جمعیۃ علماء اسلام کے علماء کرام اور کارکنوں سے گزارش ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسائل سے شعوری آگاہی اور جماعتی تنظیم کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں اور پورے ادراک، سنجیدگی اور نظم و ضبط کے ساتھ اپنی جماعت کو مضبوط اور مستحکم بنانے کی محنت کریں۔ آپ جس قدر باشعور ہوں گے دوسروں کو راہنمائی فراہم کر سکیں گے۔ اور جس قدر منظم و مستحکم ہوں گے دینی تحریکات کو لے کر چلنے کی صلاحیت میں اضافہ کریں گے۔
میں ایک بار پھر چودھری عبد الرشید وڑائچ اور جمعیۃ علماء اسلام گجرات کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور دعاگو ہوں کہ اللہ رب العزت ہم سب کو دین و ملت اور ملک و قوم کی بہتری کے لیے صحیح رخ پر اور صحیح انداز میں کام کرنے اور کرتے رہنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔