گزشتہ ہفتے دو تین روز کے لیے ہزارہ کے مختلف مقامات پر جانے کا اتفاق ہوا۔ بٹل کے قریب لمّی کے مقام پر ہماری پھوپھی محترمہ کا انتقال ہو گیا تھا اور میں جنازے پر نہیں پہنچ سکا تھا۔ بعد میں تعزیت کے لیے برادرم حاجی سلطان محمود خان اور دیگر حضرات کے ہمراہ وہاں گیا۔ پھوپھی محترمہ حضرت والد صاحب سے تین سال بڑی تھیں اور طویل علالت کے بعد کم و بیش ترانوے سال کی عمر میں دو ہفتے قبل ان کا انتقال ہوا ہے۔ انتہائی سادہ اور نیک دل خاتون تھیں، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائیں، آمین۔
اچھڑیاں حاضری ہوئی، ایبٹ آباد میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کی مسجد میں درسِ قرآن کریم اور مکی مسجد کیہال میں جامعہ انوار الاسلام کے طلبہ و طالبات سے خطاب کا پروگرام تھا، جب کہ مرکزی جامع مسجد ایبٹ آباد میں دس سال سے مسلسل چلے آنے والے درسِ قرآن کریم کے آخری سبق کی تقریب تھی جو بزرگ عالم دین خطیبِ ہزارہ حضرت مولانا شفیق الرحمٰن نے ضعف اور علالت کے باوجود مکمل کیا ہے۔ دارالعلوم حقانیہ کے شیخ الحدیث حضرت مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب نے قرآن کریم کی آخری دو سورتوں کا درس دیا اور راقم الحروف نے عظمتِ قرآن کریم کے موضوع پر کچھ گزارشات پیش کیں۔ اس قسم کے درسِ قرآن کریم کے حلقوں کو دیکھ کر بے حد خوشی ہوتی ہے کیونکہ اس سے عام لوگوں کا قرآن کریم کے ساتھ فہم کا تعلق قائم ہوتا ہے جو ہماری دینی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ بلکہ میں تو کچھ عرصہ سے ہر جگہ باقاعدہ ترغیب دے رہا ہوں کہ نوجوانوں کے لیے ہر مسجد میں عربی کی بنیادی گرائمر کے ساتھ ترجمہ قرآن کریم اور عقائد و احکام سے متعلقہ منتخب احادیث کے کورسز کا اہتمام کیا جائے، جن میں نوجوان روزانہ بیس منٹ، آدھ گھنٹہ وقت دے کر ضروریاتِ دین کی تعلیم حاصل کریں اور ان کا قرآن و سنت کے ساتھ فہم و ادراک کا تعلق استوار ہو۔
ایبٹ آباد کے قریب مری روڈ پر دھمتوڑ میں جمعیت طلبہ اسلام کے تربیتی کنونشن میں شرکت اور خطاب کا بھی موقع ملا۔ طلبہ کی یہ تنظیم کوئی بیس برس قبل وجود میں آئی تھی اور ایک دور میں اس نے یونیورسٹیوں، کالجز اور دینی مدارس میں سرگرم کردار ادا کیا تھا۔ اس کی بنیاد رکھنے والوں میں راقم الحروف بھی شامل ہے اور میں نے کچھ عرصہ تک اس میں کام بھی کیا ہے، مگر اب وہ اس درجہ میں متحرک نہیں رہی، اور جمعیت علماء اسلام کی صفوں میں پیدا ہونے والے انتشار نے جے ٹی آئی کا شیرازہ بھی بکھیر رکھا ہے۔ خدا کرے کہ طلبہ اور ان کے سرپرستوں دونوں کی پھر سے شیرازہ بندی کی کوئی صورت نکل آئے اور ایک اچھی خاصی دینی قوت ایک بار پھر میدان عمل میں نکل کر ملک میں اسلام کے نفاذ اور اسلامی اقدار کے تحفظ کے لیے مؤثر کردار ادا کر سکے، آمین۔
جے ٹی آئی کے کنونشن میں حضرت مولانا قاضی عبد اللطیف سے بھی ملاقات ہوئی جو حال ہی میں قندھار سے ہو کر آئے ہیں۔ میں نے اخبارات میں ان کے دورہ قندھار کی خبر پڑھی تھی اور وہاں کے حالات معلوم کرنے کے لیے ان سے ملاقات کا خواہشمند تھا، اس لیے ملاقات پر خوشی ہوئی اور ان سے قندھار کی تازہ ترین صورتحال پر تبادلۂ خیال ہوا۔
قاضی صاحب نے بتایا کہ امیر المومنین ملا محمد عمر اور ان کے متعدد وزراء سے ان کی ملاقات ہوئی ہے اور بعض اہم امور پر تفصیلی تبادلۂ خیالات ہوا ہے۔ قاضی صاحب کا کہنا ہے کہ امیر المومنین اور ان کی کابینہ پورے اعتماد اور حوصلے کے ساتھ موجودہ صورتحال اور بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں، اور کسی پریشانی اور گھبراہٹ کے بغیر وہ اپنے اس عزم پر قائم ہیں کہ عالمی دباؤ کے باوجود وہ افغانستان میں مکمل اسلامی نظام قائم کریں گے اور اسلامی احکام و قوانین کے نفاذ میں کسی قسم کی لچک اختیار نہیں کریں گے۔
قاضی صاحب نے گفتگو کی بعض تفصیلات بتائیں تو قلبی خوشی ہوئی کہ بعض اہم باتیں جو موجودہ حالات کے تناظر میں طالبان حکومت کی قیادت سے میں خود کرنا چاہ رہا تھا، وہ مجھ سے بہتر انداز میں قاضی صاحب نے ان سے کہہ دی ہیں، اور طالبان قیادت نے ان سے اتفاق بھی کیا ہے۔ خاص طور پر افغانستان میں اسلامی نظام کے دستوری اور قانونی ڈھانچے کی تشکیل میں میری خواہش تھی کہ طالبان حکومت پاکستان کی ’’اسلامی نظریاتی کونسل‘‘ کے کام سے استفادہ کرے، جو اسلامائزیشن کے علمی و فکری ہوم ورک کے طور پر نہ صرف پاکستان بلکہ پورے عالمِ اسلام میں امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ اور اسے علمی مواد اور ثقاہت کے حوالے سے یہ درجہ حاصل ہے کہ دنیا کا کوئی بھی مسلم ملک اسلامائزیشن کے پروگرام میں اس سے استفادہ کر سکتا ہے۔ مولانا قاضی عبد اللطیف نے، جو خود بھی اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن رہے ہیں، بتایا کہ انہوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کی بعض اہم سفارشات اور قانونی مسودات امیر المومنین ملا محمد عمر حفظہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کیے ہیں جس پر انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ان سے استفادہ کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
افغانستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے بعد طالبان حکومت کے لیے سب سے زیادہ ضروری اور سب سے زیادہ حساس مسئلہ اسلامی حکومت کے دستوری اور قانونی ڈھانچے کی تشکیل کا ہے۔ کیونکہ ایک واضح دستوری اور قانونی ڈھانچے کی تشکیل اور اس کی بنیاد پر ایک عملی سوسائٹی کے قیام کے بعد ہی دنیا کے سامنے ایک صحیح اسلامی حکومت اور اسلامی معاشرہ کا نقشہ پیش کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ طالبان حکومت نے یہ مرحلہ اگر خیر و خوبی کے ساتھ طے کر لیا تو ان کی اسلامی حکومت نہ صرف دنیا بھر کی مسلم حکومتوں کے لیے آئیڈیل ثابت ہو گی، بلکہ گلوبلائزیشن کی طرف تیزی سے بڑھتے ہوئے اس دور میں ایک نئے فطری اور عالمی نظام کی متلاشی اقوام کے لیے بھی راہنمائی کا سرچشمہ بنے گی۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ایسا ہی ہو، آمین ثم آمین۔