(جامعہ فتحیہ اچھرہ لاہور میں بعد نماز عصر ہفتہ وار درس)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ گزشتہ دنوں ہمارے ملک کے وزیرخزانہ جناب اسحاق ڈار نے اعلان کیا ہے کہ حکومت نے سودی نظام کو ختم کرنے اور غیر سودی معیشت کو اپنانے کا فیصلہ کر لیا ہے، اور وفاقی شرعی عدالت نے رمضان المبارک میں جو فیصلہ کیا تھا کہ سودی نظام ختم کرو اور شریعت کا نظام نافذ کرو، اس پر مقرر کردہ مدت کے اندر عملدرآمد کا ہم نے پروگرام بنا لیا ہے۔ اس کے ساتھ انہوں نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں جو اپیلیں دائر کی گئی ہیں ان میں سرکاری بینکوں نیشنل بینک اور اسٹیٹ بینک کی اپیلیں ہم واپس لے رہے ہیں اور عملدرآمد کا آغاز کر رہے ہیں۔
یہ بہت اچھی اور خوشی کی بات ہے، اس لیے کہ یہ ہمارے ملک، قوم، ہماری آزادی اور ہمارے دین کی ضرورت ہے اور سود کو قرآن کریم نے ایک لعنت قرار دیا ہے۔ ہم نے ملک بھر میں اس کا خیرمقدم کیا ہے اور اس کے حق میں آواز بھی بلند کر رہے ہیں، البتہ اس موقع پر دو سابقہ باتیں یاد آئی ہیں، میں انہیں بھی ریکارڈ کا حصہ بنانا چاہتا ہوں۔
جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ان کے وزیرخزانہ غلام اسحاق خان مرحوم تھے جو پرانے بیوروکریٹ تھے، پہلے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ وزیرخزانہ رہے، بعد میں ہمارے ملک کے صدر بھی بنے۔ جب وزیرخزانہ تھے تو انہوں نے ساری تیاری کر کے بحیثیت وزیرخزانہ بجٹ کی نشری تقریر میں ایک اعلان فرمایا تھا۔ ۱۹۸۴ء کے بجٹ کی تقریر میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے سودی نظام ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور اس سلسلہ میں سارے اشکالات دور کر لیے ہیں، ہم نے غیر سودی بینکاری اور قرآن و سنت کے مطابق معیشت اور بینکاری کا نظام بنا لیا ہے، اور اس کے ساتھ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ میں قوم کو خوشخبری سناتا ہوں کہ اگلے سال کا بجٹ غیر سودی ہو گا۔
اس اعلان سے بھی ہم بہت خوش ہوئے تھے جیسے کہ اب ہو رہے ہیں لیکن وہ اگلا سال ابھی تک نہیں آیا۔ اللہ کی قدرت کہ وہ وزیرخزانہ بھی اسحاق صاحب تھے اور یہ وزیرخزانہ بھی اسحاق صاحب ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اس دفعہ کی ہماری خوشی پکی کر دے کہ یہ پہلے کی طرح نہ ہو۔ یہ وزیرخزانہ پانچ سال کا عرصہ مانگ رہے ہیں، انہوں نے تو ایک سال کا وقت دیا تھا کہ اس دوران سارا نظام غیر سودی کر دیں گے۔ وزیرخزانہ کے اعلان کے حوالے سے ایک تو یہ بات یاد دلانا چاہتا تھا کیونکہ ہماری قوم جلد بھول جاتی ہے۔
جبکہ دوسرا واقعہ یہ عرض کروں گا کہ جب جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف فتح کیا۔ اس سفر میں مکہ فتح ہوا، مکہ کے بعد حنین کی جنگ میں فتح ہوئی، اسی سفر میں اوطاس کی جنگ میں فتح ہوئی، تین جنگیں جیتنے کے بعد سترہ دن تک طائف کا محاصرہ کیا لیکن طائف فتح نہیں ہو سکا۔ طائف میں بنو ثقیف کی طاقتور قوم تھی لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ اِدھر مکہ والے اور اُدھر حنین والے مسلمان ہو گئے ہیں تو ہم کیا کریں گے، کلمہ تو پڑھنا ہی ہے۔ اس لیے فیصلہ کیا کہ ہم مسلمان ہو جائیں گے لیکن چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں فتح نہیں کر سکے اور ہم خود کلمہ پڑھنے جائیں گے تو اپنی شرطوں پر اسلام قبول کریں گے۔ چنانچہ بنو ثقیف کا وفد مدینہ منورہ پہنچا، حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ کلمہ پڑھنے آئے ہیں لیکن ہماری کچھ شرطیں ہیں۔
- پہلی شرط یہ کہ آپ نماز کے اوقات کی پابندی کا حکم دیتے ہیں، ہم نماز کو تسلیم کرتے ہیں لیکن پانچ نمازوں کے اوقات کی پابندی ہمارے لیے مشکل ہے، ہم اپنی مرضی سے جب چاہیں گے پڑھیں گے۔
- دوسری شرط یہ لگائی کہ آپ نے شراب پر پابندی لگا دی ہے کہ اس کا بنانا، بیچنا، خریدنا اور پینا سب حرام ہے، ہمارا تو علاقہ ہی انگوروں کا ہے جو ہماری سب سے بڑی پیداوار ہے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ کچا انگور مارکیٹ میں جائے تو کچھ حاصل نہیں ہوتا اور اگر اسے نچوڑ کر پکا کر بیچا جائے تو سارا خرچہ نکل آتا ہے، اس لیے ہم شراب بنانا نہیں چھوڑیں گے کیونکہ یہ ہماری معیشت ہے۔
- تیسری شرط یہ کہ آپ سود کو حرام قرار دیتے ہیں جبکہ دوسری قوموں کے ساتھ ہماری تجارت کی بنیاد ہی سود ہے۔ اس سے ہمارا کاروبار خراب ہو جائے گا اس لیے ہم سود نہیں چھوڑیں گے۔
- چوتھی شرط یہ کہ فتح مکہ کے بعد جہاں جہاں آپ کا کنٹرول ہوا آپ نے بت توڑ دیے، ہمارا بھی ایک بڑا بت ہے ’’لات‘‘، ہماری شرط ہے کہ آپ ہمارے بت کو نہیں توڑیں گے کیونکہ یہ ہماری ثقافتی یادگار ہے۔ ’’لات‘‘ بنو ثقیف کا بت تھا جس کا ذکر قرآن کریم میں بھی ہے۔
- پانچویں شرط یہ لگائی کہ ہمارے ہاں شادیاں بہت دیر سے کرنے کا رواج ہے اس لیے ہمیں زنا کی بھی اجازت دیں، یہ نہیں ہم چھوڑ سکیں گے۔ ہم کلمہ پڑھنے کے لیے تیار ہیں لیکن ان شرطوں کے ساتھ۔
میں اس کا یوں ذکر کیا کرتا ہوں کہ یہ پانچ باتیں تو نہیں ہوں گی اس کے علاوہ اگر کچھ باقی رہ گیا ہے تو اس کا کلمہ پڑھا دیں۔ لیکن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا یہ مطالبہ مسترد کر دیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے ’’ادخلوا فی السلم کافہ‘‘ اسلام تو پورا ایک پیکیج ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ اس کا ایک حصہ لے لو اور دوسرا حصہ چھوڑ دو۔ اسلام قبول کرنا ہے تو پورا اسلام قبول کرو، چنانچہ نبی کریمؐ نے ان کی شرطیں منظور نہیں کیں۔
اس وفد میں بنو ثقیف کے سردار تھے، مسجد نبوی میں ان کا خیمہ لگا ہوا تھا، وہ واپس اپنے خیمے میں گئے اور رات کو انہوں نے سوچا کہ بات تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ٹھیک ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مکہ کا اسلام اور ہو اور طائف کا اسلام اور ہو۔ مکہ کی شریعت اور ہو اور طائف کی شریعت اور ہو۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ اگر طائف کی شریعت مکہ کی شریعت سے مختلف ہو جاتی تو دنیا بھر کے باقی علاقوں میں کیا حال ہوتا۔ انہوں نے سوچا ہو گا کہ بات ٹھیک ہے کہ شریعت تو جہاں بھی ہو گی ایک ہی ہو گی۔ اس لیے وہ صبح حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ہم اپنی شرطیں واپس لیتے ہیں، یوں وہ شرطوں سے دستبردار ہوئے اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔
میں یہاں دو باتیں عرض کیا کرتا ہوں:
- ایک یہ کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شرطیں مسترد کر دیں اور شرطوں کے دلائل بھی مسترد کر دیے۔ سود کے جواز میں ان کی دلیل یہی تھی کہ ہمارا بین الاقوامی کاروبار متاثر ہوتا ہے اس لیے ہم سود نہیں چھوڑ سکتے۔ آج بھی سودی نظام کے جواز میں یہی عذر پیش کیا جاتا ہے۔ حضور ؐنے ان کی شرائط کو مسترد کر دیا کہ اسلام لانا ہے تو پورے کا پورا لاؤ۔
- دوسری بات یہ کہ طائف والوں کو یہ بات سمجھنے میں ایک رات لگی تھی کہ جو حضورؐ فرما رہے ہیں وہی ہو گا اور اس کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا۔ لیکن ہمیں پچھتر سال سے یہ بات سمجھ میں نہیں آ رہی کہ اسلام اور شریعت کے معاملے میں شرطیں نہیں چلا کرتیں، قرآن و سنت کے احکام و قوانین میں نہ شرطیں لگائی جاتی ہیں اور نہ شرطیں قبول کی جاتی ہیں۔ یہ بات ہم آج تک نہیں سمجھ پائے کہ اللہ اور اس کے رسول کے سامنے سرنڈر تو بہرحال ہونا پڑے گا۔ اس لیے اب اگر ہم نے اس کا فیصلہ کر لیا ہے جیسا کہ ہمارے وزیرخزانہ نے یہ حوالہ دے کر کہ قرآن مجید کہتا ہے کہ سود کو ختم کر دو، قانون اور عدالت بھی یہی کہتی ہے اس لیے ہم نے سودی نظام ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور ہم سرکاری اپیلیں بھی واپس لے رہے ہیں۔ اگر واقعی حکومت اس فیصلے میں سنجیدہ ہے تو قوم کے لیے اس سے زیادہ خوشی کی کیا بات ہو سکتی ہے۔ ہم اس کا خیرمقدم کرتے ہوئے ہر ممکن تعاون کا یقین دلاتے ہیں اور دعا گو ہیں کہ وہ سال جلد آجائے جس کا وعدہ غلام اسحاق خان مرحوم نے قوم سے کیا تھا، اللہ کرے کہ اسحاق ڈار صاحب کے ذریعے سے ہی ہمارا نظام غیرسودی ہو جائے، آمین۔