زکٰوۃ کا نظام اور شہزادہ چارلس

   
نا معلوم

لاہور سے شائع ہونے والے ایک قومی روزنامے کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ کے ولی عہد شہزادہ چارلس نے گزشتہ دنوں دورہ عمان کے دوران ایک خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ زکوٰۃ کا نظام نہ صرف مسلمانوں کی بلکہ ساری دنیا کی تقدیر بدل سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق تقریب سے خطاب کے دوران شہزادہ چارلس نے سامعین کو اس وقت چونکا دیا جب انہوں نے اسلام کے اہم رکن زکوٰۃ کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ یہ انسانی مساوات کی ایک شاندار مثال ہے جس کی پیروی ہر انسان کو کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ زکوٰۃ کے نظام کی پیروی کر کے دولت اور طاقت میں توازن برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شہزادہ چارلس ان دنوں اسلام کا انتہائی دلچسپی سے مطالعہ کر رہے ہیں اور وہ اسلام کے پانچ ارکان میں سے زکوٰۃ سے بے حد متاثر ہیں۔

اسلام نے زکوٰۃ، صدقات، وراثت اور دیگر ذرائع سے دولت کی تقسیم در تقسیم کا جو ہمہ گیر نظام دیا ہے اس کا فلسفہ خود قرآن کریم نے سورۃ الحشر آیت ۷ میں یہ بیان فرمایا ہے کہ ’’تاکہ دولت تم میں سے مالداروں کے درمیان ہی گردش نہ کرتی رہے‘‘۔

معاشرہ میں دولت کی تقسیم کا توازن قائم کرنا امن و انصاف اور خوشحالی کے لیے ناگزیر ہے کیونکہ دولت کی حیثیت سوسائٹی میں وہی ہے جو انسانی جسم میں خون کی ہے۔ خون اگر گردش کرتا رہے گا تو جسمانی صحت قائم رہے گی۔ کسی جگہ خون ضرورت سے زیادہ جمع ہو جائے گا تو خرابی پیدا ہوگی، پھوڑے پھنسیاں اور اس قسم کی بیماریاں جنم لیں گی۔ اور اگر کسی عضو میں خون اس کی ضرورت سے کم فراہم ہو گا تو وہ عضو مفلوج ہو جائے گا۔ پھر تمام اعضا کی ضروریات یکساں نہیں ہیں، ہر ایک کی ضرورت کی مقدار الگ ہے۔ اور مساوات کا معنی یہ نہیں ہے کہ تمام اعضا کو خون کی برابر برابر مقدار ملے، بلکہ مساوات اس کا نام ہے کہ ہر عضو کو اس کی ضرورت کے مطابق خون ملتا رہے۔ اسی کا نام توازن ہے اور جب بھی یہ توازن بگڑے گا انسانی جسم بیماریوں کی آماجگاہ بن جائے گا۔

اسلام نے سوسائٹی میں دولت کی گردش کو اسی لیے ضروری قرار دیا ہے اور دولت کی تقسیم کا ایک فطری نظام دیا ہے کہ اس پر عمل کرنے سے انسانی معاشرہ خودبخود امن اور خوشحالی کی منزل سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ بلکہ قرآن کریم کا دعوٰی ہے کہ آسمانی تعلیمات پر عمل کی ان برکات سے ہر دور میں انسانی معاشرہ مستفید ہو سکتا ہے۔ چنانچہ سورۃ المائدہ آیت ۶۶ میں بنی اسرائیل کے حوالہ سے یہ ارشاد ربانی ہے کہ اگر وہ تورات، انجیل اور انبیاء کرامؑ کی دیگر تعلیمات کو اپنے معاشرہ میں بطور سسٹم نافذ و قائم کرتے تو آسمان بھی ان کے لیے رزق برساتا اور زمین بھی ان کے لیے رزق اگلتی۔ یہ وعدہ صرف بنی اسرائیل کے ساتھ نہیں تھا بلکہ ہمارے ساتھ بھی ہے کہ قرآن کریم کو بطور نظام اپنا لیں تو آسمان اور زمین دونوں طرف سے رزق اور برکتوں کے دروازے کھل جائیں گے۔

اس سلسلہ میں بخاری شریف کی ایک روایت کا حوالہ بھی مناسب معلوم ہوتا ہے جسے روایت کرنے والے صحابی حاتم طائی کے بیٹے حضرت عدی بن حاتمؓ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبویؐ میں صحابہ کرام کے ہمراہ تشریف فرما تھے کہ ایک صاحب نے اپنے علاقہ کے حالات بیان کرتے ہوئے کہا کہ یا رسول اللہ! ہمارے علاقہ میں قتل و غارت، ڈکیتی اور بداَمنی بہت زیادہ ہے، جان و مال اور آبرو محفوظ نہیں ہے۔ ان کی بات ابھی مکمل ہوئی تھی کہ ایک اور صاحب بولے یا رسول اللہ! ہمارے علاقہ میں غربت اور بھوک و افلاس بہت ہے، لوگ بہت تنگ ہیں، کھانے کو نہیں ملتا۔ عدیؓ کہتے ہیں کہ نبی اکرمؐ نے ان دونوں کو کوئی جواب نہیں دیا اور مجھے مخاطب ہو کر فرمایا کہ:

  1. عدی! تم نے حیرہ دیکھا ہے؟ حیرہ ایک شہر کا نام ہے جو بنو غسان کی سلطنت کا پایہ تخت تھا اور اب غالباً کوفہ کا حصہ ہے۔ حضرت عدیؓ نے جواب دیا کہ دیکھا تو نہیں البتہ سن رکھا ہے۔ اس پر جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ عدیؓ! اگر اللہ تعالٰی نے تمہیں کچھ لمبی عمر عطا کی تو دیکھو گے کہ حیرہ سے ایک عورت سونے چاندی کے زیورات سے لدی ہوئی اونٹ کے کجاوے میں بیٹھ کر مکہ مکرمہ تک تنہا سفر کے گی اور پورے راستے میں اللہ تعالٰی کے سوا کسی کا ڈر اس کے دل میں نہیں ہو گا۔ عدیؓ کہتے ہیں کہ میں تعجب اور حیرت سے سوچنے لگا کہ حیرہ سے مکہ مکرمہ آتے ہوئے تو راستہ میں ہمارا قبیلہ بھی آباد ہے اور اپنے قبیلہ کے نوجوانوں کو میں جانتا ہوں کہ ان سے کون سی چیز بچتی ہے، اس لیے سوچ میں پڑ گیا کہ جب وہ عورت سفر کر رہی ہو گی تو میری قوم کے غنڈے اس وقت کہاں ہوں گے؟
  2. لیکن میں ابھی اسی حیرت اور تعجب میں تھا کہ جناب نبی اکرمؐ نے دوسری بات فرما دی کہ عدیؓ! اگر تم مزید کچھ عرصہ زندہ رہے تو دیکھو گے کہ کسرٰی کے خزانے فتح ہوں گے اور مدینہ میں لا کر تقسیم کیے جائیں گے۔ عدیؓ کہتے ہیں میں نے تعجب سے پوچھا یا رسول اللہ! کون کسرٰی؟ وہی جو فارس کا بادشاہ ہے؟ آنحضرتؐ نے فرمایا کہ ہاں وہی۔
  3. عدیؓ کہتے ہیں کہ میں تعجب اور حیرت کے ساتھ اس ارشاد پر غور کر رہا تھا کہ نبی اکرمؐ نے تیسری بات فرما دی کہ عدیؓ! اگر تمہیں کچھ لمبی عمر نصیب ہوئی تو دیکھو گے کہ تم لوگ اپنی زکوٰۃ کا سونا اور چاندی ہتھیلی پر رکھ کر بازاروں میں آوازیں دو گے کہ کوئی زکوٰۃ کا مستحق ہو تو آ کر وصول کر لے مگر تمہیں اس سوسائٹی میں کوئی زکوٰۃ کا مستحق نہیں ملے گا۔
    محدثینؒ کہتے ہیں کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عدی بن حاتمؓ کو خطاب کر کے ان دو آدمیوں کے سوال کا جواب دیا تھا جنہوں نے اپنے علاقوں کے حالات بیان کرتے ہوئے بداَمنی، قتل و غارت، غنڈی گردی، بھوک، افلاس، فاقہ کشی اور غربت کی شکایت کی تھی۔ ان کے جواب میں جناب نبی اکرمؐ نے فرمایا کہ جو تعلیمات میں پیش کر رہا ہوں ان پر حوصلہ اور اعتماد کے ساتھ عمل کر کے دیکھو، اس درجہ کا امن نصیب ہو گا کہ حیرہ (کوفہ) سے مکہ مکرمہ آتے ہوئے راستہ میں جان، مال اور آبرو کا کوئی خطرہ لاحق نہیں ہو گا اور اس درجہ کی خوشحالی ہو گی کہ لوگ زکوٰۃ کی رقم ہاتھوں میں اٹھائے بازاروں میں آوازیں دے کر زکوٰۃ کا مستحق تلاش کریں گے مگر سوسائٹی میں انہیں کوئی زکوٰۃ کا مستحق نہیں ملے گا۔

اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیشگوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی اور اسلامی نظام کی برکت سے دنیا نے امن و خوشحالی کے اس دور کا نظارہ کیا کہ آج پوری نسل انسانی دوبارہ اس کے لیے ترس رہی ہے۔ اس لیے اگر شہزادہ چارلس کو زکوٰۃ کے نظام سے دنیا کی تقدیر بدلتی دکھائی دیتی ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں، دنیا اس سے پہلے اس بابرکت نظام کی بدولت نسل انسانی کی تقدیر بدلنے کا منظر دیکھ چکی ہے اور آئندہ بھی انسانی معاشرہ کی تقدیر جب کبھی بدلی اسی نظام کے ذریعے بدلے گی۔

   
2016ء سے
Flag Counter