۲۷ اکتوبر ۲۰۲۲ء کو بعد نماز عشاء مسلم کالونی چناب نگر میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی سالانہ ختم نبوت کانفرنس کے دوران امیر مرکزیہ حضرت مولانا حافظ ناصر الدین خاکوانی دامت برکاتہم کی زیر صدارت منعقدہ چھٹی نشست میں معروضات پیش کرنے کا موقع ملا، ان کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ملک اس وقت سنگین خلفشار سے دوچار ہے، باہمی خلفشار، بے اعتمادی اور افراتفری نے ہر شہری کو پریشان کر رکھا ہے، اس حوالے سے چند گزارشات کرنا چاہ رہا ہوں۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ احد کے موقع پر پریشان کن صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کا ذکر قرآن کریم میں تفصیل کے ساتھ کیا گیا ہے۔ جنگ کے ابتدائی مراحل میں مسلمانوں کی فتح اور پیش قدمی کے حالات پیدا ہو گئے تھے مگر اچانک پانسہ پلٹ گیا اور وقتی پسپائی کے ساتھ بہت نقصان کا سامنا کرنا پڑا، مسلمان لشکر کچھ دیر کے لیے تتربتر ہو گیا، افراتفری میں ستر صحابہ کرام شہید اور خود نبی کریمؐ زخمی ہو گئے۔ حتٰی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہید ہونے کی خبر بھی پھیل گئی، قرآن کریم نے اس کے اسباب کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ”قلتم انّٰی ھذا، قل ھو من عند انفسکم“ تم پوچھتے ہو کہ یہ کہاں سے ہوا، اے پیغمبر! ان سے کہہ دیجیے کہ یہ سب تمہاری اپنی کوتاہیوں کا نتیجہ ہے۔
اس کی تفصیلات میں جانے کی بجائے صرف یہ عرض کروں گا کہ کسی معاملہ میں نقصان یا ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تو اس کے اسباب پہلے خود اپنے ہاں تلاش کرنے چاہئیں کہ یہ ہماری کس کوتاہی کا نتیجہ ہے اور پھر اس کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، یہ قرآن کریم کا حکم ہے اور اصلاحِ احوال کا صحیح راستہ ہے۔
اس وقت ہم قومی سطح پر جن مسائل سے دوچار ہیں ان میں دستور کی بالادستی، قومی خودمختاری، معیشت پر بیرونی نگرانی، اور قانون سازی میں بیرونی دخل اندازی وہ اہم معاملات ہیں جن کی وجہ سے ہمیں اس سنگین صورتحال کا سامنا ہے اور ان کے اسباب و عوامل کا تجزیہ ہمیں اپنے قومی کردار اور اب تک کی کارکردگی کی روشنی میں کرنا ہو گا، اس کے بغیر ہم اس دلدل سے نہیں نکل سکیں گے، ان میں سے دو تین مراحل کا ذکر کرنا چاہوں گا جن کا تفصیل کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
ہمیں اس وقت قومی معاملات میں مسلسل امریکی مداخلت کی شکایت ہے جس سے آزادی کے لیے نعرے لگ رہے ہیں اور اس کے راستے تلاش کیے جا رہے ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد ہماری خارجہ پالیسی کو امریکی کیمپ میں لے جانے کی بات کی جائے تو اس کی ذمہ داری ملک کے پہلے وزیرخارجہ چودھری ظفر اللہ خان پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے اپنی پالیسیوں کے ذریعے پوری قوم کو امریکہ کی جھولی میں ڈال دیا۔ چنانچہ جب تحریک ختم نبوت ۱۹۵۳ء کے دوران دینی حلقوں نے وزارت خارجہ سے ظفر اللہ خان کی برطرفی کا مطالبہ کیا تو ذمہ دار حلقوں کی طرف سے واضح طور پر کہا گیا کہ اس سے امریکہ ناراض ہو جائے گا۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو امریکی مفادات کے دائرے میں جکڑنے کا آغاز کہاں سے ہوا تھا۔ ہمارے دانشوروں اور جامعات کو اس موضوع پر کام کرنا چاہیے کہ پاکستان کو امریکی کیمپ میں کیسے لے جایا گیا تھا اور اس کے اسباب کیا تھے اور کردار کون کون سے تھے۔
اس حوالے سے دوسری بات یہ عرض کروں گا کہ امریکیوں کو یہ پیغام ہمارے سابق صدر فیلڈ مارشل محمد ایوب خان مرحوم نے سب سے پہلے دیا تھا کہ ہمیں دوستوں کی ضرورت ہے آقاؤں کی نہیں۔ امریکی کانگریس میں صدر محمد ایوب خان کا خطاب اور ”فرینڈز ناٹ ماسٹرز“ کے عنوان سے ان کی کتاب ریکارڈ پر موجود ہے۔ مگر ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ ہم امریکیوں کے سامنے یہ دوٹوک بات کہہ دینے کے بعد بھی اسی ٹریک پر مسلسل کیوں چلے آ رہے ہیں اور امریکہ کے ساتھ دوستی کو ”آقائی“ کے حصار سے نکالنے میں کوئی کردار کیوں ادا نہیں کر پائے؟ قرآن کریم کے ارشاد ”قل ھو من عند انفسکم“ کے تحت اس کا جائزہ خود ہمیں لینا ہو گا اور یہ ہماری ذمہ داری ہے۔
تیسری بات یہ کہ ہماری قومی معیشت کے بیرونی نگرانی بلکہ کنٹرول میں چلے جانے کے اسباب کا جائزہ لینا بھی ضروری ہو گیا ہے۔ اس کے ایک مرحلہ کی طرف اشارہ کروں گا کہ جب پاکستان کی تقسیم کی راہ ہموار کی جا رہی تھی، مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کا عمل جاری تھا، اور اس کے بڑے اسباب میں مبینہ طور پر معاشی عدمِ توازن کا تذکرہ زیادہ تر ہوتا تھا، اس وقت قومی اقتصادی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین مرزا مظفر احمد (ایم ایم احمد) تھے جو مرزا غلام احمد قادیانی کے پوتے ہیں۔ مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے چند ارکان نے مولوی فرید احمد مرحوم کی قیادت میں باقاعدہ پریس کانفرنس کر کے کہا تھا کہ ملک کے دونوں حصوں کے درمیان معاشی عدمِ توازن اور غلط فہمیاں پھیلانے والے مرزا مظفر احمد ہیں انہیں اس منصب سے برطرف کیا جائے، مگر ایم ایم احمد کی برطرفی کی بجائے ملک کی تقسیم کو گوارا کر لیا گیا۔ یہ بھی ریسرچ کا ایک اہم موضوع ہے جس کا جائزہ لے کر ہم اپنی موجودہ زبوں حالی کے اسباب کا تعین کر سکتے ہیں۔
ایک بات یہ بھی شامل کر لیں کہ ہم قومی قانون سازی میں بیرونی اداروں کی ڈکٹیشن پر چل رہے ہیں۔ اوقاف ایکٹ، گھریلو تشدد کی روک تھام کا قانون، اسٹیٹ بینک پر بیرونی نگرانی کا قانون، اور ٹرانسجینڈر ایکٹ کے ذریعے خاندانی نظام اور معاشرتی نظم کو سبوتاژ کرنے کا قانون اس صورتحال میں اس کا نمایاں مظہر ہیں۔
اپنی پریشانیوں، ناکامیوں اور نقصانات کے اسباب کا خود جائزہ لینا اور ان سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش کرنا فطری بات بھی ہے اور قرآن کریم کا ہمارے لیے حکم بھی ہے۔ جس کی طرف عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے اس فورم کے ذریعے قوم کے تمام طبقات، اداروں اور حلقوں کو توجہ دلاتے ہوئے آخر میں اپنے اس خدشے اور قلبی اضطراب کا اظہار ضروری سمجھتا ہوں کہ موجودہ قومی خلفشار کے پیچھے مجھے وہ ملکی اور بیرونی عناصر بھی متحرک دکھائی دے رہے ہیں جو پاکستان کے دستور کے خلاف ایک عرصہ سے سرگرم عمل ہیں اور جن کا ایجنڈا دستور پاکستان کو غیر مؤثر بنا کر ملک کو سیکولر ریاست کی حیثیت دینا ہے۔ ملک کے تمام اداروں، طبقات، سیاسی جماعتوں اور دینی حلقوں کو اس پر کڑی نظر رکھنی چاہیے اور خاص طور پر تمام ریاستی اداروں کو دستور کی بالادستی اور عملداری میں اپنا کردار صحیح طور پر سرانجام دینا چاہیے ورنہ خدانخواستہ ہم غفلت اور بے پروائی کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کی تلافی نہیں کر پائیں گے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق سے نوازیں، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔