فتنوں کے دور میں ہمارے کرنے کے کام

   
۲۸ اگست ۲۰۲۲ء

۲۴ اگست کو فیصل آباد میں نوجوان عالم دین مولانا مفتی مسعود ظفر کی تین کتابوں کی رونمائی کی تقریب ہوئی جو انہوں نے علاماتِ قیامت اور فتنوں کے حوالہ سے لکھی ہیں۔ صاحبزادہ زاہد محمود قاسمی، جناب اوریا مقبول جان، مولانا مفتی محمد ضیاء مدنی اور دیگر سرکردہ علماء کرام اور معزز شہریوں نے شرکت کی۔ اس موقع پر راقم الحروف نے جو گفتگو کی اس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ مولانا مفتی مسعود ظفر ، مولانا ذی شان اور ان کی تمام ٹیم کا شکر گزار ہوں کہ اس مبارک محفل میں حاضری اور اللہ تعالیٰ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کے دو تین مجموعوں پر گفتگو کرنے کا موقع عنایت فرمایا، اللہ تعالیٰ حاضری قبول فرمائیں، فاضل مقررین تشریف فرما ہیں جو تفصیلی گفتگو کریں گے، میں حاضری کے لیے دو تین باتیں عرض کروں گا۔

جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تشریف آوری سےپہلے کے حالات اور کائنات کے آغاز سے لے کر اپنی ذات گرامی تک کے اہم واقعات کا ذکر فرمایا ہے، اور قیامت تک آنے والے بہت سے واقعات ، خطرات اور خدشات کی نشاندہی بھی فرمائی ہے۔ یہ آپ کی جامعیت کا ایک پہلو ہےکہ آپؐ کی تعلیمات کائنات کے آغاز سے لے کر کائنات کی انتہاء تک پورے ماحول کا احاطہ کرتی ہیں، جوکہ تکوینیات کے حوالے سے بھی ہے اور تشریعیات میں بھی۔ میں کل ایک خبر پڑھ رہا تھا کہ صحرائے عرب میں سیلاب آیا ہوا ہے اور الربع الخالی پانی میں ڈوبا ہوا ہے، میرے ذہن میں وہ حدیث مبارکہ آئی جس میں جناب نبی کریمؐ نے ارشاد فرمایا ہےکہ قیامت سے پہلے ایک تبدیلی یہ بھی آئے گی کہ صحرائے عرب نہروں اور سبزہ زاروں میں تبدیل ہو جائے گا۔ سائنس اسے موسمی تغیر سے تعبیر کرتی ہے جبکہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے جو ارشادات قیامت سے پہلے پیش آنے والے واقعات سے متعلق کہلوائے ہیں، وہ تکوینی حوالے سے بھی اور تشریعی حوالے سے بھی ان شاء اللہ ایک ایک کرکے پورے ہوکر رہیں گے۔

یہ پہلو کہ قیامت تک کیا ہونے والا ہے اس کے متعلق جناب نبی اکرمؐ کے ارشادات موجود ہیں ۔پاکستان بننے سے پہلے گوجرانوالہ میں ایک بڑے مسیحی عالم ڈاکٹر ای چارلس نے ایک کتاب ’’آئینہ احوال‘‘ لکھی جس میں انہوں نے قیامت تک آنے والے حالات کا بائبل کے حوالے سے ذکر کیا کہ اس حوالے سے بائبل یہ کہتی ہے۔ اس کے مطابق انہوں نے ۱۹۹۴ء میں دنیا ختم کر دی تھی کہ وہ قیامت کا سال ہو گا۔ کتاب شاید ۱۹۳۰ء میں لکھی تھی جبکہ ۱۹۹۴ء کو گزرے ہوئے اٹھائیس سال ہو چکے ہیں۔ اس لیے میں عرض کیا کرتا ہوں کہ جناب نبی کریمؐ کے ارشادات تو اپنے اپنے وقت پر پورے ہوں گے، لیکن ہمیں کیا کرنا ہے؟ وہ کام نہیں کرنا جو ڈاکٹر ای چارلس نے کیا ، بلکہ دن گننے کی بجائے اس وقت کے لیے تیاری کرنی ہے۔

اسی طرح چند سال پہلے کی بات ہےکہ کیلیفورنیا کے ایک پادری صاحب نے قیامت کا ایک دن متعین کر دیا کہ فلاں دن قیامت آئے گی۔ جب وہ دن آگیا تو کہنے لگے مجھ سے حساب میں غلطی ہو گئی تھی، مارچ نہیں، نومبر میں قیامت آئے گی۔ اس سلسلہ میں ایک لطیفہ یہ ہے کہ ان دنوں یہ بات بہت مشہور ہو گئی تھی کہ بائیس نومبر جمعہ کے دن قیامت آئے گی۔ اس سے دو دن پہلے میں کراچی میں تھا، گوجرانوالہ سے ایک خاتون نے فون کیا کہ مولانا! پرسوں کیا ہوگا؟ میں نے کہا جمعہ ہوگا۔وہ بولی نہیں! جمعے کو کیا ہوگا؟ میں نے کہا ان شاء اللہ گوجرانوالہ میں جمعہ پڑھاؤں گا! اس نے پوچھا پھر کیا ہوگا؟ میں نے کہا گکھڑ میں شام کو درس بھی دوں گا۔ اس نے پوچھا پھر کیا ہوگا؟ میں نے کہا جو تم سمجھ رہی ہو، وہ نہیں ہوگا، آرام سے سو جاؤ۔ وہ جب اللہ کو منظور ہوگا تب ہوگا۔ بہرحال یہ ہمارے ہاں بھی ایک ماحول سا بن گیا ہے۔

میں نے یہ عرض کیا ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مستقبل کے بارے میں جو باتیں فرمائی ہیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرمائی ہیں۔ حضورؐ کی اپنی تو کوئی بات ہوتی ہی نہیں ’’وما ینطق عن الھوٰی، ان ھو اِلا وحی یوحٰی ‘‘ وہ ایک ایک کرکے پوری ہوں گی ۔ لیکن ان حالات میں ہم نے کیا کرنا ہے؟

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک صاحب نے پوچھا تھا قیامت کب آئے گی؟ آپؐ نے ایک موقع پر یہ جواب دیا ’’ما المسؤول عنھا باعلم من السائل‘‘ کہ جتنا تمہیں پتہ ہے مجھے بھی اتنا ہی علم ہے، میں قیامت کا متعین وقت نہیں بتا سکتا۔ ایک اور شخص نے یہی سوال کیا تو آپؐ نے فرمایا ’’مااعددت لھا؟‘‘ قیامت کی تاریخ پوچھ رہے ہو، اس کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے؟ اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! زیادہ تیاری تو نہیں ہے ، البتہ مجھے اللہ اور اس کے رسول سے بہت محبت ہے۔ اس پر آپؐ نے فرمایا ’’انت مع من احببت‘‘ تمہیں جن کے ساتھ محبت ہے انہی کے ساتھ شمار ہوگے۔

آنے والے حالات سے باخبر اس لیے کیا جاتا ہےتاکہ ان کے لیے پہلے سے تیاری کرلی جائے۔ ابھی سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ ہو رہا تھا۔ حضرت عیسیٰؑ تشریف لائیں گے، امام مہدی علیہ الرحمۃ کا ظہور ہوگا، وہ جنگوں اور جہاد کے مراحل کی تکمیل فرمائیں گے۔ جہاد کے مراحل کا آخری راؤنڈ ان کا ہوگا۔ احادیث نبویہ کی روشنی میں ان سب باتوں پر ہمارا ایمان ہے۔ میں نے بہت عرصہ پہلے ایک کتاب میں یہ پڑھا تھا کہ عالم اسباب میں حضرت عیسیٰ ؑکے نزول اور حضرت مہدیؒ کے ظہور سے پہلے دو باتیں ہو چکی ہوں گی۔ ایک تو یہ کہ دنیا بھر میں ایسے لوگ جنگ کے لیے اسلحے کی ٹریننگ کے لحاظ سے موجود ہوں گے جو اُن کے اعلان پر لبیک کہتے ہوئے ان کے ساتھ چل پڑیں گے کیونکہ ان کو تیاری کا موقع نہیں ملے گا۔ وہ آئیں گے اور آکر قیادت سنبھال لیں گے۔

دوسری بات کہ اخلاقی اور دینی اعتبار سے بھی دنیا بھر میں اچھے لوگ موجود ہوں گے، جو نماز، روزہ، دینیات اور اخلاقیات کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرنے والے ہوں گے کہ جونہی جہاد کی آواز ان کے کان میں پڑے گی وہ ساتھ چل پڑیں گے کیونکہ حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت مہدیؒ کو ان دوکاموں کی تیاری کا وقت نہیں ملے گا۔ یہ دو نوں کام پہلے سے تیار موجود ہوں گے۔ جب سے میں نے یہ پڑھا اس دن سے یہ بات میرے ذہن میں بیٹھی ہوئی ہے کہ ان کاموں کی تیاری میں ہمارا بھی کوئی حصہ ہے یا نہیں؟ ہمارا کام دن گننا نہیں ہے،بلکہ یہ سوچنا ہے کہ ہمارا حصہ کیا ہو گا؟ اس لیے کہ جنگ تو اسباب سے ہی لڑی جائے گی، والد محترم مولانا حضرت محمد سرفراز خان صفدرؒ اس حوالے سے ایک بات سمجھایا کرتے تھےکہ دنیا کا نظام اسباب کے تحت چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ہاں اسباب سے ہٹ کر دنیا کے کام کرنے کا ضابطہ نہیں ہے۔ دنیا کا ہر کام اسباب سے ہوتا ہے۔ اسباب اختیار کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ اس کی وہ مثال دیتے تھے کہ روایات کے مطابق حضرت عیسیٰؑ دمشق کی جامع مسجد کے مشرقی مینار پر تشریف لائیں گے، فجر کی نماز کا وقت ہوگا، آپؑ آواز دیں گے کہ سیڑھی لاؤ۔ سوال یہ ہے کہ وہ آسمان سے یہاں تک تو تشریف لےآئے ہیں، اب سیڑھی کی ضرورت کیوں پڑ گئی؟ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ دنیا کا نظام اسباب سے ہی چلتا ہے، اسباب سے ماوراء نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی معجزہ یا کرامت کا ظہور ہوجاتا ہے لیکن دنیا کے اسباب اختیار کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

اس لیے ہم حضرت عیسیٰؑ اور حضرت مہدی کا انتظار تو کر رہے ہیں لیکن ہمیں یہ دعا بھی کرنی چاہیے کہ اگر وہ ہماری زندگی میں تشریف لے آئیں تو ہمارا شمار ان کے کیمپ میں ہی ہو، خدانخواستہ دوسری طرف نہ کھڑے ہوں۔ اور دوسرا یہ کہ اس دور میں جن کاموں اوراسباب کی ضرورت ہو گی ،دینی، فکری اور علمی یا عملی اعتبار سے ان میں سے کوئی کام ہمیں بھی آتا ہو، تاکہ ہم ان کے ساتھ کام میں لگ جائیں اور ہمارا حصہ بھی پڑ جائے۔ حالات آ رہے ہیں، واقعات روز بروز بڑھ رہے ہیں ، ان حالات میں ہمیں فکر کرنی چاہیے کہ اس دور کے کاموں میں ان کی رفاقت کے لیے ہم تیار ہیں یا نہیں!

عمل کرنے والے کیسے عمل کرتے ہیں اس پر ایک واقعہ عرض کرتا ہوں۔ کچھ سال پہلے میرا برطانیہ کے شہرڈنز میں جانے کا اتفاق ہوا، میرا بھانجا وہاں رہتا تھا، اس نےوہاں ایک نومسلم انجینئر مورس عبد اللہ سے تعارف کرایا ، میں نے اس سے انٹرویو کیا جو چھپا ہوا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا تم انگریز ہو یہاں ڈنز میں کیا کررہے ہو؟ تم یہاں کے باشندے تو نہیں ہو، تو یہاں اسکاٹ لینڈ کی پہاڑیوں پر کیا کر رہے ہو؟ اس نے کہا میں نے مصر میں قرآن کریم سے متاثر ہوکر اسلام قبول کیا تھا ، اس کے بعد جب یہاں آیا تو پھنس گیا،ہر ایک اپنی طرف کھینچ رہا تھا، میرے چند مہینے اس کشمکش میں گزرے کہ اسلام تو قبول کر لیا ہے لیکن کہیں ایڈجسٹ نہیں ہو پا رہا ۔ یہ آج کے دور کا بڑا مسئلہ ہے کہ قرآن پاک نے مسلمان تو بنا دیا ہے لیکن مسلمانوں میں کہیں ایڈجسٹ نہیں ہو پا رہا ۔

اس نے بتایا کہ میں نے محمدصاحب صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث پڑھی ہوئی تھی کہ ایک زمانہ آئے گا کہ مسلمان کے لئے بہترین سامان چند بکریاں ہوں گی جنہیں لے کر وہ پہاڑ پر چڑھ جائے گا اور اپنا ایمان بچا کر وہاں وقت گزارے گا۔ میں نے حضرت محمدؐ کی اس حدیث پر عمل کرتے ہوئے سب کچھ چھوڑ کر اس پہاڑی پر بکریوں کا فارم بنایا ہوا ہے ، بکریاں پالتا ہوں، لوگوں کو قرآن پڑھاتا ہوں اور اپنے ایمان کی حفاظت کر رہا ہوں۔

میں آپ سے یہ نہیں کہہ رہا کہ شہر چھوڑ جائیں اور پہاڑوں پر چڑھ جائیں، لیکن ایمان بچانے کی فکر تو کریں، اس کے اسباب تو اختیار کریں۔ اس دورمیں جبکہ ایمان ہر طرف سے حصار اور گھیرے میں ہے ، یقین کو توڑنے اور ایمان پر حملہ کرنے کےلیے نہ معلوم کیا کیا حربے ہو رہے ہیں، مغرب کا سارا زور اس پر لگ رہا ہے کہ کسی طریقے سے مسلمان کی اللہ،اس کے رسولؐ اور قرآن کریم کے ساتھ کمٹمنٹ کمزور ہو جائے ۔ اس کمٹمنٹ کو کمزور کرنے کے لیے دنیا بھر کے وسائل صرف ہو رہے ہیں جبکہ ہمارا سب سے بڑا مورچہ یہ ہے کہ ہم نے اللہ تعالٰی، قرآن مجید اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی کمٹمنٹ کو قائم رکھنا ہے ، بلکہ اس لیول کو قائم رکھنا ہے جو اس دور میں ہمیں فتنوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے تاکہ آنے والے دورمیں اگر یہ بزرگ ہماری زندگی میں تشریف لے آئیں تو ہم ان کے کیمپ میں شامل ہو سکیں ۔

یہ اسباق ہماری کتابوں میں بکھرے پڑے ہیں، محدثین نے اس پر بےشمار محنت کی ہے ،مولانا مفتی مسعود ظفر کو مبارکباد دیتا ہوں اور شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے ان میں سے نئی نسل کے لیےعام فہم انداز میں دو تین رسالوں میں اچھا انتخاب پیش کیا ہے۔ جو آج کی نسلِ نو کے لیے آنے والے دور کو سمجھنے کے لیے ایک بہترین ذخیرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائیں، اس کو بارآور کریں اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کے لیے نفع بخش بنائیں، آمین۔

   
2016ء سے
Flag Counter