بھارت کی انتہاپسند ہندو تنظیم ’’آر ایس ایس‘‘ کے لیڈر رام مادھو کی طرف سے انڈیا میں رہنے والے مسلمانوں سے تقاضا کیا گیا ہے کہ ’’وہ غیرمسلموں کو کافر نہ کہیں، خود کو عالمی مسلم اُمہ کا حصہ سمجھنا ترک کر دیں، اور نظریۂ جہاد سے خود کو الگ کر لیں‘‘۔
یہ تقاضا کوئی نیا نہیں ہے اور نہ صرف بھارتی انتہاپسندوں کا یہ مطالبہ ہے، بلکہ آج کے عالمی سیکولر حلقوں کا بھی مسلمانوں سے یہی مطالبہ ہے۔ اس کی بنیاد صرف وطنیت پر نہیں بلکہ انسانی سوسائٹی کے اجتماعی معاملات میں آسمانی تعلیمات سے لاتعلقی اور تمام قومی و معاشرتی معاملات کو طے کرنے کے لیے علاقائی معاشرتی مزاج اور خواہشات کو بنیاد بنانے کے اصول سے منسوب ہے، جسے قرآن کریم نے ’’ان یتبعون الا الظن وما تھوی الانفس‘‘ (وہ محض وہم اور اپنی خواہش کی پیروی کرتے ہیں۔ النجم ۲۳) سے تعبیر کیا ہے اور اس کی نفی کرتے ہوئے ’’ولقد جاءھم من ربھم الھدٰی‘‘ (حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کے ہاں سے ہدایت آچکی ہے۔ النجم ۲۳) کا فطری قانون سب کے سامنے رکھا ہے۔
انڈیا میں چونکہ وطنیت کو ہی تمام امور کی اساس قرار دینے کے ہندو فلسفہ میں مسلمانوں کی کشمکش عملاً صدیوں سے چلی آرہی ہے، اس لیے یہاں یہ بات زیادہ شدت اور سنگینی کا پہلو لیے ہوئے ہے۔ عالمی سطح پر اس کشمکش کا تناظر یہ ہے کہ مغرب اپنے فکر و فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کو پوری انسانیت کے لیے حتمی معیار قرار دیتے ہوئے، دنیا بھر میں اس کے غلبے اور تمام تر مذہبی و علاقائی ثقافتوں کو روندتے چلے جانے کے لیے ہر حربہ اختیار کر رہا ہے۔ مگر جب یہی بات آسمانی تعلیمات کا فائنل ایڈیشن اسلام کے عنوان سے کہتا ہے کہ انسانی فلاح و بہبود اور نجات و کامیابی کا واحد معیار آسمانی تعلیمات ہیں تو ’’ان یتبعون الا الظن وما تھوی الانفس‘‘ کی پیروکار قوتیں ہر جگہ اسے کسی قسم کے معاشرتی کردار کا موقع دیئے بغیر ہر حال میں روکنے اور کچل دینے پر تلی بیٹھی ہیں۔ حالانکہ یہ حقیقت روز بروز واضح ہوتی جا رہی ہے کہ آسمانی تعلیمات کو اپنے فائنل ایڈیشن اسلام کی صورت میں دنیا میں کسی جگہ بھی آزادی کے ساتھ معاشرتی کردار ادا کرنے کا موقع مل جائے تو مغربی فلسفہ و نظام کے لیے اس کا سامنا کرنا ممکن نہیں رہے گا۔ اسی خوف سے نہ صرف مغرب بلکہ اپنے محدود تصورات و افکار کو دنیا پر غالب کرنے کا خواہشمند ہر طبقہ اسلام دشمنی کا علمبردار بنا ہوا ہے۔ بھارت میں یہ صورتِ حال قدرے مختلف ہے کہ یہاں اسلامی فلسفہ و ثقافت پر یلغار کا پرچم ہندو مذہب کے انتہاپسندوں کے ہاتھ میں ہے اور وہ مسلمانوں کو اسلام کی آفاقی تعلیمات اور فطری قوانین و احکام پر عمل سے روکنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔
ہمیں اس سلسلے میں بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کی اجتماعی سوچ اور اپنے عقیدہ و ثقافت کے تحفظ کے لیے ان کی جدوجہد میں ان کا معاون بننا چاہیے۔ معروضی حالات و ظروف کا لحاظ رکھتے ہوئے، سنجیدگی کے ساتھ ان کی علمی و اخلاقی مدد کرنا چاہیے۔ مسلمانوں پر اسی قسم کی آزمائشیں اور چیلنجز تاریخ کے مختلف ادوار میں سامنے آتے رہے ہیں، جن کا سامنا عقیدہ و ایمان پر پختگی، استقامت، حوصلہ اور حکمت و تدبر کے ساتھ کرنے والے ہمیشہ سرخرو رہے ہیں اور اب بھی ان شاء اللہ العزیز ایسا ہی ہوگا۔ اگرچہ بظاہر ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ شاید یہ دور زیادہ سنگین اور کہیں زیادہ صبر آزما ہے۔ اللہ تعالیٰ بھارت بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کو اس میں باوقار سرخروئی سے بہرہ ور فرمائے، آمین یا رب العالمین!