(بن کعبؓ اسٹوڈیو گوجرانوالہ میں محمد حنظلہ حسان کو دیے گئے انٹرویو کا خلاصہ)
میزبان کا پہلا سوال صحابہ کرامؓ کے قرآن کریم کے ساتھ تعلق کے بارے میں تھا جس پر گفتگو کا آغاز حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ارشاد گرامی سے کیا کہ ’’جو آدمی کسی کو مقتدا بنانا چاہتا ہے تو ایسے آدمی کو بنائے جو وفات پا چکا ہے کیونکہ زندہ آدمی کسی وقت بھی فتنے کا شکار ہو سکتا ہے‘‘۔ پھر حضرت ابن مسعودؓ نے اس کے ساتھ یہ فرمایا کہ ’’اقتدا کے قابل صحابہؓ کی جماعت ہے جو دل کے انتہائی نیک اور علم میں گہرے تھے‘‘۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نہ صرف قرآن و سنت بلکہ اس دور کے حالات کے بھی اولین راوی ہیں۔ قرآن کریم نے دنیا کو ایمان کی دعوت اس طرح دی کہ ’’ان آمنوا بمثل ما اٰمنتم بہ فقد اھتدوا وان تولوا فانما ھم فی شقاق‘‘ اگر وہ ایسا ایمان لائیں جیسا تم اصحابِ رسول ایمان لائے ہو تو وہ ہدایت پر ہیں ورنہ وہ گمراہی کا شکار ہیں۔ اس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو دین اور حق و صداقت کا معیار قرآن کریم نے قرار دیا ہے۔
ایک اور پہلو یہ عرض کیا کہ دین کی بنیاد قرآن کریم، سنتِ رسولؐ اور جماعتِ صحابہ کرامؓ ہے۔ اس حوالے سے کہ قرآن کریم اصول و ضوابط ہیں جس کی عملی شکل جناب نبی کریمؐ کی سنتِ مبارکہ ہے، جبکہ صحابہ کرامؓ کی جماعت اس کی اجتماعی اور سماجی صورت ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے جب پوچھا گیا تو فرمایا کہ ’’کان خلقہ القرآن‘‘۔ اس کا ترجمہ میں یوں کیا کرتا ہوں کہ جو قرآن پاک میں تھیوری کے طور پر ہے، وہ سنت میں پریکٹیکل کے طور پر ہے۔
کچھ عرصہ پہلے کسی صاحب نے سوال اٹھایا تھا کہ ہم صحابہؓ کا احترام کرتے ہیں لیکن صحابیؓ کون ہے، اس کی ’’تعریف‘‘ ہونی چاہیے۔ اس پر میں نے عرض کیا کہ وہ ہو چکی ہے، اسے اب ری اوپن نہیں کیا جا سکتا۔ صحابہ کرامؓ وہی ہیں جنہیں امت چودہ سو سال سے صحابہؓ سمجھتی ہے اور جن کا محدثین نے اسمائے رجال کی کتابوں میں صحابہؓ کے طور پر درجہ بندی کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ان میں اہلِ بیت بھی ہیں، مہاجرین بھی ہیں، انصار بھی ہیں، اور ’’والذین اتبعوھم باحسان‘‘ بھی ہیں جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے۔ ان میں درجہ بندی ضرور ہے لیکن بطور حجت اور آئیڈیل ہونے میں ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔
ابو زرعہ رازیؒ کا قول ’’اذا رايت الرجل ينتقص احداً من اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ اسی حوالے سے ہے کہ اگر کسی کو صحابہ کرامؓ میں سے کسی کا عیب بیان کرتے ہوئے دیکھو تو سمجھ لو کہ وہ دین کے گواہوں کو مجروح کر رہا ہے۔ اس پر تدوینِ قرآن کریم کا واقعہ بھی ذکر کیا کہ جب حضرت صدیق اکبرؓ نے حضرت زید بن ثابتؓ کو بلا کر فرمایا کہ حفاظ کرام شہید ہوتے جا رہے ہیں، حضرت عمرؓ نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر حافظ یونہی شہید ہوتے گئے تو قرآن کریم کی حفاظت کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہ پیدا ہو جائے، آپ حضورؐ کے بڑے کاتب رہے ہیں اس لیے آپ قرآن کریم کا ایک نسخہ لکھ دیں۔
حضرت زید بن ثابتؓ اپنا قصہ ذکر کرتے ہیں کہ میں خود حافظ تھا لیکن بہرحال میں ایک شخص تھا، تو میں نے یہ اصول طے کیا کہ قرآن کریم کی کوئی آیت، کوئی سورت اور کوئی ترتیب جو میں نے حضورؐ سے سن رکھی ہے، اس پر اپنے علاوہ دو گواہ اور تلاش کروں گا۔ فرماتے ہیں کہ اس کا ذکر میں حضرت صدیق اکبرؓ سے کیا تو انہوں نے اس سے اتفاق کیا۔ کہتے ہیں کہ مجھے قرآن کریم جمع کرنے اور تقابل کرنے میں تقریباً چھ مہینے لگے۔ کسی کے پاس ہڈی پر کچھ لکھا ہوا تھا، کسی کے پاس پتے پر، کسی کے پاس کھال پر۔ سارا قرآن کریم مکمل کر لیا لیکن دو مقامات پر مجھے اپنے علاوہ صرف ایک گواہ مل رہا تھا جو حضرت خزیمہ بن ثابتؓ تھے۔ ایک سورۃ یونس کی آخری دو آیات تھیں ’’لقد جاءکم رسول من انفسکم…الخ‘‘ اور ایک سورۃ الاحزاب کی آیت ’’من المومنین رجال صدقوا ما عاہدوا اللہ علیہ…الخ‘‘ تھی۔ فرماتے ہیں کہ بہت کوشش کی لیکن کوئی اور گواہ نہ ملا تو میں یہ معاملہ لے کر حضرت صدیق اکبرؓ کی خدمت میں چلا گیا۔ انہوں نے پوچھا کہ وہ ایک گواہ کون ہے؟ میں نے بتایا تو فرمایا کہ وہ ’’شہادتین‘‘ والا خزیمہ؟ جس کی گواہی کو حضور نبی کریمؐ نے دو گواہوں کے قائم مقام قرار دیا تھا؟ میں نے عرض کیا کہ جی وہی۔ فرمایا، پھر تو کام ہو گیا۔
اس لیے صحابہ کرامؓ ہمارے ایمان کی بنیاد ہیں اور ان کو مجروح کرنے کا مقصد دین کی بنیادیں ہلانے کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔
میزبان کا اگلا سوال صحابہ کرامؓ پر ہونے والے تبرا کے بارے میں تھا کہ اس پر حکومت کیوں ایکشن نہیں لیتی اور علماء کرام کیوں خاموش ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ حکمران کچھ نہیں کرتے تو ان کی اپنی مصلحتیں ہیں لیکن اہلِ علم نے ہر دور میں اعتراضات کا جواب دیا ہے، آپ کسی بھی دور کا لٹریچر دیکھ لیں۔ البتہ آج کے حالات میں اس کے دو پہلو قابل غور ہیں۔
ایک یہ کہ آج کسی قدغن اور پابندی کے بغیر آزادئ رائے کا جو رجحان پیدا ہو گیا ہے اس نے بہت سی زبانوں کو بے لگام کر دیا ہے اور ’’کل جدید لذیذ‘‘ کے مصداق پر ہر کوئی ہر کسی مسئلہ پر بحث کر رہا ہے۔
دوسرا یہ کہ ہم جو علماء کہلاتے ہیں، ہمیں مطالعے کا ذوق نہیں رہا، ہم بھی سنی سنائی باتیں کرتے ہیں۔ ورنہ کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہے جس میں متقدمین سے، امام احمد بن حنبلؒ سے لے کر اب تک ہمارے اہلِ علم نے مسائل اور سوالات کا جواب نہ دیا ہو۔ مثلاً اس مسئلہ پر امام ابن تیمیہؒ، حضرت شاہ ولی اللہؒ اور حضرت شاہ عبد العزیزؒ نے بہت کام کیا ہے، میں نوجوان علماء سے کہا کرتا ہوں کہ ان کا مطالعہ کریں اور پھر اگر کوئی سوال رہ جائے تو اس کا حل تلاش کریں۔
دراصل ہمارے ہاں مطالعہ کی کمی کے ساتھ ساتھ سنی سنائی باتوں سے متاثر ہونے اور انہیں بلاوجہ موضوع بنانے کا رجحان پیدا ہو گیا ہے۔ مثلاً مجھ سے آج ہی ایک صاحب نے سوال کیا کہ فلسطین کے دو گروپوں میں جو اختلاف ہے اس کی کیا حیثیت ہے؟ میں نے کہا کہ بھائی اگر نہر میں ڈوب رہا ہو تو اس کو پہلے نکالا جاتا ہے اور بعد میں اس کے ڈوبنے کی وجہ پوچھی جاتی ہے۔ اصل صورتحال دیکھے بغیر سوال جواب اور بحث مباحثے کا رواج سا بن گیا ہے جس کا نتیجہ ادھورے سوالوں کے ادھورے جوابات کی صورت میں سامنے آتا ہے جو مزید کنفیوژن کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے میں نوجوان علماء سے عرض کیا کرتا ہوں کہ پہلے مطالعہ کریں، اپنے بزرگوں کو پڑھیں، کوئی سوال ایسا نہیں ہے جس کا جواب موجود نہ ہو، لیکن اس کے لیے مطالعہ اور تحقیق کا ذوق بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک سوال آج کے حالات میں علماء کی ذمہ داریوں کے حوالے سے تھا۔ علماء کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ حالات کو سمجھیں کیونکہ فقہاء کرام فرماتے ہیں کہ ’’من لم یعرف اہل زمانہ فہو جاہل‘‘ جو اپنے زمانے والوں کو نہیں جانتا وہ جاہل ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کتابی علم اور مباحث کو جانتے ہیں لیکن جس معاشرے پر ان کا اطلاق کرنا ہے اس کو نہیں جانتے۔ اس کی مثال میں نے یہ عرض کی کہ ایک بیج کو میں جانتا ہوں اور اس کے تقاضے سمجھتا ہوں لیکن اس زمین کو نہیں جانتا جس میں وہ زمین بویا جائے گا۔ اس لیے کتاب کا علم تو لازمی بات ہے لیکن اس کے ساتھ سوسائٹی سے واقف ہونا بھی ضروری ہے اور تفقہ دراصل اسے ہی کہتے ہیں۔
میزبان نے سوال کیا کہ دینی مدارس نے تو ہمیں بہت کچھ دیا ہے لیکن آج کے ماحول اور اس سوشل میڈیا کے دور میں علماء کرام کو بطور خاص کیا کرنا چاہیے؟ عرض کیا کہ علماء کرام جس سوسائٹی میں رہ رہے ہیں اس کی نفسیات سمجھیں اور اس کی فریکونسی میں بات کریں۔ دوسری بات یہ کہ مسائل میں اختلاف بہرحال ہوتا ہے، جہاں عقل ہو گی وہاں اختلاف بھی ہو گا، اور اختلاف نہ ہونا کوئی اچھی بات نہیں ہے، لیکن اختلاف کو اختلاف سمجھیں، جھگڑا نہ بنائیں۔ میں علماء کرام کو باہمی ہم آہنگی کے حوالے سے یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ علاقے کے علماء کبھی آپس میں مل بیٹھ کر چائے پی لیا کریں۔ علاقے کے لوگوں کو مقامی علماء کرام اکٹھے بیٹھے چائے پیتے ہوئے اور خوش دلی سے گپ شپ کرتے نظر آجائیں تو سمجھیں آدھا کام ہو گیا۔
میزبان کا ایک سوال ایک معروف شخصیت اور سوشل میڈیا پر ان کے حلقۂ اثر کے حوالے سے تھا۔ میں نے عرض کیا کہ سوشل میڈیا پر بہت سے لوگ ہیں جو اپنا اپنا کام کر رہے ہیں، میں کسی شخصیت کا نام لیے بغیر ایک بات بطور اصول کے ذکر کرتا ہوں کہ جو آدمی نئی نسل کے ذہن سے شکوک کم کرنے کی بات کر رہا ہے وہ حق کی بات کر رہا ہے، اور جو شکوک میں اضافے کی بات کر رہا ہے وہ گمراہی پھیلا رہا ہے۔ میں علماء سے یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ جو شکوک موجود ہیں انہیں اپنی گفتگو سے اور تحریر سے کم کرنے کی کوشش کریں، ان میں اضافے کی کوشش نہ کریں۔ نئی نسل کے ذہن پہلے ہی شکوک و شبہات کا جنگل ہیں، ان کے کانٹے چنیں، مزید کانٹے مت پھینکیں۔
نئی نسل کے بارے میں یہ بات عرض کی کہ وہ بے قصور ہے کیونکہ وہ بے خبر اور بے علم ہے۔ انہیں علم تو ملا نہیں لیکن شکوک و شبہات انہیں دیے جا رہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے ایک نوجوان نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خبرِ واحد قبول کرنے کا فرمایا تھا؟ میں نے پوچھا، بیٹا تمہاری تعلیم کیا ہے؟ کہنے لگا، تھرڈ ایئر کا طالب علم ہوں۔ میں نے پوچھا، علمِ حدیث پڑھا ہے؟ کہنے لگا، نہیں۔ پوچھا، علمِ حدیث کے بارے میں اردو کی کوئی کتاب پڑھ رکھی ہے؟ کہا، نہیں۔ میں نے پوچھا کہ پھر یہ سوال تمہارے ذہن میں کیسے آگیا؟ اس نے بتایا کہ ایک صاحب ٹی وی پر یہ گفتگو فرما رہے تھے کہ خبرِ واحد کی حفاظت کا تو حضورؐ نے اہتمام ہی نہیں کیا تو یہ کہاں سے آ گئی؟۔ میں نے کہا اس طرح تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کی حفاظت کا اہتمام بھی نہیں کیا تھا، یہ تو ضرورت پڑنے پر صحابہؓ کرام کے دور میں ہوا ہے، تو کیا ہم نعوذ باللہ قرآن کریم کو درمیان سے نکال دیں؟
میں نے عرض کیا کہ میں اس معاملے میں نئی نسل کا وکیل ہوں کہ ان کا قصور نہیں ہے۔ ایک شخص کے پاس علم نہیں ہے، آپ اس سے فلسفے کا سوال کریں گے تو وہ کیا جواب دے گا؟ خالی برتن آپ چوک میں رکھ دیں گے تو جو جس کا جی چاہے گا ڈالے گا۔ برتن بھرا ہوا ہو گا تو لوگ اس کا خیال کریں گے۔ آپ نئی نسل کے خالی دلوں اور دماغوں کو سوشل میڈیا کے سامنے پھینک رہے ہیں، وہ جو ڈالیں گے، یہ وہی لے کر آئیں گے وہاں سے۔
اس لیے ہمیں سب سے پہلے نئی نسل کو مثبت انداز میں دین سے مانوس کرنے کی ضرورت ہے۔ میں علماء کرام سے عرض کیا کرتا ہوں کہ وہ بچہ یا بچی جو کالج کی عمر کو پہنچ گیا ہے، اس کو نو مسلم سمجھ کر ڈیل کریں کیونکہ اس کے پاس کچھ نہیں ہے۔ اور اس کے سوالات سے گبھرائیں نہیں بلکہ پیار اور محبت سے سمجھائیں۔ ہمارا ماحول یہ ہے کہ کسی نے کوئی سوال پوچھا تو ہم ڈانٹ دیتے ہیں، کیا میرے ڈانٹنے سے اس کا شک کم ہو جائے گا، نہیں بلکہ زیادہ ہو گا۔ اسی طرح ایک نفسیات یہ بھی ہے کہ میں یہ نہیں کہوں گا کہ مجھے معلوم نہیں، میں معلوم کر کے بتاؤں گا، بلکہ فوری طور پر جو جواب ذہن میں آیا وہی دے دیتا ہوں، اس طرح کے ادھورے جواب بھی شکوک میں اضافہ کرتے ہیں۔
سود کے متعلق عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کے حوالے سے میزبان کے سوال پر عرض کیا کہ دستور میں واضح طور پر یہ موجود ہے کہ سودی قوانین کا خاتمہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ پارلیمنٹ اس پر فیصلہ دے چکی ہے، وفاقی شرعی عدالت اور سپریم کورٹ کے فیصلے اس پر سامنے آ چکے ہیں۔ لیکن عملدرآمد اس لیے نہیں ہو رہا کہ نظرثانی اور حکمِ امتناعی کے چکروں میں قوم کو الجھا دیا گیا ہے۔ جبکہ مقتدر حلقے اس حوالے سے سنجیدہ نہیں ہیں بلکہ یہ طے کر لیا گیا ہے کہ اس پر عملدرآمد نہیں ہونے دینا، ورنہ فیصلوں میں کوئی ابہام نہیں ہے۔
کورٹ میرج کے بارے میں ایک سوال پر عرض کیا کہ شرعی تقاضے پورے ہو جائیں تو نکاح منعقد ہو جاتا ہے، مثلاً دونوں کا مسلمان ہونا، ایجاب و قبول اور گواہ وغیرہ۔ لیکن مغرب کی طرز پر کورٹ میرج، جو مذہب کی پابندی سے آزاد ہوتی ہے، وہ ہمارے ہاں قابلِ قبول نہیں ہے۔
میزبان نے کہا کہ مدارس کے طلباء کے لیے کیا پیغام دینا چاہیں گے۔ میں نے کہا کہ بنیادی بات وہی ہے جو علماء سے عرض کیا کرتا ہوں کہ جس سوسائٹی میں آپ جا رہے ہیں اسے سمجھنے کی کوشش کریں اور ان سے اس زبان اور فریکونسی میں بات کریں جسے وہ سمجھتے ہیں۔
میں نے ایک مثال دی کہ ایک بار کسی یہودی صحافی نے نیویارک میں مجھ سے سوال کیا کہ قادیانی قرآن کو بھی مانتے ہیں اور حضرت محمدؐ کو بھی، تو پھر وہ مسلمان کیوں نہیں ہیں؟ اگر میں اس کے سامنے میں قرآن کریم کی آیات پڑھتا یا احادیث سناتا تو یہ ہمارے دلائل ہیں، اس کے نہیں ہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ میں تورات اور انجیل دونوں کو مانتا ہوں اور حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السلام دونوں کو نبی مانتا ہوں، تو اگر میں خدانخواستہ عیسائی یا یہودی ہونے کا دعویٰ کر دوں تو کیا تم اس دعوے کو تسلیم کرو گے؟ اس نے کہا، نہیں۔ پوچھا، کیوں؟ اس نے کہا اس لیے کہ آپ اس کے بعد نئی وحی اور نیا نبی مانتے ہیں تو آپ کا مذہب الگ ہے۔ میں نے عرض کیا کہ یہی دلیل میری ہے کہ قادیانی قرآن کو مانتے ہوں گے اور حضرت محمدؐ کو بھی مانتے ہوں گے، لیکن اس کے بعد وہ نئی وحی اور نیا نبی مانتے ہیں اس لیے ان کا مذہب الگ ہے۔ تو کہنے لگا کہ سمجھ گیا۔
میں عرض کیا کرتا ہوں کہ علماء کو کامن سینس میں اور مخاطب کے لہجے پر بات کرنا ہو گی۔ ایک دفعہ برمنگھم برطانیہ میں عورتوں کے حقوق پر ایک سیمینار تھا۔ میں نے عرض کیا کہ پہلے یہ بتائیں کہ عورت آپ کسے کہتے ہیں؟ سولہ سال کی عمر تک جو اسکول کے ضابطوں کی پابند ہے، اور وہ عورت جسے اس کی اولاد بڑی عمر میں اولڈ پیپلز ہوم چھوڑ آتی ہے، کیا اس کے درمیان کی عمر والی عورت ہے جس کے لیے حقوق اور آزادی کی بات کی جاتی ہے؟
اسلام کا خطاب ’’ایہا الناس‘‘ ہے، نسلِ انسانی تک صرف اسلام کا پیغام پہنچانا ہماری ذمہ داری نہیں بلکہ اس کے تقاضے پورے کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے، اس لیے دین کی بات آج کے لہجے میں آج کے ماحول کے مطابق کرنا ہو گی۔