(سالِ رواں کے آغاز میں ’’مولانا ارشد مدنی سوشل میڈیا ڈیسک‘‘ کی طرف سے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی قدس اللہ سرہ العزیز کی یاد میں ’’عشرۂ شیخ الہندؒ‘‘ کا اہتمام کیا گیا جس کے تحت مسلسل دس روز تک اکابر اہل علم و دانش کے خطابات کا سلسلہ چلتا رہا اور سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھر میں ہزاروں افراد نے اس سے استفادہ کیا۔ اختتامی نشست دارالعلوم دیوبند کے صدر المدرسین حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم کی زیرصدارت انعقاد پذیر ہوئی جس میں مہمان خصوصی ندوۃ العلماء لکھنو کے رئیس حضرت مولانا سید رابع ندوی دامت برکاتہم تھے، جبکہ بذریعہ فیس بک اختتامی خطاب پاکستان شریعت کونسل کے سیکرٹری جنرل اور جامعۃ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے صدر مدرس مولانا زاہد الراشدی کا ہوا جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔ ادارہ نصرۃ العلوم)
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ میرے لیے یہ انتہائی سعادت کی بات ہے کہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی قدس اللہ سرہ العزیز کی یاد میں ان کے افکار و تعلیمات کے فروغ کے لیے منعقد ہونے والی اس کانفرنس میں حاضری، بزرگوں کی زیارت اور کچھ عرض کرنے کا موقع مل رہا ہے۔ اور اس کے ساتھ یہ بات میرے لیے دوہری سعادت کی ہے کہ اپنے دو مخدوم و محترم بزرگوں حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم اور حضرت مولانا سید رابع ندوی دامت برکاتہم کے زیرسایہ اس مجلس میں گفتگو کا اور ان کی برکات اور دعاؤں کے ساتھ کچھ عرض کرنے کا شرف مل رہا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کانفرنس کے منتظمین کو جزائے خیر سے نوازیں اور ہمیں حضرت شیخ الہندؒ کے افکار و تعلیمات اور ان کے مشن و جدوجہد کے صحیح ادراک کے ساتھ اپنے مستقبل کا پروگرام طے کرنے کی توفیق عطا فرمائیں، آمین یا رب العالمین۔
شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندیؒ کے حوالے سے جب ہمارے حلقے میں بات ہوتی ہے تو میں دو باتیں عام طور پر عرض کیا کرتا ہوں۔ پہلی یہ کہ دیوبند کی تحریک کیا ہے؟ دیوبند کا فکر کیا ہے؟ دیوبند کا فلسفہ کیا ہے؟ دیوبند کا ہدف کیا ہے؟ اسے اگر کسی شخصی قالب میں دیکھنا چاہیں تو وہ حضرت شیخ الہندؒ کی ذات گرامی جس میں دیوبند کے فکر، فلسفہ، تعلیم، مشن اور جدوجہد کا ایک فرد کامل اور شخصیت کی شکل میں نمونہ ہمارے سامنے ہے۔ میں دوستوں سے کہا کرتا ہوں کہ دیوبندیت کو اگر پہچاننا ہو کہ دیوبندی کیا ہے تو حضرت شیخ الہندؒ کا مطالعہ کریں کہ ان کی شخصیت میں دیوبندیت اپنے تمام شعبوں اور تمام تر لوازمات کے ساتھ جھلکتی ہے۔
دوسری بات یہ عرض کیا کرتا ہوں کہ شیخ الہندؒ برصغیر کی ملی تاریخ کا سنگم ہیں۔ شیخ الہندؒ سے پہلے بلکہ خود حضرت شیخ الہندؒ تک ہمارے اکابر نے برصغیر کی آزادی کے لیے مسلح جنگیں لڑی ہیں جو تاریخ آزادی کا ایک مستقل باب ہے، حتٰی کہ وہ تحریک جسے ہم تحریک شیخ الہندؒ اور تحریک ریشمی رومال کہتے ہیں جبکہ جرمن وزارت خارجہ کی رپورٹوں کے مطابق اس کا نام ’’برلن پلان‘‘ تھا، حضرت شیخ الہندؒ نے جس انداز سے وہ تحریک منظم کی اور جو فلسفہ دیا وہ برصغیر کی آزادی کا ایک مکمل آئیڈیا تھا۔ اور حضرت شیخ الہندؒ کی شخصیت کو سنگم اسی حوالے سے کہتا ہوں کہ وہ عسکری تحریکات کی آخری شخصیت اور عسکری تحریکات سے برصغیر کے مسلمانوں کو عدم تشدد کی طرف موڑنے والی پہلی شخصیت تھے۔ انہوں نے عسکری جنگوں کے اس دور کا اختتام کر کے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو پراَمن تحریک، عدم تشدد اور نئے دور کے تقاضوں سے متعارف کرایا، اور ایسی شخصیت بن گئے جو برصغیر کی تحریک آزادی کے ایک دور کا اختتام اور ایک نئے دور کا نقطۂ آغاز ہے۔
حضرت شیخ الہندؒ کے مشن کے حوالے سے ایک تو ان کا تعلیمی دائرہ ہے، جو صرف تعلیم کے لیے نہیں تھا بلکہ ایک مقصد کے لیے تھا، میں اس کی طرف حضرت شیخ الہندؒ کے ہی الفاظ میں توجہ دلانا چاہوں گا اپنے آپ کو بھی اور آپ سب حضرات کو بھی کہ حضرت مولانا مناظر احسن گیلانیؒ نے حضرت شیخ الہندؒ کے ارشاد گرامی کا ذکر کیا ہے کہ ۱۸۵۷ء میں جو ناکامیاں ہوئی تھیں، حضرت شیخ الہندؒ فرماتے ہیں کہ میرے استاد گرامی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے ان ناکامیوں اور نقصانات کی تلافی کے لیے دیوبند کا مدرسہ بنایا تھا۔ ان نقصانات کی تلافی کا دائرہ کیا ہے؟ ذرا اس پر ایک نظر ڈال لینی چاہیے۔
ہمارا یہ دائرہ علمی بھی ہے، فکری بھی ہے، ثقافتی بھی ہے، تہذیبی بھی ہے، سیاسی بھی ہے، اور معاشرتی بھی ہے۔ میں ۱۸۵۷ء سے پہلے کی نہیں بلکہ ۱۷۵۷ء سے پہلے کی بات کروں گا کہ ہماری پوزیشن کیا تھی جب ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال میں قدم رکھا اور سراج الدولہؒ کو شہید کر کے برصغیر میں اپنی مداخلت کا آغاز کیا تھا، اس وقت سے لے کر ۱۸۵۷ء تک ایک دور ہے۔ ۱۸۵۷ء سے پھر براہ راست برطانوی استعمار آیا، تاج برطانیہ آگیا۔ اس کے بعد کا نوے سال کا دوسرا دور ہے۔ ان دونوں ادوار کو دیکھ لیں۔
۱۷۵۷ء سے پہلے ہماری پوزیشن کیا تھی؟سیاسی اعتبار سے تو میں اس موقع پر بات نہیں کر سکوں گا لیکن تعلیمی اعتبار سے عرض کروں گا جس کی طرف شیخ الہندؒ نے دوبارہ ہمارا رخ موڑنے کی کوشش کی۔ ہمارے ہاں تعلیمی اداروں میں درس نظامی ایک معروف نصاب رائج تھا جو صرف دینی علوم پر مشتمل نہیں تھا اس میں عصری علوم بھی شامل تھے۔ درس نظامی جو ملا نظام الدین سہالویؒ سے منسوب ہے اورنگزیب عالمگیرؒ کے دور سے اس کا آغاز ہوا تھا اور اورنگزیب نے ہی لکھنو میں فرنگی محل کی یہ کوٹھی ملا نظام الدین سہالویؒ کو عطا کی تھی۔ وہاں سے درس نظامی کا آغاز ہوا تو اس وقت کی ضروریات کیا تھیں؟ حضرت شیخ الہندؒ کے تعلیمی ذوق کا پس منظر دیکھنے کے لیے اس بات پر غور کریں کہ درس نظامی کا آغاز جب ہوا تو اس وقت کا عمومی ماحول کیا تھا؟ عمومی ماحول یہ تھا کہ فارسی دفتری اور عدالتی زبان تھی، فقہ حنفی اور فتاویٰ عالمگیری ملک کا قانون تھا، اور یونانی فلسفہ پر مبنی معقولات ملک کی علمی و فکری زبان تھی۔ قرآن کریم، حدیث و سنت اور شریعت و فقہ کے ساتھ ساتھ فارسی زبان بھی ہماری تعلیم کا حصہ تھی، اور فقہ حنفی کو تو قانون کے طور پر پڑھایا جاتا تھا۔ اب بھی ہم فقہ پڑھتے اور پڑھاتے ہیں، میں بھی الحمد للہ پڑھاتا ہوں، مگر ایک درسی اور علمی ضرورت کے دائرے میں، لیکن تب یہ قانون کے طور پر پڑھائی جاتی تھی اور یہ ہمارا تعلیمی سلسلہ چلا آرہا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے اس نظام میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں کی دوسرے معاملات سنبھالے، مگر سیاسی نظام کو تبدیل کیا ۱۸۵۷ء کے بعد تاج برطانیہ نے۔ جب وہ یہاں قابض ہوئے اور نیا سسٹم بنایا تو ہم زیرو پوائنٹ پر چلے گئے۔ ۱۸۵۷ء کے بعد برصغیر اور جنوبی ایشیا کے مسلمان زیرو پوائنٹ پر چلے گئے۔ ہم نے ازسرنو اپنی زندگی کا آغاز کیا، اس آغاز میں دین و ملت کے ایک بڑے بنیادی تقاضے کی نمائندگی دارالعلوم دیوبند نے کی اور دارالعلوم کا پہلا طالب علم حضرت شیخ الہند محمود حسن قدس اللہ سرہ العزیز تھے۔
میرے طالب علمانہ خیال کے مطابق حضرت شیخ الہندؒ نے اپنی تعلیمی جدوجہد کا نقطۂ عروج اسی پہلے والے دور کی طرف واپسی کو قرار دیا کہ ہم ۱۷۵۷ء سے پہلے والی پوزیشن پر واپس جائیں اور ہمارا تعلیمی نظام عصری و دینی دونوں تقاضوں پر مشتمل ہو۔ دینی و علمی تقاضوں پر بھی اور عصری تقاضوں پر بھی کہ اس وقت دونوں درس نظامی کا حصہ تھے۔ ہمارے ہاں پاکستان کے ماحول میں جب درس نظامی کے نصاب کو آگے بڑھانے کے بارے میں بات چلتی ہے تو ہمارے ذمے یہ بات لگا دی جاتی ہے کہ ہم نے دنیا اور دین کو تقسیم کر دیا اور ہم نے مولوی اور مسٹر کی تقسیم پیدا کر دی۔ میں کہا کرتا ہوں کہ نہیں بھئی! ہم نے یہ تقسیم نہیں کی۔ جب تک تعلیمی نظام درس نظامی کے ٹائٹل کے ساتھ مولوی کے ہاتھ میں تھا عصری اور دینی علوم اکٹھے پڑھائے جاتے تھے۔ یہ تقسیم ۱۸۵۷ء کے بعد ہم پر مسلط کی گئی ہے جب برطانوی استعمار نے نیا تعلیمی نظام بنایا تو اس میں سے کچھ علوم نکال دیے، قرآن کریم اور حدیث و سنت نکال دیے تھے، فقہ و شریعت نکال دی تھی، فارسی نکال دی تھی، عربی نکال دی تھی، اور ان کی جگہ اپنے علوم شامل کیے تھے۔ انہوں نے جو مضامین اور علوم نصاب سے نکالے وہ ہم نے سنبھال لیے۔ ہمارے بزرگوں نے اس اثاثے کو سینے سے لگایا اور بے سروسامانی اور بے سہارگی کی حالت میں اس نظام کو چلایا۔ میں بتایا کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں کچھ عرصہ پہلے تک بلکہ میرے بچپن تک ایسا ہی تھا کہ مسجد کی چٹائیاں اور محلے کی روٹیاں، یہ ہمارا مدرسہ ہوتا تھا۔ اب تو بہت سی سہولتیں آگئی ہیں، تکلفات آ گئے ہیں۔ ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ سہولتوں میں اضافہ فرمائے، لیکن تب کس بے مائیگی کی اور ظاہری سروسامان سے محرومی کی کیفیت میں اور کس ایثار و قربانی ، صبر و حوصلہ اور استقامت کے ساتھ ہمارے بزرگوں نے وہ نظام قائم رکھا۔ وہ علوم جو برطانوی استعمار نے ریاستی تعلیمی نظام سے نکال دیے تھے ، ہمارے بزرگوں نے ان علوم کو سنبھالا۔ قرآن کریم اور حدیث رسول کو، شریعت اور فقہ کو، عربی کو، اور فارسی کو بھی ایک حد تک۔ اور صرف تعلیمی دائرے میں نہیں بلکہ عملی دائرے میں بھی۔ میں اس سے اگلی بات کرنا چاہوں گا کہ ایک ہے تعلیمی دائرہ کہ درس و تدریس ہوتی رہی، نہیں بلکہ عملی ماحول کو بھی باقی رکھا، آج سے ڈیڑھ دو سو سال پہلے کے مدارس کے ماحول اور آج کے ماحول کا تقابل کر لیں، آپ کو لباس میں، وضع قطع میں، گفتگو میں، ادب و آداب میں، باہمی احترام و تعلق اور استفادے میں کوئی جوہری فرق نظر نہیں آئے گا۔ ہاں معیار کا فرق پڑتا ہے کہ کہاں حضرت ملّا نظام الدین سہالویؒ اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ اور کہاں ہمارے جیسے ناکارہ لوگ، لیکن ماحول کے بنیادی دائرے آج بھی وہی ہیں۔ میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ایک ہے تعلیم کا باقی رہنا، وہ تو ہے ہی، لیکن ہمارے لیے الحمد للہ جو فخر کی بات ہے کہ ان علوم کو بیرونی قابضین نے ختم کرنا چاہا تھا، ہمارے بزرگوں نے سینے سے لگایا اور گراس روٹ لیول پر چلے گئے، زمین پر بچھ کر انہوں نے ان علوم کو سنبھالا، اور اس اگلی بات کہ اس ماحول اور تہذیب کو بھی سنبھالا۔ جسے ثقافت اور کلچر کہتے ہیں، آج اگر دنیا میں اس پرانی ثقافت کا کوئی منظر دکھائی دیتا ہے تو جنوبی ایشیا میں ہی ہے۔ آج بڑی بڑی جگہوں پر وہ کلچر ختم ہو گیا اور جدید کلچر میں مدغم ہو گیا ہے لیکن ہمارے ہاں دینی مدرسہ کے ماحول نے، شیخ الہندؒ کے شاگردوں نے اور ان کے شاگردوں نے، ان کے خوشہ چینوں نے اس ماحول کو باقی رکھا ہوا ہے، الحمد للہ تعالیٰ۔
حضرت شیخ الہندؒ جب مالٹا کی اسارت سے واپس آئے تو انہوں نے دو باتیں کہیں، میں ان کی طرف آپ کی اور اپنی توجہ مبذول کرانا چاہوں گا۔ تحریک شیخ الہندؒ کے بعد ملک میں آزادی کے لیے جو پر اَمن تحریکیں چلی ہیں، عدم تشدد پر مبنی تحریکیں جس کا آج تک تسلسل چلا آ رہا ہے، ان شاء اللہ اسی کا رہے گا کہ یہ پر اَمن جدوجہد، عدم تشدد اور سیاسی جدوجہد کا دور ہے۔ حضرت شیخ الہندؒ نے جو فکر فراہم کی اور اس فکر پر جو قیادت سامنے آئی میں اس کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ وہ قیادت مشترک تھی۔ تحریک خلافت کو دیکھ لیں کہ اس میں کون کون لوگ تھے؟ دیوبند اور علی گڑھ دونوں کی تربیت یافتہ مشترکہ قیادت تھی۔ شیخ الہندؒ کا ایک سبق یہ بھی ہے کہ ملی تحریکات کی قیادت مشترک ہونی چاہیے۔ اگر آپ اسے ایک لطیفہ کے انداز میں نہ لیں تو یہ قیادت اتنی مشترک تھی کہ وزیرآباد میں، جو حضرت مولانا ظفر علی خانؒ کا شہر ہے، ان کی یاد میں ایک تقریب تھی میں نے اس میں عرض کیا کہ یار دیکھو یہ حضرت شیخ الہندؒ کا کمال تھا کہ ظفر علی خانؒ جو علی گڑھ یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے مگر مولانا کہلاتے ہیں ، محمد علی جوہرؒ جو یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے لیکن مولانا کہلاتے ہیں، اور مولانا شوکت علی کا بھی اسی انداز میں تعارف ہوتا ہے، تو شیخ الہندؒ کی فکر کی ایک پروڈکشن یہ بھی ہے کہ قیادت کو مشترک کر دیا، تحریک آزادی میں بھی، اور اگر ہم تحریک پاکستان کی بات کریں تو اس میں بھی قیادت مشترک نظر آئے گی۔ چنانچہ تعلیم کے اشتراک کی طرح قیادت کا اشتراک بھی حضرت شیخ الہندؒ کی محنت کا ثمرہ ہے۔ اور وہ باہمی نفرت جو پیدا کی گئی تھی اور کسی درجہ میں اب بھی ہے، اس باہمی منافرت کے باوجود علمی میدان میں دونوں اکٹھے ہو جاتے ہیں اور سیاسی قیادت کے میدان میں بھی دونوں کا اشتراک ہمارے سامنے ہے، آزادی سے پہلے بھی اور بعد بھی، میں اسے حضرت شیخ الہندؒ کی فکر ، دعاؤں اور تربیت کا ایک ثمرہ سمجھتا ہوں۔
حضرت شیخ الہندؒ کے حوالے سے میں ایک بات اور عرض کرنا چاہوں گا، یہ تعلیمی دائرے کی بات بھی ہے اور فکری دائرے کی بات بھی ہے۔ حضرت شیخ الہندؒ کے شاگردوں نے جب ان کے دائرے کو آگے بڑھایا۔ مولانا برکت اللہ بھوپالیؒ، مولانا محمد میاں انصاریؒ نے اور مولانا عبید اللہ سندھیؒ نے جب اس دائرے کو آگے بڑھایا تو میں ان کی علمی و فکری جدوجہد کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ مولانا محمد میاں انصاریؒ کے دو رسالے جو انہوں نے سیاسی فکر و فلسفہ کی تجدید کے لیے لکھے، ایک ’’انواع الدول‘‘ اور دوسرا ’’دستور اساسی ملت‘‘ کے نام سے۔اسے حضرت شیخ الہندؒ اور ان کے شاگردوں کا کارنامہ سمجھیں کہ وہ دو رسالے مختصر سے ہیں، ایک انواع الدول کے نام سے کہ دنیا کی حکومتوں کا عصری سیاسی نظم کیسا ہے، اور دوسرا دستور اساسی ملت جس میں انہوں نے ’’حکومت الٰہیہ‘‘ کا ٹائٹل استعمال کیا ہے، میں تفصیلات میں جائے بغیر میں حضرت شیخ الہندؒ کی فکر کا ایک نتیجہ بتا رہا ہوں کہ سیاسی فکر میں تجدید ہوئی کہ ہمارا ماضی کا سیاسی سسٹم مختلف تھا اور ہم کئی ادوار سے گزرے ہیں۔ خلافت راشدہ کا اپنا دائرہ تھا اور ہمارا سب سے مثالی اور آئیڈیل دور وہی ہے۔ اس کے بعد خاندانی خلافتیں آئی ہیں، بنو امیہ کی، بنو عباس کی، اور عثمانیوں کی۔ ہم خلافت کے طور پر ان سب کا احترام کرتے ہیں حتٰی کہ خلافت عثمانیہ پر طرح طرح کے اعتراضات کے باوجود ہم نے اس کا دفاع کیا اور اس کے تحفظ کے لیے جنگ لڑی۔ لیکن آج کا دور خاندانی حکومتوں کا نہیں ہے، ہمارا تسلسل بنو امیہ کی خلافت سے لے کر خلافت عثمانیہ کے آخر تک خاندانی خلافتوں کا رہا ہے، اب خاندانی حکومتوں کا دور نہیں رہا۔ اور ہمارے حلقے میں اس فکری تجدید کی بات اگر کسی نے کی ہے تو حضرت شیخ الہندؒ کے حلقے نے سب سے پہلے کی ہے۔ ’’انواع الدول‘‘ کے نام سے، ’’دستور اساسی ملت‘‘ کے نام سے، جبکہ ’’حکومت الٰہیہ‘‘ کے عنوان سے اس کے اصول پیش کیے ، اور میں اسے شیخ الہندؒ کی فکر کی ایک نئی جہت تصور کرتا ہوں اور اسی حوالے سے اس کا تعارف کراتا ہوں۔
حضرت شیخ الہندؒ کے حوالے سے آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟ اللہ تعالیٰ حضرت شیخ الہندؒ کے درجات بلند سے بلند تر فرمائے، ذرا ان کی جدوجہد پر ایک نظر ڈالیے کہ وہ ہندوستان کی آزادی اور ہماری قومی آزادی کی تحریک تھی لیکن اس کا ایک ٹائٹل ’’جنود ربانیہ‘‘ کا تھا۔ اور اس ٹائٹل کے ساتھ یہ بھی دیکھیے کہ حضرت شیخ الہندؒ نے رابطہ کس کس سے کیا؟ ہم خلافت عثمانیہ کی بات کرتے ہیں، اس زمانے میں مکہ مکرمہ کا جو ماحول تھا اور شریف مکہ کی حکومت کا معاملہ، میں اس تفصیلات میں نہیں جاتا، لیکن جو یادداشتیں برلن سے چھپی ہیں، دو سال پہلے جب میں دیوبند میں منعقدہ شیخ الہندؒ سیمینار میں آیا تھا تو میں نے بعض دوستوں سے عرض کیا تھا کہ ہم نے برطانوی سی آئی ڈی کی دستاویزات تو ’’تحریک شیخ الہندؒ‘‘ کے نام سے مرتب کر دی ہیں اور شائع ہو چکی ہیں، اللہ تعالیٰ حضرت مولانا سید اسعد مدنی ؒ اور حضرت مولانا سید محمد میاںؒ کو جزائے خیر عطا فرمائے کہ وہ رپورٹیں ہمارے سامنے آگئیں، لیکن اس میں جرمنی کا بھی ایک بڑا کردار تھا، میری نظر سے کچھ باتیں گزریں جس کی طرف میں نے توجہ دلائی ہے کہ انہیں بھی ریکارڈ پر لانا چاہیے۔ جرمنی کی سی آئی ڈی کی رپورٹوں میں اس تحریک کا نام ’’برلن پلان‘‘ بتایا گیا ہے اور ان رپورٹوں کے مطابق اس میں جرمن کے علاوہ جاپان بھی شریک تھا۔ میں اس حوالے سے یہ بات کہنا چاہ رہا ہوں کہ حضرت شیخ الہندؒ نے وقت کی ضروریات و ترجیحات کا بھی خیال رکھا اور وقت کی قوتوں کا ماحول بھی دیکھا کہ کونسی قوت سے ہم کیا فائدہ لے سکتے ہیں؟ یہ قوموں اور ان کی تحریکات کی ضرورت ہوتی ہے، ہم ہر کسی کو نظرانداز نہیں کر سکتے اور ہر کسی کو دھتکار نہیں سکتے۔ میری مجبوری یہ ہے کہ میں ’’ان پڑھ‘‘ آدمی ہوں کہ نہ جرمنی زبان جانتا ہوں اور نہ انگریزی، اس لیے میں دوستوں کو توجہ دلاتا رہتا ہوں کہ وہ دستاویزات بھی سامنے آنی چاہئیں۔ یہ جرمن وزارت خارجہ کے ایک افسر اولف شمل ہیں جنہوں نے ریٹائرمنٹ کے بعد یہ یادداشتیں شائع کی ہیں۔
میں حضرت شیخ الہندؒ کے حوالے سے یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ انہوں نے عالمی سوچ دی ہے۔ ملت اسلامیہ کے مختلف طبقات کے درمیان ملی سوچ دی ہے اور مفاہمت پیدا کی ہے، مختلف ملکوں کے درمیان روابط پیدا کر کے عالمی فکر کو اجاگر کیا ہے۔ اسلام تو خود عالمی مذہب ہے جو ’’یا ایھا الناس‘‘ سے اپنا خطاب شروع کرتا ہے اور پوری انسانیت کا مذہب ہے۔ اسلام نے پوری نسل انسانی کی رہنمائی کی ذمہ داری اٹھائی ہے اور اس کا وقت پھر آنے والا ہے ان شاء اللہ تعالیٰ۔ یہ بات درمیان میں متعلقہ ہے یا نہیں لیکن میں عالمی سطح پر آثار دیکھ رہا ہوں، میں تاریخ کا طالب علم ہوں، سماج کا طالب علم ہوں، اور سیاسیات کا طالب علم ہوں، اس بنا پر یہ عرض کر رہا ہوں کہ آنے والا دور اسلام کا ہے، دنیا کی فکر و دانش کروٹیں بدل رہی ہے۔ میں اس پر دو حوالے دوں گا جو آپ کے علم میں ہوں گے لیکن اپنی گفتگو کی تائید میں عرض کر رہا ہوں۔ ایک تو سابق پاپائے روم پوپ بینی ڈکٹ نے ایک کمیٹی بنائی تھی کہ معاشیات کے عالمی نظام میں بڑھتے ہوئے عدم توازن کا حل تلاش کیا جائے۔ میں نے دہلی کے ایک اخبار سے اس کمیٹی کی رپورٹ کا ایک حصہ نقل کیا تھا، کمیٹی نے کہا تھا کہ اس کا حل ایک ہی ہے کہ ہم معاشیات کے ان اصولوں پر واپس چلے جائیں جو قرآن کریم نے بیان کیے ہیں۔ دوسرا حوالہ کہ آکسفورڈ کے ایک نو مسلم ہیں ڈاکٹر یحیٰی برٹ جو ایک انگریز فیملی کے چشم و چراغ ہیں، انہوں نے مسلمان ہو کر اس بات پر تحقیق کی کہ یورپین نسل کے جو لوگ مسلمان ہو رہے ہیں ان کے مسلمان ہونے کا سبب کیا ہے۔ یہ ان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جس میں انہوں نے کہا کہ اسی فیصد لوگ قرآن کریم کے مطالعہ سے مسلمان ہوئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم آج بھی اسلام کی تفہیم اور دعوت کا سب سے بڑا ذریعہ ہے اور انسانی مسائل کے حل کا سب سے بڑا منبع ہے۔ انسانی سماجیات کے مسائل کا قرآن کریم نے جس فطری انداز میں حل پیش کیا ہے آج ایسا کوئی فارمولا کسی کے پاس نہیں ہے۔ چنانچہ ہمیں شیخ الہندؒ کے اس ارشاد کی طرف واپس جانا ہو گا جو انہوں نے مالٹا کی اسارت سے واپس آ کر کہا تھا کہ قرآن کریم کو سمجھ کر پڑھو اور قرآن کریم کے حلقے عام کرو۔
حضرت شیخ الہندؒ نے بنیادی پیغام یہ دیا تھا کہ آپس کے اختلافات کم کر کے ملی ماحول پیدا کرو اور قرآن کریم کے ساتھ فہم کا تعلق قائم کرو۔ حضرت شیخ الہندؒ کی اس آواز کے بعد قرآن کریم کے حلقے قائم ہونا شروع ہوئے، میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاؤں گا، نظارۃ المعارف القرآنیہ جو دہلی میں قائم ہوا، حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کا حلقہ، حضرت مولانا عبید اللہ سندھیؒ کا ادارہ، اور مختلف قرآنی حلقے بنے، میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ بھی ان لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے حضرت شیخ الہندؒ کی اس آواز پر لبیک کہہ کر درس قرآن کریم کے متعدد حلقے قائم کیے، اسی طرح میرے چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ کا قرآن کریم کا مستقل حلقہ تھا۔ میں یہ عرض کرنا چاہ رہا ہوں کہ قرآن کریم کی طرف رجوع اور قرآن کریم کے ساتھ فہم و شعور کا تعلق اور یہ بات کہ قرآن کریم کو سماجی راہنما کے طور پر پڑھا جائے۔ قرآن کریم اور سنت رسول ہمارا مرکز و مرجع ہیں، داخلی طور پر قرآن کریم کے ساتھ فہم و شعور کا تعلق اور دنیا کے سامنے قرآن کریم کو سماجی راہنما کے طور پر پیش کرنا آج ہماری ذمہ داری ہے، بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن قدس اللہ سرہ العزیز کا ہم نام لیواؤں پر قرض ہے۔ میں برصغیر میں دو ہی شخصیتوں کا نام لیا کرتا ہوں فکری و علمی اور سماجی راہنمائی کے طور پر، ایک حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اور ان کے بعد میرے ذہن میں دوسرا نام حضرت شیخ الہند محمود حسن دیوبندیؒ کا آتا ہے۔ ان کا ہم پر قرض ہے کہ جس زبان میں انہوں نے دنیا کو قرآن و حدیث سمجھائے ہیں ہم وہ زبان سیکھیں، وہ ذوق سیکھیں، وہ اسلوب پیدا کریں، اور حضرت شیخ الہندؒ کے فکر و فلسفہ کے مطابق قرآن کریم کو، سنت رسول کو، فقہ و شریعت کو دنیا کے سامنے پیش کریں، یہ ہماری ذمہ داری ہے۔ حضرت شیخ الہندؒ جس طرح ہمارے ماضی کے راہنما تھے اسی طرح ہمارے مستقبل کے راہنما بھی ہیں، اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے علوم و افکار کے صحیح ادراک کی توفیق عطا فرمائے اور ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دین اور ملت کی خدمت کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے، وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔